آزاد کشمیر میں اچھی حکمرانی آسان اور سلجھا ہوا معاملہ نہیں

 آزاد کشمیر میں اچھی حکمرانی کا منصوبہ مسلم لیگ ن کے لیے آسان اور سلجھا ہوا معاملہ نہیں ہے ۔آزاد کشمیر میں تعلیم ، صحت ،زراعت ،اطلاعات ،سیاحت ، جنگلات برقیات سمیت 17کے قریب وزارتیں قائم ہیں مگر معلوم نہیں کہ کونسی وزارت کارہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہے ۔ مظفرآباد کے سیکرٹریٹ میں محکمہ زراعت کے دفتر میں ڈائریکٹر ٹماٹوزکی تختی تو اویزاں ہے ریاستی شہریوں کو معلوم نہیں کہ یہ ڈائریکٹر صاحب آزاد کشمیر میں ٹماٹروں کی پیداوار کیلئے کیا اقدامات کررہے ہیں ۔ محکمہ تعلیم میں سینکڑوں ایسے سکول و کالج قائم ہیں جہاں بچوں کی تعداد اساتذہ کی تعداد سے کم ہے ۔سیاسی نمائندوں نے بچوں کی پڑھائی کے بجائے اپنے حلقوں میں لوگوں کے روز گار کیلئے بے شمار تعلیمی ادارے قائم کروا رکھے ہیں جہاں اساتذہ زیادہ اور شاگرد کم ہیں ۔ کچھ اچھائیوں کے ساتھ بے شمار خرابیاں اور کوتائیاں بھی ہیں۔ گزشتہ 5سال کے دوران پبلک سروس کمیشن ریاست کا عضو معطل ہی رہا ۔ریاست کے پڑھے لکھے نوجوان اس ادارے سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھے تھے مگر شفاف انداز میں کلیدی اسامیوں پر بھرتی تو دور کی بات پبلک سروس کمیشن کی تشکیل ہی ممکن نہ ہو سکی۔ حتی کہ اعلی عدالتوں کو مداخلت کرنا پڑی ۔راجہ فاروق حیدر اس صورت حال سے اچھی طرح آگاہ ہیں ۔ اس لیئے کسی ایسے شخص کو پبلک سروس کمیشن کا سربراہ بنایا جائے جو ادارے کی ساکھ بحال کرے اور کلیدی آسامیوں پر شفاف بھرتیوں کا نظام وضح کرے ۔ آزاد کشمیر میں نئی حکومت کے قیام کے بعد دو تین بار مظفر آباد جانا ہوا۔ نلوچی پل مظفر آباد شہر کی خوبصورتی کے لیے شاندار اضافہ ہے ۔مظفرآباد شہر سے سی ایم ایچ کی طرف چڑھائی چڑھتے ہوئے دائیں ہاتھ پر آزاد جموں و کشمیر ٹیلی ویژن کی خستہ حال عمارت اپنی بربادی، نااہلی اور عدم توجہی کی کہانی خود بیان کرتی ہے۔ حال یہ ہے کہ مظفرآباد سمیت دس اضلاع کا کوئی بھی کیبل آپریٹر آزاد جموں کشمیر ٹیلی ویژن کی نشریات دکھانے پر آمادہ نہیں ہے۔ جبکہ زیادہ تر علاقوں میں آزاد جموں و کشمیر ٹیلی ویژن اور پاکستان ٹیلی وژن کے سگنلز نہیں آتے ۔ مقامی ایف ایم ریڈیو نشریات کے علاوہ ریڈیو پاکستان کی صورت حال بھی یہی ہے چنانچہ لوگوں کے لیے بھارتی ٹی وی اور بھارتی ریڈیو کی نشریات سے استفادہ کے مواقع موجود ہیں ۔ چند دن قبل ٹین کی چادروںسے بنے آزادجموں کشمیر ٹیلی ویژن کے سٹوڈیو میں جناب جسٹس سید منظورحسین گیلانی( سابق قائم مقام چیف جسٹس آزادکشمیر) میرے ساتھ موجود تھے۔ ایر کنڈیشنرزٹین کی چادروںسے بنے اسٹو ڈیو کو ٹھنڈا رکھنے میں ناکام تھے ۔ جناب گیلانی کو گرمی ستارہی تھی ، استفسار پر انہیں بتایا گیا کہ ٹین کی چادروںسے بنے ہال کو ٹھندا رکھنا ناممکن ہے ۔ ایک پروگرام کے دوران ملے ۔پرو گرام کے وقفے میں کہنے لگے میری وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے کہا:ہم نے آپ کو آزادکشمیر تک پہنچا دیا ہے اب آپ ہمیں اسلام آباد تک پہنچائیں:۔ جناب جسٹس سید منظورحسین گیلانی کو معلوم نہیں کہ نواز شریف اس معنی خیز جملے کو سمجھ پائے یا نہیں۔دراصل جسٹس منظور گیلانی یہ کہنا چاہتے تھے کہ مسلم لیگ (ن)کو آزادکشمیر میں اقتدار مل گیا ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت آزادکشمیر کے عوام کو بااختیار بناتے ہوئے اسلام آباد تک پہنچائے یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دلائے۔ اگرچہ یہ آسان اور سلجھا ہوا معاملہ نہیں ہے تاہم جسٹس منظور گیلانی کی سوچ ضرور ہے۔ جسٹس منظور گیلانی مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں آزادکشمیر کی تعمیر و ترقی اور مسائل کے حل کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اب بات صرف ٹوٹی کھمبے تک محدود نہیں رہی۔ لوگ اختیار بھی مانگتے ہیں اور اداروں میں اپنی نمائندگی بھی۔ وفاقی بیورو کریٹ جناب مسعود خان اب آزادکشمیر کے مسند صدارت پر براجمان ہیں۔ اس لئے لگتا ہے کہ آزادکشمیر حکومت ان کے ذریعے وفاق سے بہتر رابطے میں رہے گی اور پیچیدہ اور دیرینہ مسائل کے حل کی طرف قدم بڑھائے گی۔ مسائل کے انبار ہیں ، لوگوں کی محرومیاں اور توقعات بہت ہیں اس لئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لئے آنے والے پانچ سال آسانی سے گزرنے والے نہیں ہیں۔ جب بھی مظفر آباد راولاکوٹ یا باغ جانا ہوتا ہے ۔زلزلے سے متاثرہ ان علاقوں میں بے شمار ادھورے منصوبے منہ چڑھا رہے ہوتے ہیں۔آزاد کشمیر میں پانچ سال پورے کرنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے اچھے یا برے اپنے دن پورے کرلیے ہیں ۔ اب دو تہائی اکثریت والی مسلم لیگ ن کی حکومت سے چنداہم معاملات خاص توجہ مانگتے ہیں ۔سرکاری ملازمتوں میں شفافیت ،سیاحت ،ہا ئیڈرو منصوبے،اچھی حکمرانی گیارہ سال بعد بھی پہلا مسئلہ زلزلہ ہے۔ بری طرح متاثر شمالی آزادکشمیر کے علاقوں مظفرآباد باغ اور راولا کوٹ کی تعمیر نو کے رکے ہوئے کاموں کا معاملہ سرفہرست ہے ۔ سولہ سو کے قریب تعلیمی اداروں کی عمارتیں تکمیل کے لیے فنڈز کے انتظار میں ہیں۔ جبکہ دوسر ااہم ترین مسئلہ منگلا ڈیم متاثرین کا ہے یہ معاملہ میرپور ڈویژن میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے سنگین معاشرتی وسیاسی چیلنج رہا ہے ۔ متاثرین اپنی مکمل بحالی کے لیے اصرار کر رہے ہیں۔ ان مسائل کے علاوہ نئی حکومت کو معاشرے کے مختلف طبقات خصوصاً نوجوانوں اور خواتین میں بڑھتی بد اعتمادی اور محرومی کے احساس کو ختم کرنا ہوگا ۔ آزادکشمیر کی آبادی میں 65فی صد نوجوان ہیں جن میں سے25 فی صد نوجوان25 سال سے کم عمر کے ہیں جو زیادہ تربے روزگار ہیں ۔ سرکاری سطح پر ملازمتوں کے محدود سکوپ کی وجہ سے تعلیم یافتہ مرد و خواتین بھی بے روزگار ہیں۔پرائیویٹ سیکٹر بھی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی ضروریات اور دورجد ید کے چیلنجز سے نمٹنے کے مواقع پیدا کر نے میں ناکام رہا ہے۔ اندازہ ہے کہ آئندہ 5سے 7سال میں نوجوانوں کے لیے تقریباً 3لاکھ ملازمتیںدرکار ہوں گی۔ موجودہ حالات میں ریاست تین ہزار ملازمتیں نکالنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی کیونکہ ریاست میں پرائیویٹ سیکٹر بھی یہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔ ایکٹ 1974 کی رو سے آزاد کشمیر کے معاشی وسائل آزادجموں کشمیر کونسل کے ماتحت ہیںجس کی سربراہی وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہے۔ ان وسائل میں بجلی کی پیداوار، مالیاتی امور، بنکاری، معدنی ذخائر کی دریافت، ایوی ایشن، ہوائی سفر، ریاستی پراپرٹی، لیزنگ، انشورنس تمام اقسام کی آمدن اور ٹیکس شامل ہیں۔ ان تمام شعبوں کی پالیسیاں بنانے میں آزاد کشمیر حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ان معاملات پر آزاد جموں و کشمیر کونسل کے سخت کنٹرول کی وجہ سے خطے میں ترقی کی صورتحال مخدوش ہے۔ ٍعملاً یہ کنٹرول مذکورہ اہم شعبوں میں آزادکشمیر کی حکومت کو ترقیاتی پالیسیاں بنانے سے روکتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر بے روزگاروں غربت اور میعار زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔آزاد جموںو کشمیر کونسل نے کبھی بھی آزاد کشمیر میں سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بیرونی دنیا میں مقیم کشمیری تارکین وطن کی اپنی ریاست میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔

تقریباً دس لاکھ سے زیادہ کشمیری صرف برطانیہ میں اربوں ڈالرز کی ملکیت رکھتے ہیں اور تقریباً 2ہزار بلین ڈالرز سے زیادہ پاکستانی بینکوں میں جمع کراتے ہیں۔ پاکستان کے کمرشل بینکوں کو آزاد خطے کی معاشی امداد کے لیے ایڈ وانس جمع شدہ رقم کا ایک فی صد بھی دینا گوارہ نہیں۔ آزاد جموں وکشمیر کونسل بنکوںکو ریاست میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کرنے ، ملازمتوں کے موقع پیدا کرنے کے لیے اقدامات سے دلچسپی نہیں ہے ۔ہائیڈروالیکٹرک پاور، سیاحت اور انفراسٹرکچر، کی بہتری بھی اہداف میں شامل نظر نہیں آتے ۔ دوسری طرف ریاستی حکومتوں نے پبلک و پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کی بجائے 5,134مربع کلومیٹر کے علاقے کی ٔ45لاکھ آبادی کے لیے دس اضلاع اور32سب ڈویژنز قائم کروائے اور 1لاکھ 25ہزار سے زیادہ افراد کو سرکاری ملازمتیں فراہم کر دیں۔ اس عمل نے پہلے سے سست معاشی نظام کو مزید سست کر دیا۔مالی سال 2016-17 کے 73 ارب 50 کروڑ کے بجٹ میں ترقیاتی مد میں صرف12 ارب روپے رکھے گئے ہیں یعنی 12 ارب روپے خرچ کرنے کے لیے 61ارب50 کروڑ کے ملازم رکھے گئے ہیں۔ ریاستی حکومتوں کی غیر معیاری پالیسیوں کے باعث گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران مقامی صنعت نے ہزار ہا افراد کو بھی بے روزگار کر دیا ۔ گزشتہ چار دھائیوںسے آزادکشمیر سے ٹیکس اکھٹا کرنے والی اتھارٹی آزاد جموں وکشمیر کونسل ٹیکس میں اضافہ کرنے میں ناکام رہی ۔ ریونیو کمانے والی سب سے بڑی کارپوریشنز جن میں واپڈا سرفہرست ہے کو نظر انداز کیا گیا حالانکہ واپڈا آزادکشمیر میں واقع منگلا پاور ہاوس سے پیدا ہونے والی بجلی پر اربوں روپے کا سلیز ٹیکس وصول کرتا ہے۔ یہ رقم آزادکشمیر کے قومی خزانے میں جمع نہیں کرائی جاتی ۔ دوسری جانب اسلام آباد نے حال ہی میں تربیلا ڈیم کے لیے خیبرپختونخوا کو120ارب روپے ، غازی بروتھا کے لیے پنجاب کو 28ارب روپے سوئی گیس کے لیے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں 120ارب روپے دیئے ۔ لیکن آزادکشمیر کا نام کہیں درج نہیں۔ آزادکشمیر کی نئی حکومت موجودہ حالات میں فائدہ مند پوزیشن میں ہے ، اپنا مقدمہ مضبوطی کے ساتھ اٹھائے تو اسلام آباد میں موجود حکومت اس کو رد نہیں کر سکتی ۔ حال ہی میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)نے صوبہ خیبر پختونخوا کے خالص ہائیڈل منافع(این ایچ پی)میں تقریبا 217 فیصد اضافے کی منظوری دے دی، جس کے ساتھ ہی نسبتا کم قیمت کی پن بجلی کی قیمت فروخت میں بھی 16 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔نیپرا کی جانب سے اس فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت کو سالانہ خالص ہائیڈل منافع کی مد میں اب 6 ارب کے بجائے تقریبا 19 ارب روپے حاصل ہوں گے۔منافع میں اضافے کی منظوری وزارت پانی و بجلی اور خیبر پختونخوا حکومت کے درمیان رواں سال کے آغاز میں ہونے والے معاہدے کے تحت، واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی(واپڈا)کی درخواست پر دو ماہ تک سماعت کے بعد دی گئی۔۔واپڈا کی کی جانب سے صوبہ پنجاب اور آزاد کشمیر کے این ایچ پی میں اضافے کی بھی درخواست کی گئی تھی، تاہم نیپرا نے اس کی منظوری نہ دیتے ہوے واپڈا اور متعلقہ حکومتوں کو مشترکہ مفادات کونسل سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔ مشترکہ مفادات کونسل اور دوسرے اداروں میں آزاد کشمیر حکومت کی نمائندگی نہیں ہے اس لیے حکومت آزادکشمیر کوان مسائل کے حل کے لیے میکنزم تلاش کرنا ہوگا۔نیلم وجہلم ہائیڈل پراجیکٹ ،کوہالہ پراجیکٹ سمیت دیگر زیر تکمیل ہائیڈل منصوبے ہمارے مسائل حل کر سکتے ہیں۔جناب جسٹس سید منظورحسین گیلانی صاحب قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی دور کی بات ہے پہلے کے پی کے کی طرح بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر اسلام آباد سے پائیدار معائدہ تو کریں تاکہ آزاد کشمیر سے سے پیدا ہونے والی بجلی نیشنل گرڈ میں جانے سے پہلے مقامی ضرورت پوری کرے۔ بجلی پوری ملے گی تو جناب گیلانی صاحب ٹین کی چادروںسے بنے آزادجموں کشمیر ٹیلی ویژن کے سٹوڈیو میں آپ کو گرمی نہیں ستائے گی۔پورے آزادکشمیر کے لیے تقریبا400 میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے ۔آزادکشمیر حکومت کے واپڈا سے کئی دوسرے معاملات پر بھی مسائل ہیں۔آزاد کشمیر حکومت واپڈا سے 2.59 روپے فی یونٹ بجلی خرید رہی ہے جبکہ ریاستی کمرشل اور گھریلو صارفین کو 12 روپے سے لیکر20 روپے فی یونٹ فروخت کی جارہی ہے ۔ اس صورت حال میں اگر محکمہ برقیات ریاست کے ایوینومیںاضافہ کاسبب نہیں بن رہا تو کوئی خرابی ضرور ہے ۔آزادکشمیر کے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے 12ارب کا سالانہ ترقیاتی بجٹ ناکافی ہے۔ پاکستان میں صرف لاہور اوریج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کی لاگت کا تخمینہ162 ارب 62 کروڑ ہے۔ راولپندی اسلام آباد کا میٹرو بس کا 22.5کلومیٹر کامنصوبہ 45ارب میں مکمل ہوا ہے۔ پورے آزاد کشمیر میں صرف اورنج ٹرین منصوبہ جتنی رقم دے دی جائے تو کشمیر کے حالات ہی بدل جائیںگے،وفاق اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان معائدے کے تحت آزاد کشمیر کو دی جانے والی رقم میں سالانہ 2فیصد اضافہ ہوتا ہے جبکہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو دی جانے والی رقم میں سالانہ 18فیصد اضافہ کیا جاتاہے اگرچہ آزاد کشمیر حکومت این ایف سی ایوارڈ کی حصہ دار نہیں ہے تاہم آزاد کشمیر کے ترقیاتی بجٹ میں سالانہ 18فیصد اضافہ ہونا چاہیے۔صرف12ارب سے کوئی بڑامنصوبہ نہیں بنایا جاسکتا اتنی رقم سے فیض آباد فلائی اوور جیسا کوئی منصوبہ بھی مکمل نہیں ہو سکتا ۔اب وفاقی حکومت کو بھی آزادکشمیر کے لیے اپنی تجوری کھولنی ہونگی۔ اگر ریاست کے بجٹ میں اضافہ نہ کیا گیاتو پانچ سال کے بعد راجہ فاروق حیدر اور ان کے ساتھیوں کی حالت چوہدری مجید اور ان کے ساتھیوں جیسی ہوگی ۔بدقسمتی سے آزاد کشمیر کے 73ارب روپے کے بجٹ میں 80فیصد رقم سرکاری خرچوں بالخصوص تنخواہوں کی مد میں خرچ ہورہی ہے۔ بڑے ادارے یا کمپنیاں اپنے بجٹ میں سے 35فیصدسے کم رقم انتظامی خرچے یعنی تنخواہوں اور ضروری مدات کے لیے رکھتی ہیں۔ اگر کوئی کمپنی اس مد میں رقم 35فیصد سے بڑھا دے تواسے ناکام قراردیا جاتا ہے۔ اس نظریہ سے دیکھا جائے تو آزاد کشمیر کمپنی دیوالیہ ہے اسے ناکام کہاجاسکتاہے۔مسلم لیگ(ن)آزاد کشمیر کی حکومت نے ابھی30دن بھی پورے کرنے نہیں کیے اس لیے ابھی اسکی سمت اور راستے کااندازہ نہیں کیا جاسکتا پہلے سو دنوں میں سمت اورراستے کا تعین بھی ہوگا اورکارکردگی کا مشاہدہ بھی کیا جاسکے گا۔اس لیے ن لیگ کی حکمت کو پہلے دنوں میں اچھی حکمرانی اور تعمیروترقی کے نئے دور کا شاندار آغاز کرناچاہیے۔اب یہ جواز بھی قابل قبول نہیں ہوگا کہ ہمیں کام کرنے نہیں دیاگیا ہماری، حکومت کمزورتھی یا وفاق نے ہماری مدد نہیں کی ۔نواز شریف کی پارٹی کو آزاد کشمیر میں دوتہائی اکثریت ملنے کا مطلب ریاست میں تعمیروترقی اور اچھی حکمرانی کاشانداردورکاآغاز سمجھا جارہا ہے ۔ عوام کی یہ امید ختم نہیں ہونی چاہیے۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50627 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More