خوف کا سایہ اور سچ کی تلاش
(Syed Amjad Hussain Bukhari, )
ماس کمیونیکیشن کی گیٹ کیپنگ تھیوری کے
مطابق بہت سارے عوامل کسی بھی خبر کی معروضیت اور حقیقت پسندی میں آڑے آتی
ہے۔ ان میں ایک عمل پریشر گروپس بھی ہیں۔یہ پریشر گروپس میڈیا ہاؤسسز اور
اور صحافیوں پر یکساں اثر انداز ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جہاں صحافی کم آمدن
کی وجہ سے بھوک ، پیا س اور زمانے کی ٹھوکروں سے لڑتا ہے وہیں سچ کی تلاش
میں بھی اسے بعض اوقات مختلف قسم کے دباؤ کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔پچھلے ایک
عشرے سے پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں
ہوتا ہے۔ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی، اطلاعات تک رسائی اور صحافیوں
کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری ادارے فریڈم نیٹ ورک کے مطابق جنوری
سن دو ہزار سے لے کر آج تین مئی، دو ہزار سولہ تک اس جنوبی ایشیائی ملک میں
کل ایک سو چھ صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو قتل کا جا چکا ہے۔آج تین مئی کے
روز منائے جانے والے آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں پریس
فریڈم سے متعلق تازہ ترین اعداد وشمار جاری کرتے ہوئے فریڈم نیٹ ورک کی طرف
سے بتایا گیا کہ پچھلے پندرہ برسوں میں پاکستان میں جتنے بھی صحافی اور
میڈیا کارکن قتل ہوئے، ان میں سے چوبیس کو صوبہ بلوچستان میں، چھبیس کو
خیبر پختونخوا میں، چودہ کو پنجاب میں، ستائیس کو سندھ میں اور بارہ کو
پاکستانی قبائلی علاقوں میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔یہی نہیں تحریک انصاف کے
آزادی مارچ کے دوران جیو نیوز کے حوالے سے تحریک انصاف کے قائد کی جانب سے
کئے جانے والے خطاب کے بعدجیو کے اینکرز اور رپورٹرز کے ساتھ جو ہوا وہ بھی
میڈیا کے لئے ایک تکلیف دہ بات تھی۔ اس کے علاوہ سیاسی کزنز ہی کے دھرنے کے
دوران کارکنان کا پی ٹی وی ہیڈکواٹر پر دھاوا بولا جانا اور عمران خان و
طاہر القادری کی جانب سے حملہ آوروں کی حمایت میں بیان بازی بھی میڈیا کے
سنجیدہ حلقوں کے لئے تکلیف دہ تھا۔اس ساری صورت حال میں صحافیوں کی یونینز
اور دیگر اداروں کا محض بیانات کی حد تک محدود رہنا بھی ایک سوالیہ نشان
ہے۔اسی دوران ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد پیمرا کی جانب سے ہدایات جاری
کی گئیں اور میڈیا میں اس صورت حال پر مکمل بائیکاٹ کیا گیا۔ اس بائیکاٹ کے
بعد میڈیا کے افراد اور میڈیا کے دفاتر پر حملے کئے گئے جس کے بعد بہت تناؤ
کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ میڈیا کے لئے ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک جانب اسے
حکومت کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب پریشر گروپس
صحافیوں کو ڈرانے اور دھمکانے میں مصروف ہیں۔ یہ پریشر گروپ ملٹی نیشنل
کمپنیز، اشتہارات دینے والے ادارے، سیکورٹی ادارے اور سیاسی جماعتیں بھی
شامل ہیں۔ایسے موقع پر جب کہ میڈیا کو دبا? کا سامنا کرنا پڑرہا ہو تو
میڈیا کوریج کیسے کرے؟ یہی سوال جب میڈیا میں تحقیق کرنے والے افراد سے
پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر میڈیا معروضیت پر فوکس رکھے تو ایسے
واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر میڈیا ملٹی نیشنل
کمپنیز اور اشتہارات دینے والے اداروں کے خلاف رپورٹ کرے تو اشتہارات کی
بندش کا خوف آڑے آتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کی مخالفت میں خبر دے تو توڑ پھوڑ
کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔دوسری جانب تحریک طالبان کی کوریج پر پابندی کے
بعد طالبان کی جانب سے ایک فتویٰ جاری کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ وہ
صحافیوں کے قریبی عزیزوں کو اپنی تحریک میں شامل کر یں گے اور صحافیوں کی
جاسوسی کے ساتھ ساتھ ان کو نتھ ڈال کر اپنے مقاصد حاصل کریں گے۔ اس بار
عسکریت پسندوں کے بڑوں کی جانب سے اس کھلی دھمکی کو قومی اور بین الاقوامی
میڈیا میں مناسب کوریج بھی ملی ہے جس کی وجہ سے صحافیوں، بالخصوص پشاور اور
صوبے کے دوسرے علاقوں کے صحافیوں میں خوف پیدا ہو گیا ہے۔ گذشتہ سال نجی ٹی
وی چینل سے وابستہ صحافی جو خبر کی تلاش میں افغانستان تک پہنچ گئے اور چند
ماہ افغان فورسز کی قید میں رہے ، بعد ازاں صحافیوں کے بھر پور احتجاج کے
بعد انہیں افغان حکومت کی قید سے رہائی ملی۔ دنیا میں صحافتی آزادی کے لیے
سرگرم تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ
پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے بارے میں صورتحال بہتری آئی ہے تاہم ملک کے
تمام میڈیا ہاؤسز ’سیلف سینسر شپ‘ کر رہے ہیں۔تنظیم نے پاکستان کی درجہ
بندی میں بہتری کرتے ہوئے اسے گذشتہ برس کے درجے 159 کے مقابلے میں رواں
برس 147 پر رکھا ہے۔آر ایس ایف نے اپنے تازہ جائزے میں کہا ہے کہ پاکستان
میں صحافیوں کو آج بھی انتہا پسند گروپ، سیاسی جماعتیں اورچند نادیدہ قوتیں
نشانہ بنا رہی ہیں۔تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ تمام گروپ اور ادارے اس کی پریس
کی آزادی کے دشمنوں کی فہرست میں شامل ہیں۔لیکن تنظیم نے اعتراف کیا ہے کہ
جب بات سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی کی کوریج کی ہو تو پاکستان کا شمار
ایشیا کے آزاد ترین میڈیا میں ہوتا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اگر اس
خطے کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو بھارت قدرے بہتر 133 نمبر پر،
نیپال 105، افغانستان 120، بنگلہ دیش 144 اور سری لنکا 141 ویں نمبر ہے۔اس
خطے میں پاکستان سے بھی بدترین نمبر پر چین 176 اور ایران 169 نمبر پر
ہیں۔تنظیم کا کہنا ہے کہ ایشیا میں مجموعی طور پر میڈیا کی آزادی میں ابتری
آئی ہے اور اس کی وجہ مشرقی ایشیائی ممالک میں جمہوریت کے میعار میں خرابی
بتائی گئی ہے۔میڈیا کی آزادی کے اعتبار سے دنیا کا بہترین ملک فن لینڈ قرار
پایا ہے جبکہ بدترین ایرٹیریا 180 پر ہے۔پاکستان کا دنیا میں صحافیوں کے
لیے بطور خطرناک ترین ملک شمار ہوتا ہے۔آر ایس ایف اس سروے کو ایک سو اسی
ممالک کے ماہرین کی جانب سے اپنے تیار کیے گئے سوال ناموں کے جوابوں کی
بنیاد پر تیار کرتا ہے۔اس سوال نامے میں اجتماعیت، میڈیا کی آزادی، میڈیا
کا ماحول، شخصی سینسرشپ، شفافیت، قانونی ڈھانچے، خبروں اور معلومات کی
تیاری کے لیے درکار انفراسٹرکچر کے معیار کے بارے میں رائے جمع کی جاتی
ہے۔دنیا میں صحافتی آزادی کے لیے سرگرم تنظیم رپورٹرز ’ود آؤٹ بارڈرز‘ نے
اپنی سالانہ
رپورٹ میں پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے بارے میں بہتری نوٹ کرتے ہوئے اسے
159 سے 147 نمبر پر لے آئی ہے۔ خبر کی تلاش میں ہر وقت مستعد صحافتی کارکن
جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتا ہے اور اسے یقین نہیں ہوتا کہ وہ رات کو گھر
واپس لوٹ پائے گا یا نہیں۔بات صحافی کی ذات تک محدود ہو تو انسان شکوہ کناں
ہو کر درد کا مداوہ تلاش کرے مگر اس ساری صورت حال میں صحافی کا خاندان بھی
زیر عتاب رہتا ہے۔سیلاب،ہڑتال، دھرنوں اور دھماکوں کی کوریج کے دروا ن بھی
پاکستان کے صحافیو ں کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی جو کہ انتہائی تکلیف
دہ عمل ہے۔ کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے میں جب ایک کیمرہ مین شہید ہوا
تو صحافیوں کے تحفظ کے لئے چند آوازیں بلند ہوئیں مگر ملک میں دیگر اٹھنے
والی صداؤں کی طرح یہ آوازیں بھی خاموش ہوگئیں یا کر ددی گئیں۔ ضرورت اس
امر کی ہے کہ صحافتی تنظیمیں اور یونینز مل کر صحافیوں کے حقو ق کے لئے
جدوجہد کریں تاکہ انہیں بھی تحفظ کا احساس ہو سکے۔ یہ بھی خبر کی معروضیت
کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں اور بے باک ہو کر اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں
لیکن صحافیوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ بھی ملک کی سالمیت
کے خلاف آنے والی خبروں پر احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کیوں کہ ہر خبر
نشر کرنے والی نہیں ہوتی اور صحافی کو اپنی معاشرتی ذمہ داری کا خیال بھی
کرنا چاہیے۔ |
|