قوموں کے مستقبل کے فیصلے اب تعلیمی نظام کرتے ہیں
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
عصر حاضر میں جن اقوام نے جملہ شعبہ ہائے زندگی میں کامیابیاں حاصل کیں اور دنیا بھر کی اقوام پہ اپنا معاشی، سیاسی اور فوجی تسلط قائم کیا ،یہ سب کچھ ان کے تعلیمی نظاموں کے کرشمے ہیں،فی زمانہ اقوام کی مسابقت کا میدان ان کے تعلیمی نظاموں کا عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اور فعال ہونا ہے، جواقوام اپنے تعلیمی نظاموں کو فعال بنا رہی ہیں وہ تحقیقی و تخلیقی عمل کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے پہ چھا رہی ہیں،اور قدرت کی نعمتوں سے خوب استفادہ کر رہی ہیں۔جن اقوام نے اپنے معاشروں کو فرسودہ تعلیمی نظاموں کے عفریت میں مبتلا کیا ہوا ہے وہ رفتہ رفتہ معاشی، سیاسی حوالوں سے فنا کے گھاٹ اتر رہی ہیں۔۔۔۔ |
|
|
اقوام کی ترقی و خوشحالی میں تعلیمی نظام
بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔انسانی معاشروں کی موجودہ تمدنی ترقی تعلیم ہی کے
مرہون منت ہے،سائنس وو ٹیکنالوجی کے ارتقاء کے لئے ترقی یافتہ اقوام نے
اپنے تعلیمی نظاموں کو وقت کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا۔سائنسی طرز فکر
اپنایا، تخلیق کے کلچر کو فروغ دیا اور ٹیکنالوجی کی کرامات سے زندگی کے ہر
شعبے کو انقلابات سے دوچار کر دیا۔یورپ و امریکہ نے اپنے تعلیمی نظاموں کو
اتنا مضبوط کر دیا کہ آج اسی نظام تعلیم کی برکات ہیں کہ وہ مریخ پہ بستیاں
بسا رہے ہیں۔وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور ضروریات کے تحت وہ تعلیمی نظام
کے اہداف کو بدل رہے ہیں، زندگی کے ہر شعبے میں تحقیق و جستجو کا ایک نہ
ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہے۔ٹیکنالوجی کی اختراع نے آج اقوام کے درمیان
مسابقت پیدا کر رکھی، آج وہی قوم سبقت لے سکتی ہے جس کا تعلیمی نظام اپنے
اندر تخلیق کی نئی جہتیں رکھتا ہو۔ترقی یافتہ اقوام نے تعلیمی نظاموں کی
تشکیل میں کئی عشرے گذارے، انہوں نے اپنے معاشروں کو ایسا تعلیمی ماحول
مہیا کیا جس میں افراد معاشرہ کی عقلی قوتوں کو جلا ملی، نئے نئے علوم
تخلیق کئے، نئے افکار کو زیر بحث لایا گیا، عقل و رائے پہ قدغن لگانے کی
بجائے،بحث و تحقیق کا ماحول پیدا کیا، انسانوں کی فطری صلاحیتوں کے مطابق
انہیں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے علوم وفنون سے متعارف کروایا،،تعلیم کو سب
کے لئے عام کیا، کتاب سے محبت کو فروغ دیا، علم برائے معاش کی بجائے علم
برائے تعلیم و تخلیق کے رواج دیا گیا۔ اس تعلیمی نظام کی برکات سے آج وہ
قومیں مستفید ہو رہی ہیں، اگرچہ کہ ان کے ہاں سرمایہ داریت نے جڑیں مضبوط
کر لیں، اس سے فطرت انسانی کو نقصان پہنچا،جدید تعلیمی نظام سے حاصل ہونے
والے فوائد سے انسانی معاشرے کو زیادہ سے زیادہ فائدہ دینے کی بجائے
ٹیکنالوجی کے ذریعے سے اقوام کا استحصال شروع کر دیا گیا، دنیا کے امن اور
سلامتی کو خطروں سے دوچار کر دیا۔اس کی وجہ سائنسی علوم و افکار کو
استحصالی سوچ نے اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا۔اس کی ایک وجہ ان کے تعلیمی
نظام میں مذہب کو ایک سوشل سائنس کے دور پہ قبول نہ کرنا ہے، جس کا نتیجہ
یہ ہوا کہ وہ ساری ترقیات ایک مادیت پرست قوت کے کنٹرول میں آ جانے سے
دنیائے انسانیت کے لئے وبال بن گئیں۔
یہ تو تھا مغرب کے تعلیمی نظام کی برکات اور اس کی خامی کا تذکرہ، لیکن جب
ہم مسلمان معاشروں کا جائزہ لیتے ہیں تو انتہائی افسوسناک صورتحال نظر آتی
ہے، سب سے پہلے تو مروجہ تعلیمی نظام انتہائی درجہ کی فرسودگی کا شکار نظر
آتا ہے،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری دنیا کی یونیورسٹیوں کی فہرست میں اسلامی
دنیا کی کوئی معیاری یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔ایک مغربی مفکر جارج سارٹن
’’اسلام کو سائنس کا باوا آدم کہتا ہے‘‘ لیکن حالت یہ ہے کہ آج اسلامی دنیا
سائنس اور ٹیکنالوجی کے حقیقی علم سے کئی سو سال پیچھے ہے، غیر معیاری
تعلیمی نظاموں نے معاشرے کو مزید پسماندگی سے دوچار کر دیا۔
ہمارے ملک کے تعلیمی نظام کا باوا آدم ہی نرالا ہے،ملک میں طبقاتی تعلیمی
نظام رائج ہے ، ایک طرف مخصوص مقتدر کلاس کے بچوں کی تعلیم کا نظام ہے اور
دوسری طرف متوسط طبقے کے لئے الگ نظام اور سب سے بری حالت اس وقت اکثریتی
مفلوک الحال طبقے کی ہے، جن میں لاکھوں بچے سکول نہیں جا سکتے۔ جو جا رہے
ہیں وہ زیادہ سے زیادہ میٹرک کر لیتے ہیں یا اس سے بھی پہلے معاشی مسائل کی
وجہ سے سکول جانا بند کر دیتے ہیں،بہت کم اعلیٰ تعلیمی اداروں تک پہنچ پاتے
ہیں، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی پرائیویٹ اور سرکاری کی تقسیم ہے، یعنی
جہاں غیر معیاری تعلیمی نظام ہو گا اسے سرکاری تعلیمی جہاں بہتر تعلیم ہو
گی اسے پرائیویٹ کہا جاتا ہے۔خواتین کی تعلیمی حوالے سے حالت اس سے بھی
زیادہ بدتر ہے۔
ہمارے ہاں اسلامی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں غیر سائنسی طرز فکر
وعمل کی وجہ سے طلباء میں وہ استعداد پیدا نہیں ہور ہی جس سے آگے چل کر ان
میں تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری ہو، نیز اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ
التحصیل ہونے والے طلباء کے لئے ایسا نظام موجود نہیں جو ان کی صلاحیتوں کو
مختلف شعبوں میں تخلیقی و تعمیری حوالے سے استعمال کرے۔مزید یہ کہ ہمارے
معاشرے میں دینی و دنیاوی کی تقسیم کر کے الگ الگ تعلیمی نظام وضع کر دئیے
گئے۔اس سے معاشرے میں مزید ذہنی تقسیم ہو گئی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم
اجتماعی طور پہ نہ دین کے رہے اور نہ دنیا کے۔
ضرورت اس امر کی ہے اسلامی اور غیر اسلامی کی سوچ سے نکل کر فطرت کے قوانین
کا مطالعہ کیا جائے اور انسانی بنیادوں پر سوچ پیدا کر کے اسلامی علوم
پرفطرت اور انسانیت کی اساس پر تحقیق کی روش عام کی جائے۔تحقیق کا حق اس
وقت تک ادا نہیں ہو سکتا جب تک ذہن آزاد نہیں ہو گا ۔محدود اور محکوم ذہن
کبھی بھی نئی فکر اور سوچ پیدا نہیں کر سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی
یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام کا فقط گذشتہ کئے ہوئے کاموں کو جمع کرنے اور
اور انہیں نئے الفاظ کے ساتھ جلدوں کا حصہ بنانے کے اور کوئی مقصد نہیں ہے۔
اب جبکہ علمی ارتقاء کے ہاتھوں پرانے نظریے اپنا وجود قائم نہیں رکھ
سکے۔بقول ایک مفکر کے’’ آج جدید تصورکائنات کی روشنی میں قوت اور نظم کے
سرچشمے افلاک سے ایٹمی مرکزوں ،ڈی ،این ،اے ،نفسیات اور الیکٹرومگنیٹک
لہروں کی طرف ہجرت کرگئے ہیں کائناتی پیغامات موصول کرنے کیلئے الیکٹرو
میگنیٹک لہروں کی زبان سمجھنا ضروری ٹھہر گیا ‘‘اس لئے ایسے محققین کی
ضرورت ہے کہ ماضی کے اکابر کے تمام ورثہ کو محفوظ کرتے ہوئے چھانٹ پھٹک
کرکے جدید انکشافات ،دریافتوں اور مشاہدات کی روشنی میں اپنے موقف کو واضح
کر کے نئی نسل کو اسلام کے آفاقی اور فطری نظریہ سے روشناس کرایا جا
سکے۔روایت پرستی اور اندھی تقلید کی بجائے عصری تقاضوں کی روشنی میں
اجتہادی رویہ اپنایا جائے۔اور فقہ کی تدوین جدیدکے لئے جدید عصری تقاضوں کی
روشنی میں مسلسل کام کیا جائے۔
ایسے افراد یا علماء جو عصری تقاضوں سے بے بہرہ ہیں وہ قطعی طور پر ان
مقاصد کو پورا نہیں کر سکتے۔لہذا تعلیمی اداروں کے انتظام کو ان کے سپرد نہ
کیا جائے۔سوچ اور فکر کے حوالے سے قدغنیں لگانے کی بجائے ۔کھل کے رائے کے
اظہار کی اجازت ہونی چاہئے۔دوران تحقیق یورپین علوم (خاص طور پر سائنسی
علوم )اور ان کی تاریخ وتجربات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔اسلامی تعلیمات پر
مطالعہ وتحقیق کو اس انداز سے آگے بڑھایا جائے کہ وہ ایک معاشرتی تعمیر
وارتقاء میں ایک اہم کردار ادا کر سکے اور معاشرہ خود طلب کرے۔مثلاً سماجی
علوم،حقوق انسانی کی تعلیم،سائنسی تحقیقات اور تخلیق کے عمل کے لئے سماجی
شعور کو بیدار کرنا۔جدید ادب ،آرٹ،اور سماجی تمدن کے تمام پہلوؤں کی طرف
مثبت رہنمائی اور بالیدگی موجود ہو۔ایسا نہ ہو کہ پورا معاشرہ فکر وعمل اور
نظام وسماج کی تشکیل میں تو یورپ کے افکار اور نظریات کو اپنائے ہوئے ہو
اور اسلامی تعلیمات کو سیکھنے کا عمل فقط ثواب آخرت تک محدود ہو یا
اخلاقیات کی تبلیغ تک محدود ہو۔آج ہمارا معاشرہ صرف اخلاقی زبانی مبلغ طلب
کر رہا ہے تو ہمارے تمام اسلامی تعلیمی ادارے پورے زور شور سے ایسے افراد
ہی پیدا کر رہے ہیں۔اور تحقیقی کام کے بنیادی مقاصد یہی ٹھہرتے ہیں کہ
معاشرے کی اخلاقی تربیت ہو یعنی اسلام کے سماجی سائنسی فکر اور تعمیر سماج
کے اہم پہلوؤں پر تحقیق کر کے نظاموں کی تشکیل میں کوئی کردار پیدا کیا
جائے ۔فقط عقائد کی فکری تربیت تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے
کہ فلسفہ ، نفسیات، معیشت ، سیاست اور منہاج تحقیق میں نئے افق ، نئے
زاویوں اور نئے نقطہ ہائے نظر کو اجاگر کیا جائے۔
بعض اسلامی یونیورسٹیوں میں جن میں خاص طور پر الازہر یونیورسٹی شامل ہے
میں ایسے سکالرز ضرور سامنے آئے ہیں جنہوں نے اسلامی تعلیمات کے مطالعہ میں
روایت پرستی اور اندھی تقلید کی بجائے ترقی پسند نظریات کے تحت آزادانہ
تحقیقی رائے سامنے لائے ہیں ۔جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔لیکن عام طور پر
اسلامی معاشروں میں اور خاص طور پر ہمارے معاشرے میں جن افراد نے اس انداز
میں عام روایتی روش سے ہٹ کر کام کیا ہے اور اپنی آراء کا اظہار کیا ہے
انہیں تکفیر کیا گیا ۔لعن طعن کیا گیا اور اس طرح وہ تحریک جو نئی سوچ کی
طرف رہنمائی کرتی ہے اس کا راستہ روکا گیا ۔
دراصل قرآن حکیم ہو یا احادیث مبارکہ کا ذخیرہ یا سنت نبوی ﷺ اور صحابہ
اکرام کے بارے میں علمی وواقعاتی مواد ہو ۔پر تحقیقی تجزیات پہ پابندی نہیں
ہونی چاہئے۔ہاں اتنا ضرور ہو کہ محقق کے مقاصد میں یہ بات شامل ہو کہ یہ
ساری تحقیق سماجی وعلمی ارتقاء کے لئے ہی ہو ۔اس میں تنقید، تحقیق یا نئی
آراء کا مقصد ایک مذہبی تعصب کو ہوا دینا یا کسی کی ،تحقیر یاہتک کرنا نہ
ہو بلکہ عصری تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ۔نقطہ نظر کو اس طرح پیش
کرنا کہ اذہان پر جمی ہوئی جمود اور روایت پرستی،رجعت پسندی کی تہیں ختم ہو
جائیں۔
اگر قرآن حکیم اور سنت رسول ﷺ کی روشنی میں عصر حاضر میں اگر رہنمائی اور
سماجی تشکیل وارتقاء کے لئے کام کرنا ہے تو پھر یقیناً آج کی
عمرانیات،معاشیات،اور جدید علوم سے بہرہ مند ہوئے بغیر اسلامی تعلیم کو
عصری تقاضوں کے مطابق پیش نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی تحقیقی میدان میں
ارتقاء ہو سکتا ہے۔اس وقت ہم فکری جمود کا شکار ہیں۔اور اس فکری جمود سے
آزادی کا نام ہی علمی آزادی ہے ۔ جن اقوام نے عروج حاصل کیا اور آج عقلی
علوم کی قیادت جن کے ہاتھ میں ہے ان کی علمی تحریکات ،تحقیقات کا مطالعہ
انتہائی ناگزیر ہے۔جدیدفلسفہ اور جدید منطق کا مطالعہ ضروری ہے۔کیونکہ مذہب
اور خصوصاً اسلامی تعلیمات بنیادی طور پر جن اصولوں کی طرف رہنمائی کرتے
ہیں۔ان کا تعلق سماجی معاملات اور عصری تقاضوں سے کافی گہرا ہے۔اور انسانی
سماجی ارتقاء میں ان کا کیا کردار متعین ہوتا ہے اس کے لئے عصری سماج کی
فلاسفی کا ادراک ضروری ہے اور دور جدیدکی منطق کو بھی لامحالہ سمجھنا ضروری
ہے ۔یہ اہم نقطہ ہے کیونکہ ہر دور کی فلاسفی اور منطق مختلف ہوتی ہے زمانے
،حالات اور خطے کی تبدیلی سے فلسفہ اور منطق میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے، ایک
دور کا فلسفہ اور منطق دوسرے دور میں ناقابل عمل ہوتے ہیں لہذا ہر دور اپنا
ایک فلسفہ متعین کرتا ہے لہذا مذہب کی تحقیق کرنے والے کے لئے عصری فلسفے
سے واقفیت انتہائی ضروری ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت بہت تلخ ہے کہ آج اگر مذہبی
تعلیمی اداروں کا حال جانیں تو وہ قدیم فلسفہ اور قدیم منطق کے ذریعے سے
مذہب کو مطالعہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں لہذا اپنی چار دیواریوں میں تو
وہ بڑے بڑے علمی انبار لگا کر بیٹھے ہیں لیکن عملی طور پر سماج میں ان کا
کوئی بھی کردار اور اثر موجود نہیں اور وہ سماج سے کٹے ہوئے اپنی ایک الگ
دنیا بسا کے بیٹھے ہوئے ہیں ۔لہذا میرے خیال میں عصری فلسفہ اور جدید منطق
کے بغیر مذہب کا مطالعہ وتحقیق سماجی ارتقاء میں کوئی کردار ادا نہیں کر
سکتے۔لہذا آج تحقیقی میدان میں مذہبی تحقیق کا شعبہ جب تک ان خطوط پر کام
نہیں کرتا اور عصری فلسفہ اور دور جدید کے مسائل اور عقلی علوم سے رشتہ
قائم نہیں کرتا وہ قطعاً سماجی ارتقاء کے لئے اپنا تحقیقی کام پیش نہیں کر
سکتا ۔اور نہ ہی ایسی تحقیق معاشرتی اداروں کے ارتقاء میں یا شعوری حوالے
سے کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔ |
|