گلگت شہر نہ صرف گلگت بلتستان کا
دارالحکومت ہے بلکہ تجارتی و سیاحتی اعتبار سے بھی گلگت شہر کی اپنی اہمیت
مسلم ہے یہی گلگت شہر اس وقت پورے صوبے کے ملازمین ، عارضی رہائش پذیروں ،
تعلیمی اداروں ، دفاتر سمیت ملازمین کا بوجھ بھی برداشت کررہا ہے اس کے
علاوہ تمام حکومتی سرگرمیوں کا مرکز بھی گلگت شہر ہے اور اعلیٰ سطحی مہمان
بھی گلگت شہر میں ہی اپنا قیام رکھتے ہیں یہ صورتحال گلگت شہر کی اہمیت میں
اضافہ کرتی ہے ماضی میں یہ عمل بارہا دیکھا گیا ہے کہ جب بھی فرقہ وارانہ
فسادات کی بدترین آگ نے شہر کو لپیٹ لیا پورے گلگت بلتستان میں آگ پھیل
جاتی تھی اور گلگت کے کاروباری مراکز کے بند ہونے سے گلگت بلتستان بھر کے
کاروباری مراکز پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے تھے ۔
پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے دورہ گلگت میں اس شہر
کو ’بگ سٹی ‘کا درجہ دینے کا اعلان کیا مگر عملی جامہ نہیں پہناسکے اور
صورتحال جوں کے توں ہی رہی بلکہ حالات بد سے بدتر ہوتے گئے تاہم وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ شہر کی رونقیں بحال ہوتی گئیں کاروباری مراکز رات گئے تک کھلے
رہنے لگے تو شہریوں نے ایک بار پھر سکھ کا سانس لینا شروع کردیا اور چند ہی
عرصے میں اس کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوگئے گزشتہ رمضان کے موقع پر
محکمہ لوکل گورنمنٹ کے زیر اہتمام سٹی پارک گلگت میں رات کے وقت لائٹنگ کا
سسٹم کیا گیا سٹی پارک کے داخلی و خارجی نظام کو کسی حد تک بہتر کیا گیا جس
کی وجہ سے رات گئے لوگ تفریح کے مقصد کے لئے اپنی فیملی کے ہمراہ رخ کرنے
لگے جبکہ بلدیہ گلگت کے چیف آفیسر اور ایڈمنسٹریٹر یعنی اسسٹنٹ کمشنر گلگت
وقتاً فوقتاً خود دورہ کرتے رہے اس دوران مشاہدہ یہ ہوا کہ اس شہر کے لئے
امن کی مثال پانی بلکہ ہوا کی مانند ہے امن کے بغیر اس کی کوئی اہمیت نہیں
تھی جبکہ گلگت ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیر اہتمام سابق کلمہ چوک کے ڈیزائن اور
نام کو تبدیل کرکے ’اللہ چوک ‘رکھا گیا اب بھی سیاحت کی غرض سے آنے والے
لوگ ’اللہ چوک ‘پر نہ ٹھرنے کو اپنا سفر نامکمل سمجھتے ہیں بہرحال ماضی کی
نسبت موجودہ حکومت کے دور میں محکمہ لوکل گورنمنٹ اور گلگت شہر کی خوبصورتی
پر زیادہ توجہ دی گئی اگر چہ کئی مسائل اب بھی حل طلب ہیں تاہم شہر کی
خوبصورتی کے لئے لوکل گورنمنٹ اور گلگت ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اقدامات چند
سوالات کے ساتھ قابل تحسین رہے ہیں ۔
ہفتہ کے روز وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے ’سولڈ ویسٹ
منیجمنٹ کمپنی‘ کے زیر اہتمام گلگت شہر سے کچرے کو تلف کرنے کے لئے لائے
ہوئے ہوئے سوزوکیوں اور چنگ چی رکشوں کا افتتاح کیا اور عوام میں ان چنگ چی
رکشوں اور سوزوکیوں کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لئے باقاعدہ ریلی کی
شکل میں شہر کا دورہ کیا ۔افتتاحی تقریب سے خطاب میں وزیراعلیٰ نے محکمہ
بلدیات کو مضبوط کرنے کا عزم کیا ان کا کہنا تھا کہ گلگت میں 1کروڑ روپے کی
خطیر رقم سے فراہمی آب منصوبے پر کام کررہے ہیں اور شہر میں تجاوزات کے خلا
ف باقاعدہ ایک سیل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کو پولیس ، رینجرز اور
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعاون حاصل ہوگااور شہر میں ٹریفک کے نظام
کو ٹھیک کرنے کے لئے سڑکوں کو کشادہ کیا جائیگا وزیراعلیٰ نے سیکریٹری
بلدیات آصف اللہ کی کارکردگی کو سراہا اور گلگت ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی
کی اضافی زمہ داری بھی انہیں سونپنے کا فیصلہ کیا ۔
گلگت شہر میں موجودہ اعداد و شمار کے مطابق روزانہ کے حساب سے 39ٹن صرف
میونسپل ویسٹ پیدا ہوتا ہے اور میونسپل ویسٹ کو اٹھانے کی جو صلاحیت
انتظامیہ میں رہی ہے وہ 25سے 30فیصد رہی ہے تاہم اس کو ٹھکانے لگانے کے لئے
کوئی بھی طریقہ کار نہیں ہے ۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے جس قدم کا افتتاح
کیا وہ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ ہے تاہم اب تک کی درکار معلومات کے مطابق اس
منصوبے کو سولڈ ویسٹ شفٹ یا ٹرانسفر کہہ سکتے ہیں کیونکہ سولڈویسٹ منیجمنٹ
پورے ایک عمل کا نام ہے جس میں کچرے کو اٹھانے سے لیکر تلف کرنے اور ٹھکانے
لگانے کے کئی مراحل ہیں ویسٹ منیجمنٹ میں چار قسم کے اقدامات ہوتے ہیں جن
میں انڈسٹریل ویسٹ ، ایگریکلچر ویسٹ ، ہزارڈز ویسٹ( مضر )،اور میونسپل ویسٹ
شامل ہیں اب تک اگر دیکھا جائے تو یہ قدم صرف اور صرف میونسیپل ویسٹ پر ہے
کیونکہ گلگت شہر میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر کی وجہ سے شہر خود کچرے کا ڈھیر
بن چکا تھا اور پہلی فرصت میں حکومت نے اس کو ٹھکانے لگانے کا سوچا ہوگا
سولڈ ویسٹ شفٹ یا ٹرانسفر میں گندگی کو اٹھاکے صرف ڈمپ کیا جاتا ہے یا پھر
جلایا جاتا ہے جبکہ میونسپل ویسٹ روزانہ 0.5فیصد کے حساب سے بڑھ رہا ہے
جبکہ منیجمنٹ اس سے بہت مختلف ہے سولڈ ویسٹ میں بائیو گریڈ ایبل (آرگینک
)ویسٹ ، ریسائیکل ایبل (جس کو دوبارہ استعمال میں لایا جاسکتا ہے ) ویسٹ
،میڈیکل ویسٹ سمیت دیگر فضلہ جات بھی ہوتے ہیں جو نہ صرف ناقابل استعمال
ہوتے ہیں بلکہ انہیں ڈمپ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے جن میں ریت کے زرات ، بلاک
و غیرہ شامل ہیں سولڈ ویسٹ منیجمنٹ کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس ویسٹ کو شروع
میں ہی الگ الگ اٹھاتی ہے اور جو چیزیں ان میں سے دوبارہ استعمال ہونے کے
قابل ہیں ان کو مشنری کے زریعے دوبارہ استعمال میں لاتی ہے ویسٹ کولیکشن کو
الگ الگ اٹھانا یا ٹھکانے لگانے سے قبل ان کو الگ الگ کرنا انتہائی مشکل
مگر اہم مسئلہ ہے موجودہ صورتحال میں کسی بھی قسم کے ویسٹ کو بلاتفریق ایک
ہی جگہ دفنانے (ڈمپ ) کرنے کا منصوبہ اپنایا گیا ہے اگر ایسا کیا گیا تو نہ
صرف زیر زمین پانی پر اثرات پڑیںگے بلکہ اس سے ہوا بھی آلودہ ہوگا اور صحت
کے مسائل بھی پیش آئیںگے ۔سولڈ ویسٹ شفٹ کو ڈمپ کرنے کے عمل کو شارٹ ٹرم
منصوبہ کہا جاسکتا ہے صوبائی حکومت نے خطیر رقم خرچ کرکے قلیل عرصے میں اس
کمپنی کا قیام اگر چہ عمل میں لایا ہے تاہم شفٹنگ اور منیجمنٹ کو واضح نہیں
کرسکی ہے ۔
گلگت شہر میں ماہرین کے مطابق 80فیصد میونسیپل ویسٹ دوبارہ استعمال کے قابل
ہے صرف 20فیصد ویسٹ ناقابل استعمال ہے جن میں صرف ملک پیک کے ڈبے اور
پیمپرز وغیرہ ہیں اگر سولڈ ویسٹ شفٹ کا عمل 35سال کا منصوبہ ہے تو سولڈ
ویسٹ منیجمنٹ کا عمل نہ صرف صدیوں پر محیط ہوگا بلکہ ریسائیکلنگ کے عمل سے
انڈسٹریز کا رخ بھی گلگت کی طرف ہوگا اور لوگوں کاروزگار بھی مہیا ہوگا
۔محکمہ بلدیات و لوکل گورنمنٹ کے حوالے سے ایک اور بنیادی مسئلہ جو درپیش
ہے وہ سیوریج سسٹم کا ہے جس وقت وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سولڈ ویسٹ منیجمنٹ
کے مشنری کا افتتاح کررہے تھے اس وقت گلگت شہر کی سڑکیں (خصوصی طور پر
یادگار محلہ اور کشروٹ کا ایریا)ندی نالوں کی شکل اختیار کرگئے تھے جبکہ
اسی گلگت کے علاقے اوشکھنداس (دنیور) میں بارش کے پانی نے تباہی مچاکر رکھ
دیا لوگوں کے لئے شدید آمد و رفت کے مسائل درپیش رہے سولڈ ویسٹ منیجمنٹ
گلگت شہر کے لئے خصوصی طور پر ایک برانچ کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اس کے جڑوں
کی مثال بارش کے پانی کے لئے مناسب انتظام ہے ۔
صوبائی حکومت کی جانب سے سولڈ ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کا قیام اور اقدامات چند
نقائص کے علاوہ ایک بہترین اقدام ہے تاہم یہ قدم اس وقت تک پایہ تکمیل تک
نہیں پہنچ سکتا ہے جب تک عوامی حلقے اس میں اپنا حصہ نہیں ڈالیںگے بدقسمتی
سے حقوق کے نعرے لگالگاکر عوام اپنے فرائض کو بھی بھول چکی ہے یہ سٹی پارک
کی حالت حکومت نے نہیں عوام نے بگاڑی ہے سڑکوں پر قبضہ مافیا حکومت نہیں
بلکہ عوام ہوتے ہیں اگر ہر بندہ اپنے گھر کے سامنے جگہ صاف ستھری رکھے گا
تو کیا مجال ہے کہ محلے میں گندگی پھیل جائے گلگت کے شہریوں میں اتنی حس
ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے کہ ہم جو کچرہ کوڑے دانوں تک پہنچاتے ہیں اسے کسی
تھیلے یا شاپر میں ڈال کے رکھےں تاکہ انہیں اٹھانے میں آسانی پیدا ہوسکے
اگر خطیر رقم خر چ کرکے لائے گئے چنگ چیوں اور سوزوکیوں کو بھی کھلونے سمجھ
کر استعمال کئے جائیں ۔
اگر اسلام آباد اور کراچی کے کسی بھی قسم کے عمل کے رد عمل میں ان چنگ چیوں
اور سوزوکیوں پر حملہ کیا جائے تو سولڈ ویسٹ منیجمنٹ ہی کیا بلکہ جو بھی
میگاپراجیکٹ اس شہر میں آئیگا پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائیگا ۔شہریوں کو
فرائض کی آگاہی کے لئے بھی حکومت وقت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس سے
قبل وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے قراقرم انٹرنیشنل
یونیورسٹی گلگت میں منعقدہ ایک تقریب میں بھی اس عزم کااظہار کیا تھا کہ
شہریوں کو فرائض کی آگاہی کے لئے باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے حکومت اس
پر ضروری قدم اٹھائے گی ۔ |