دنیا کا کون سا خطہ ایساہے جہاں کے مسلمان
،یہودی اور عیسائی حضرت ابراہیم ؑکے نام سے واقف نہ ہو؟دنیا کی اکثر آبادی
ان کو اپنا پیشوا اور رہنما مانتی ہیں۔ حضرت موسی ؑ ،حضرت عیسیٰ ؑاور حضرت
محمد ﷺ ان کی اولاد میں سے ہیں اور انہی کی پھیلائی ہوئی روشنی سے دنیا
روشن ہے۔
چار ہزار سال سے زیادہ مدت گذر چکی ہے جب توحید کا علمبردار ،خدائے واحد کا
پیغامبر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ نے سر زمین عراق میں آنکھیں کھولی تھی
۔ اس وقت پوری دنیا خدائے واحد کو بھلاکر سینکڑوں معبودوں کی پرستش میں
منہمک تھی ، روئے زمین میں کوئی فرد ایسا نہ تھا جو اپنے مالک حقیقی
کوپہچانتا ہو اور صرف اسی کے آگے اپنی جبیں خم کرتا ہو، جس قوم میں آپ ؑ
پیدا ہوئے تھے وہ بظاہر دنیاکی ترقی یافتہ قوم سمجھی جاتی تھی لیکن وہی قوم
ضلالت وگمراہی میں ساری قوم سے آگے تھی ، علوم و فنون، صنعت وحرفت میں ترقی
کرلینے کے باوجود انکی عقل اتنی بھی نہ تھی کہ مالک حقیقی کو پہچان سکے اور
گونگے بہرے معبودوں کے سامنے جھکنے کے بجائے سارے جہاں کے پروردگارکے آگے
اپناسرجھکائیں اور مخلوق کومعبود نہ بناکر خالق کو معبود اور عبادت کے لائق
سمجھیں۔
وہ قوم ایسی تھی جو ستاروں اور بتوں کی پرستش کیا کرتی تھی نجوم ، فال گیری
، غیب گوئی اور تعویذگنڈے کا عام چرچاتھا ۔ ان کے درمیان پجاریوں کا ایک
طبقہ تھا جو مندروں کی حفاظت بھی کرتا ، لوگوں کو پوجابھی کراتا، شادی اور
غمی وغیرہ کی رسمیں بھی ادا کرتااور غیب کی باتیں بتانے کا ڈھونگ بھی
رچاکرتاتھا ۔ عام لوگ ان کے پھندے میں ایسے پھنسے ہوئے تھے کہ انہی کو اپنی
اچھی اور بری قسمت کامالک سمجھتے تھے انکی بتائی ہوئی باتوں پر بلا چوں
چراعمل کرتے تھے ۔ الغرض ساری برائیا ں ان کے اندر موجود تھی ایسے ماحول
اور معاشرے میں حضرت ابراہیم ؑ نے آنکھے کھولیں تھی ۔خود آپ کا گھر بتوں کا
بازار بناہوا تھا آپ کے والد بزرگواربتوں کو اپنے ہاتھوں سے بناتے تھے اور
اسے فروخت کرتے تھے انکی تمنا اور آزو یقینا یہی رہی ہوگی کہ آگے چل کر
میرا لڑکا میرے کاروبارمیں ہاتھ بٹائے گا،بلکہ اس سے آگے بڑھ جائے گا، پنڈت
اور مہنت کی گدی کا مالک ہوگا ساری قوم اس کی تعظیم کریگی ۔ لیکن انکوکیا
معلوم کہ جس بتوں کو اپنے ہاتھوں سے بناتاہوں اور جن کے سامنے کھڑے ہوکر
پوجاکرتاہوں انہیں کو میرالاڈلا اپنے ہاتھوں سے مسل دیگا؟ہاں! ہاں! ضرور وہ
انکو مسلے گا، انکی توہین کریگا کیوں کہ یہ بت نہ تو سنتے ہیں نہ دیکھتے
ہیں یہ کیسے کسی کی مرادیں پوری کرسکتے ہیں جب ان کے اندر یہ طاقت نہیں ہے
تو لوگ ان کے سامنے جھکتے کیوں ہیں؟انکو اپنا معبود کیوں مانتے ہیں ؟ لہذا
انکو نیست نابود کرناضروری ہے۔
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑھتے گئے اور انکی عقل مالک حقیقی کی
جستجو کرتی رہی اور چاند ستاروں اور سورج کو دیکھکر عقل ان سے مخاطب ہوکر
کہرہی تھی دیکھو دیکھو چاند کو دیکھو ستاروں کو دیکھو اس سے بڑا سورج کو
دیکھو کس طرح اپنی روشنی سے دنیا کو منور کئے ہواہے، لہذا تم تسلیم کرو کہ
یہی تمہارارب اور خداہے۔ لیکن شام ہوتے ہی جب سورج کی روشنی ماند پڑجاتی ہے
اوروہ منزل کو طے کرتاہوا منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے اور دنیا تاریکی کی
آغو ش میں سما جاتی ہے تو عقل کہتی ہے۔ نہیں نہیں تمہار امعبود یہ نہیں
ہوسکتا کیوں کہ تمہارا معبود وہ ہوگا جو کبھی ڈوبے گا نہیں لہذا حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے قوم کے سامنے فیصلہ سنادیا اور یہ اعلان کردیا
کردیا کہ ’’انی بریء مما تشرکون ‘‘ اے میری قوم میں اس چیز سے بریء الذمہ
ہوں جس کو تم پروردگار کے ساتھ شریک کرتے ہو ۔ میں تو صرف اورصرف اسی کی
پرستش کرونگا، اسی کے آگے سر تسلیم خم کرونگا ، اسی کو اپنا معبود اور خالق
سمجھونگا ، ساری چیزوں سے کنارہ کش ہوکر اسی کی طرف متوجہ ہونگاجو آسمانوں
اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے، سارے جہا ں کا خالق ومالک ہے موت وزیست
اس کے قبضہ ء قدرت میں ہے لہذا اس کے ساتھ کسی کو شریک و سہیم نہ کروں گا ۔اور
بادشاہ وقت کو بھی مخاطب کرکے کہدیا تو میرا رب نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کے
ہاتھوں میں میری اور تیری زندگی اور موت ہے جس کے قانون کی بندش میں سورج
تک جکڑاہوا ہے وہی میرا مالک حقیقی ہے۔
اتنا اعلان کرنا تھا کہ آپ کے اوپر مصائب کے پہا ڑ ٹوٹ پڑے ، باپ نے کہا کہ
میں تجھے اپنے گھر سے نکال دونگا ، قوم نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی تجھے
پناہ نہ دے گا ، بادشاہ وقت بھی ان کے پیچھے پڑ گیا۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ
السلام یکہ وتنہافولاد بن کر سب کے سامنے سچائی کی خاطر ڈٹ کر کھڑے ہوگئے
اور ادب سے اپنے والد محترم کو مخاطب کرکے عرض کیا کہ اے میرے والد
بزرگوارجو علم مجھے عطاکیاگیاہے وہ علم آپ کو نہیں ملا ہے ۔ چنانچہ بجائے
اس کے کہ میں آپ کی پیروی کروں آپ کو میری پیروی کرنی ہوگی اور میری پیروی
کرنے ہی میں آپ کی بھلائی ہے ۔ لیکن آپ کی باتوں کو نہ تو قوم نے مانا
اورنہ ہی آپ کے والد محتر م نے ۔ بالآخر آپؑ اپنے ہاتھوں سے ان کے بتوں کو
تہ تیغ کردیا اور بتلادیا کہ دیکھو یہ اتنے کمزور اور ناتواں ہیں کہ اپنی
حفاظت بھی نہیں کرسکتے تو بھلا تمہاری کیا حفا ظت کریں گے؟ ۔ لیکن پھر بھی
انکی سمجھ میں بات نہ آئی کیوں کہ وہ اندھے ہو چکے تھے ۔ انکے دماغ زنگ
آلود تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگاکہ ان کی عقلوں میں بڑے بڑے قفل پڑے
ہوئے تھے جس کی وجہ سے حقیقت تک رسائی محال تھی ۔
آخر شاہی دربار سے فیصلہ صادر ہوگیا کہ اس کو دہکتے ہوئے آگ میں ڈال دیا
جائے تاکہ اپنے معبودوں کی توہین کا بدلہ ہو سکے مگر پہاڑ جیسا جگر رکھنے
والا وہ انسا ن جو خدائے واحد پر ایمان لاچکاتھا اس ہولناک سزا کو بھی
بھگتنے کے لئے تیار ہوگیا پھر جب اﷲ تعالی نے اس خلیل کو آگ سے بچالیا تو
آپ اپنے گھر بار چھوڑ کر ملک ملک قریہ قریہ پھرتے رہے اور آپ کو فکر صرف اس
بات کی تھی کہ لوگوں کوہر ایک کی بندگی سے نکال کرایک خدا کابندہ بنائیں،
اس لئے کہ آپ جہاں جہاں جاتے آپ کو وہی مندر کے مہنت اور خدائی کے مدعی
بادشاہ اور وہی جاہل عوام جھوٹے خداؤں کے پھندے میں پھنسے ہوئے ملتے انکے
درمیان صرف ایک شخص جو خدا وحدہ لاشریک لہ کے علاوہ کسی کی خدائی تسلیم
کرنے کے لئے تیا ر نہ تھا اور اعلانیہ یہ کہتاپھررہا تھا کہ اﷲ کے سوا کوئی
معبود نہیں ہے ، تم سب کی خدائی کا تختہ الٹ دو اور صرف اس خدائے واحد کے
بندے بن کر رہو جس نے آسمان و زمین ، چاند وسورج اور ساری مخلوق کو پیدا
کیا ۔
یہی وجہ تھی حضرت ابراہیم ؑ کو کہیں قرار نصیب نہ ہوا اور آپ نے پوری جوانی
اسی فکر میں صرف کردی کہ لوگ ایک خدا کے پرستار بن جائیں ۔
اخیر عمر میں اﷲ تعالٰی نے بڑی منت وسماجت کے بعد ایک لڑکا عطاکیا لیکن جب
وہ لڑکا اس قابل ہواکہ باپ کا ہاتھ بٹائے تو فورا حکم آیاکہ بیٹے کو راہ
خدا میں قربان کردو آپ نے بغیر کسی تأمل کے حکم کی تعمیل کی اور اپنے پیارے
بیٹے کو راہ خدا میں قربان کردیا ۔ الغرض اﷲ تعالی نے بہت آزمانے کے بعد
حضرت ابراہیم ؑ
کو قوم کاپیشوا بنایا اور اسلام کے عالم گیر تحریک کے لیڈر بنائے گئے۔
اب اس تحریک کی اشاعت کے لئے چند افراد درکار تھے جو مختلف علاقوں میں ان
کے نائب کی حیثیت سے کا م انجام دے سکے اس سلسلے میں تین آدمی اپ ؑ کے قوت
بازو ثابت ہوئے ایک آپ کا بھتیجہ حضرت لوط علیہ السلام دوسرے آپ کے بڑے
صاحبزادے حضرت اسماعیل ؑ اور تیسرے آپ کے چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہم
السلام ۔حضرت لوط ؑ کو آپ نے اردن شہرمیں بھیجا چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحاق
ؑ کو فلسطین کے علاقے میں آباد کیا اور بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل ؑ کو
حجاز کے مکہ شہر میں رکھا اور ایک مدت تک خود ان کے ساتھ رہ کر عرب کے تمام
گوشوں کو اسلامی تعلیمات سے آباد کیا پھر یہیں پر دونوں باپ بیٹوں نے ملکر
اسلامی تحریک کا وہ مرکز قائم کیا جو کعبہ کے نام سے آج بھی ساری کا دنیا
میں مشہور ومعروف ہے۔
چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے ساری قوم کویہ پیغام دیدیا کہ اﷲ کو چھوڑ کر
کسی اور کی پرستش نہ کرنا، کسی کے سامنے اپنے جبیں کو خم نہ کرنا، کسی اور
سے مرادیں نہ مانگنا ،کسی دیوی دیوتا ؤں کو مشکل کشا اور حاجت روانہ سمجھنا
،اولاد کے لئے مزاروں کے چکر نہ لگانا، بزرگوں کی قبروں کے سامنے جھکنا
نہیں چاہے کتنی مشکلات کیوں نہ پیش آجائے اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا
یہی ہے پیغام ابوالانبیاء ابراہیم علیہ السلام کا امت مسلمہ کے نا م
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا |