آکاس بیل کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اس
کے پتے نہیں ہوتے۔اس کے پھول دسمبر میں نکلتے ہیں مارچ میں پک کر زمین پر
گر جاتے ہیں بیجوں سے نازک پودے نکل کر میزبان پودے کو تلاش کرتے ہیں اور
جب انہیں میزبان پودے کی شاخ مل جاتی ہے تو یہ زمین سے رشتہ توڑ لیتے ہین
اس کا رنگ زرد ہوتا ہے آکاس بیل کی چھوٹی چھوٹی جرین مہمان پودے کا رس
چوستی ہیں جس کی وجہ سے پودے کی نشوونما رک جاتی ہے
آکاس بیل جس درخت کو چمٹ جائے اسے سکھا دیتی ہے۔
آج ہمارا پیارا ملک پاکستان بھی ایک ایسے درخت کی مانند ہے جس کے گرد دہشت
گردی، فرقہ وارانہ فسادات، انتہا پسندی،شعور کی کمی اور معاشی بدحالی جیسی
چھوٹی چھوٹی جڑوں نے‘‘عدم برداشت‘‘جیسی آکاس بیل کی شکل اختیار کرلی ہیوہ
وطن عزیز سے لپٹی اس کی یک جہتی،سالمیت،خودداری اور بقا کا رس چوس رہی ہیں
اسے کھوکھلا کر رہی ہیں شدت پسندی اور انتہا پسندی کا بڑھتا رجحان معاشرے
کے لئے زہر قاتل ہے۔
اگر معاشرے میں پھیلے عدم استحکام معاشرتی اور معاشی تنزلی اورعدم تحفط کی
بات کی جائے تو ابتداء فرد کے انفرادی رویے سے ہوتی ہے کہ معاشرے کا
انفرادی فرد اپنے عدم برداشت رویے سے معاشرے کی اجتماعی صورتحال کو بگاڑنے
کا ذمہ دار ہے۔
یہ سمجھنے کے لئے کہ ’’ایک عام انسان میں ’’عدم برداشت کا فقدان کیوں
ہے؟’’معاشرے کے اجتماعی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
میانہ روی،تحمل مزاجی اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا یہ وہ مثبت رویے ہیں جن
سے معاشرے میں امن سکون اور خوبصورتی پیدا ہوتی ہے جن معاشروں میں ان
خوبیوں کی کمی ہوتی ہے وہاں بے چینی، شدت پسندی جارحانہ پن،غصہ، تشدد
لاقانونیت اور بہت سی دیگر برائیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں معاشرے کا اجتماعی حسن
خراب کرتی ہیں اسے گھن کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں
کئی سالوں سے عدم برداشت میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں نظر آرہا ہے ایسا
لگتا ہے ہر فرد میں قوت برداشت ختم ہوتی جا رہی ہیہر فرد کے رویے اور باتوں
سے بیصبری اور بے چینی نمایاں ہے-
اکثر روزمرہ معمول کی زندگی مین پبلک مقامات پر ذرا سی بات پر مختلف افراد
کا آپس میں لڑ پڑنا،کریہ زیادہ مانگنے پرکنڈیکٹر کی شامت، اپنے سٹاپ سے
پہلے یا بعد میں روکنے پر مسافروں میں عدم برداشت، والدین کا بچوں کو ضرورت
سے زیادہ جھڑک دینا،کبھی بچوں کا اپنے والدین سے طویل بحث، اور غصہ دکھانا،
گاڑی کی ٹکر پر سیخ پا ہونا،اوور ٹیک کرنے پر گالیاں دینا،لوڈ شیڈنگ پر غصہ
نکالنا ہمارے عمومی رویئے بن چکے ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے بچے کارٹون پروگرام دیکھ رہے ہیں اتنے میں نیوز ہیڈ
لائنز کا وقت ہوتا ہے صرف ایک لمحے لے لئے ریموٹ مانگنے پر چہرے پر ناگواری
کے تاثرات آ جاتے ہیں انہیں اپنے رویے پر افسوس نہیں ہوتا نیوز ہیڈ لائنز
کچھ طویل ہو جاتی ہیں تو احتجاجا’’واک آؤٹ کر جاتے ہیں یہ رویے لئے جب ہر
فرد عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ بھی اس
کا سلوک ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی بات نہ ہوتے ہوئے بھی اسی کی غلطی ہے۔
بات صرف اتنی ہے کہ اگر کسی سے غلطی ہو جائے اور وہ اسے کھلے دل سے قبول
کرلے اور معذرت کر لے تو لازمی بات ہے دوسرے کو بھی اخلاق کا مظاہرہ کرتے
ہوئے اسے معاف کرنا پڑے گا یوں بات ختم ہو جائے گی مگر بد قسمتی سے بات کو
بڑھایا جاتا ہے۔ہمارا مذہب انسان کو اخلاق کی تربیت دیتا ہے تاکہ معاشرے کا
اہم فرد بن سکے مگر ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ شدت پسندی مذہب کے معاملے
میں ہی دکھائی جاتی ہے-
اسلام نہ صرف رواداری اور میانہ روی کا درس دیتا ہے بلکہ دوسرے مزاہب کا
احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے اگر کوئی زیادتی کرے تو معاف کرنا اس کے
نزدیک افضل ترین ہے مگر بد قسمتی سے مذہب کی اصل روح کو سمجھنے کی بجائے اس
کی اپنی مرضی سے تشریح کی جاتی ہے اور فساد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے
مذہب کا مقصد معاشرے میں برائی کا خاتمہ کر کے امن اور سکون قائم کرنا ہے
اور اس کے لئے ضروری ہے انصاف اور مساوات کو معاشرے میں فروغ دیا جائے۔
اسی لئے معاشرتی نا ہمواریاں بھی عدم برداشت کی ایک اہم وجہ ہے جس کی سب سے
بڑی ذمہ دار حکومت ہیبڑھتی بے روزگاری انصاف کی عدم فراہمی مہنگائی اور عدم
تحفظ آج کے انسان کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ جہاں محبت اور انسانیت کو
چھوڑ کر اس نے طاقت اور اجارہ داری کو اپنا قبیلہ بنا لیا ہے
آئرش شاعر W․B․Yeats نے یہ لائنز ہمارے معاشرے اور سماج کے لئے لکھی ہیں
Things falls apart,center cannot hold,
Mere anarchy is loosed upon the world
جب قانون کتاب تک محدود رہے گا معاشرے میں طاقت دھونس اور دھاندلی کی
حکمرانی ہوگی تو چیزیں مرکز سے ہٹ کر ریزہ ریزہ ہونے لگتی ہیں
سیاست ہو یا سماج افراتفری، انارکی آکاس بیل کی طرح پھیلتی دکھائی دیتی ہے۔
اندرونی تضادات اور انتشار پر قابو پا کر ہی کوئی قوم بڑے سے بڑا ٹارگٹ
حاصل کر سکتی ہے۔
وہ مملکتیں اور قومیں ہمیشہ زوال پذیر رہتی ہین جہاں تضادات اور تعصبات کی
پرورش کرنا خود ریاستی اداروں کا مشغلہ بن جائے یہی وجہ ہے آج ہم بطور
معاشرہ عدم برداشت خونریزی دہشت گردی اور نفرت کی گھٹن آمیز فجا میں سانس
لے رہے ہین ہم مذہب علاقہ زبان نسل اور ثقافت کے خانون میں بٹے ہوئے ہین
اور کبھی ایک قومی طاقت نہین بن سکے۔
ہمیں اپنا سفر یہیں سے شروع کرنا ہے ایک ایسی مثبت فعال اور پائیدار قومی
پالیسی بنانی چاہیے جو ایک خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھ سکیاگر ہم ایک قومی
سوچ تشکیل نہ دے پائے تو پھر اس معاشرے کے ہر فرد میں موجود تنگ نظری تشدد
خونریزی تعصب اور نفرت کو کبھی ختم نہیں کر پائیں گے جو ہماری سیاسی سماجی
معاشرتی اور ریاستی زوال کا سبب ہے۔
ان چھوٹی جڑون کو کاٹ کر ہی ہم اپنے وطن کو اس آکاس بیل سے نجات دلا کر ایک
ایسا مضبوط پاکستن تشکیل دے سکتے ہین کہ جہاں مذاہب،فرقون، قوموں صوبوں
ثقافتون زبانوں اور تہذیبوں کا احترام بھی ہوگا اور پاکستان قومی یکجہتی
اور معاشی ترقی کے نئے سفر پر بھی گامزن ہوگا۔ |