زندگی کے میلے

شاعر نے کیا خوب کہا ہے یہ زندگی کے میلے کبھی کم نہ ہوں گے ،افسوس پرہم نہ ہوں گے۔حقیقت یہی ہے ہر انسان نے مو ت کا ذائقہ چکھنا ہے۔یہ تو مرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ ہم نے اس زندگی کے میلے سے کیا چیزیں مول لی ہیں، کونسی چیز ہمارے کام آئی اور کہاں ہم گھاٹے کا سوداکر بیٹھے۔ہمارا مذہب اسلام ایک مکمل دین ہے ۔ہمارے مذہب میں حقوق اﷲ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر بھی زور دیا گیا ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ حقوق اﷲ کا معاملہ بندے اور اس کے رب کے درمیان ہے لیکن اگر حقوق العباد کے معاملے میں بندہ اگر کسی کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے تو وہی شخص اس کومعاف کرسکتا ہے جس کی اس نے حق تلفی کی ہو۔ہم مادّہ پرستی کے اس دور میں حقوق العباد کو یکسر نظر انداز کر بیٹھے ہیں ۔حقوق العباد ہمارے گھر ،پڑوس ،دفتر یا جو بھی کاروبار ہم کر رہے ہوں وہیں سے شروع ہو جاتے ہیں۔تاقیامت زندگی کے یہ میلے قائم رہیں گے لیکن ہم کو تو ایک معیّن وقت کے ساتھ اس دنیامیں بھیجا گیا ہے تمام دینی اور دنیاوی امور اسی متعیّن وقت میں سر انجام دینے ہیں۔مشاہدہ یہی ہے کے ہم دامے درمے سخنے حقوق اﷲ پر تو کسی حد تک عمل پیرا ہونے کی کو شش کرتے ہیں لیکن اس کوشش میں حقوق العباد کو شامل نہیں کرتے، جس کا درجہ کسی طور حقوق اﷲ سے کم نہیں،ہم کو سب سے پہلے اپنے والدین ،بیوی ،بچوں، پاس پڑوس پر نظر دوڑانی ہوگی کہ کیا ہم سے ان کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی،ان میں سے کوئی ہمارے کسی عمل سے ناخوش تو نہیں۔اگر کسی کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس سے معافی مانگیں اور آئندہ کے لئے خیال رکھیں کہ ان کادل نہ دکھے۔اسی طرح دفتر اور کاروبار کے ساتھی ،ان سے بھی ہمارا برتاؤ برادارانہ ہونا چاہئے۔ان کی خوشی ،غم میں برابر شریک ہونا چاہئے، جب ان کوکسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہوتواپنی طاقت اور گنجائش کے حساب سے ان کی مدد کریں،اسی طرح وہ لوگ جن سے ہمارا کوئی براہ راست رابطہ یا رشتہ نہیں ہے۔ان کی خبر گیری کرنا بھی ہمارا فرض ہے کہ کہیں کوئی شخص یا بچہ بھوکا تو نہیں رہ گیاکوئی بچہ تعلیم حاصل کرنے سے تو نہیں رہ گیا کیونکہ ہمارے پاس پڑوس میں کوئی بھوکا سو گیا تو ہم سے اس کا سوال ہے۔گو کہ یہ بنیادی طور پر حکومت وقت کی ذمہ ّداری ہوتی ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کا خیال رکھے لیکن بحیثیت مسلمان ہم کو بھی اپنی ذمہّ داری سے عہدہ براء ہونا چاہئے۔ ذالحج کا مہینہ مبارک مہینوں میں سے ہے،اس ماہ مسلمان جہاں حج جیسے عظیم فرض کو ادا کرتے ہیں ،وہیں صاحب نصاب مسلمان قربانی جیسے فریضہ ادا کرتے ہیں ،پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اکثر مسلمان قربانی کرنے کی حیثیت نہیں رکھتے ،لہٰذا ہم میں سے وہ لوگ جو اﷲ تعالی کے فضل و کرم اس سال قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں ،ان کو چاہئے کہ قربانی کا گوشت تقسیم کرتے وقت یتماء اور مساکین کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے پاس پڑوس پر بھی نظر دوڑالیں اور جس گھر میں قربانی نہ ہوئی ہو ،ان گھروں میں بھی قربانی کا گوشت تقسیم کریں تاکہ وہ لوگ بھی قربانی نہ کرنے کی وجہ سے دل گرفتگی کا شکار نہ ہوں، قربانی کے جانور کی کھال بھی صدقہ کرنا بہت ضروری ہے ،اجرت میں میں اس کو بالکل نہ دیا جائے ،قربانی کے جانور کی کھال کے بھی مستحق غرباء و مساکین کے ساتھ ساتھ مدارس اور خدمت خلق کرنے والے ا دارے بھی ہیں،کھال دیتے وقت اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کے مستحق تک ہی پہنچے تاکہ غرباء ومساکین کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کرنے والے اداروں کا بھی سال بھر خرچ نکل آئے، اس ماہ مبارک کے توسط سے میری بھی تمام قارئین سے گزارش ہے آئیے اسی ماہ مبارک سے اس بات کا عہد کریں کہ ہم آئندہ کسی کا دل نہیں دُکھائیں اور ہم آئندہ کسی کا حق نہیں ماریں گے ،ضرورتمندوں کی بر وقت مدد کریں گے۔اگر ہم زندگی کے اس میلے میں یہ سب کچھ کرنے کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقینا سودا مہنگا نہیں ہے۔
 
Syed Muhammad Ishtiaq
About the Author: Syed Muhammad Ishtiaq Read More Articles by Syed Muhammad Ishtiaq: 44 Articles with 31896 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.