انسان کے اندر جو جو طبعی تقاضے
رکھے گئے ہیں ان میں ایک اہم چیز صنف مخالف کی طرف قلبی میلان ورجحان ہے
بچپن میں یہ جذبات محدود ہوتے ہیں لیکن جیسے جیسے وہ بلوغت کی منزلیں طے
کرتا جاتا ہے اس تقاضائے طبعی میں شدت اور کشش میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔اور
بسا اوقات وہ اپنی پسند کو اپنانے کے لیے ہر قسم کا راستہ اختیار کرنے پر
خود کو مجبور پاتا ہے۔
اسلام ایک عالمگیر اور جامع مذہب ودین فطرت ہے ایک طرف انسان کی رعایت کرتا
ہے اور دوسری طرف اس کی تہذیب بھی، اس سلسلے میں بھی اعتدال اور توازن کی
راہ اختیار کی، ایک طرف نکاح کو نہ صرف جائز اور مستحسن قرار دیا بلکہ اس
کی ترغیب دی اور تجرد کی زندگی سے منع کیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا
تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا
بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ )سورۃ بقرہ :۲۳۲)
"اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو
دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے
مت روکو، "
اور دوسرے مقام پر فرمایا :۔
وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ (سورۃ
نور:۳۲)
"اور نکاح کرا دیا کرو تم لوگ ان کے جو تم میں سے بےنکاح ہوں۔"
اسی طرح احادیث بھی کثرت سے نکاح کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کے سلسلہ میں
موجود ہیں۔
حضوراکرم ﷺ نےصحابہ کرام ؓ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :۔
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ
فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ
يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَائٌ (بخاری کتاب
النکاح)
"جو کوئی نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے کیوں کہ نکاح پرائی عورت کو
دیکھنے سے نگاہ کو نیچا کر دیتا ہے اور حرام کاری سے بچاتا ہے، البتہ جس
مییں قوت نہ ہو تو وہ روزہ رکھے کیوں کہ روزہ رکھنے سے شہوت کم ہوجاتی ہے۔"
اور دوسری طرف زنا سے شدت اور سختی کے ساتھ منع کیا اور عبرتناک سزا بھی
رکھی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا
(سورۃ اسراء :آیت ۳۲)
" اور زنا کے قریب نہ جاؤ بیشک وہ بےحیائی ہے اور بری راہ ہے"
اور زناکی سزا کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :۔
اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ
جَلْدَةٍ ۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ
كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَلْيَشْهَدْ
عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (سورۃنور :۲)
"بدکار عورت اور بدکار مرد سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو دُرّے مارو اور
تمہیں اللہ کے معاملہ میں ان پر ذرا رحم نہ آنا چاہیے اگر تم اللہ پر اور
قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت
کو حاضر رہنا چاہیے"
اسلام نے نکاح کے اس شریفانہ طریقہ کے علاوہ اور کسی صورت کو جائز قرار
نہیں دیا، نکاح صرف دو افراد کا ایک سماجی بندھن، شخصی ضرورت، طبعی خواہش
اور صرف ایک ذاتی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دو خاندانوں میں باہمی الفت
اور ملاپ کا ذریعہ ہے اور معاشرہ انسانی کے بقاء کا ایک بنیادی ستون بھی ہے
اور شرعی نقطہ نظر سے ایک خاص اہمیت وفضیلت کا حامل ہے۔ نکاح کی اہمیت اور
اس کی بنیادی ضرورت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت آدم ؑ کے وقت
سے شریعت محمدی ﷺ تک کوئی ایسی شریعت نہیں گزری جو نکاح سے خالی رہی ہو۔
علامہ حصکفی ؒ لکھتے ہیں:۔
لیس لنا عبادۃ شرعت من عہد آدم علیہ السلام الی الآن ثم تستمرفی
الجنۃالاالنکاح والایمان (درمختار کتاب النکاح)
"کوئی عبادت ایسی نہیں جو حضرت آدم ؑ کے زمانے سے لے کر آج تک مشروع ہو
اور جنت میں بھی باقی رہے سوائے نکاح اور ایمان کے "
چنانچہ ہر شریعت میں مرد وعورت کا اجتماع ایک خاص معاہدہ کے تحت شروع رہا
ہے اور بغیر اس معاہدے کے مردو عورت کا باہمی اجتماع کسی بھی شریعت ومذہب
نے جائز قرار نہیں دیا البتہ اس معاہدہ کی صورتیں مختلف رہی ہیں اور اس کے
شرائط واحکام میں تغیر وتبدل ہوتا رہا ہے چنانچہ اس بارے میں اسلام نے جو
شرائط مقرر کی ہیں جو احکام نافذ کیے ہیں اور جو قواعد وضوابط وضع کیے ہیں
وہ قرآن وحدیث اور کتب فقہ میں موجود ہیں۔
اسلام نے نکاح میں مردوعورت کو پسند اور ناپسند کا اختیار دیا ہے اور بالغہ
عورت سے بغیر اس کی اجازت کے نکاح کرنے سے منع کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :۔
لَا تُنْکَحُ الْأَيِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ
حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَکَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ
أَنْ تَسْکُتَ (بخاری کتاب النکاح)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ثیبہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ باکرہ کا بغیر
اس کی اجازت کے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! باکرہ کی
اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے، فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت
ہے۔
بلکہ ایک دفعہ حضوراکرم ﷺ کے دور مبارک میں ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے
بغیر ہوا، اس نے آپﷺ سے عرض کیا تو آپ نے اس کا نکاح فسخ کردیا ۔
عَنْ خَنْسَائَ بِنْتِ خِذَامٍ الْأَنْصَارِيَّةِ أَنَّ أَبَاهَا
زَوَّجَهَا وَهْيَ ثَيِّبٌ فَکَرِهَتْ ذَلِکَ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ
صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِکَاحَها (بخاری کتاب النکاح)
حضرت خنساء بنت خذام انصاریہؓ کہتی ہیں کہ میرے والد نے ایک جگہ میرا نکاح
کردیا اور میں ثیبہ تھی اور مجھے وہ نکاح منظور نہ تھا تو میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے میرا نکاح فسخ کردیا۔
یہ روایات اس بارے میں خوب واضح ہیں کہ عورت کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے
اس کا نکاح کیا جائے۔
تاہم جو عورتیں اپنے گھروں سے بھاگ کر اولیاء سے دور اپنی پسند کا نکاح
کرتی ہیں اگر وہ نکاح غیر کفو میں ہو تو مفتی بہ قول کے مطابق وہ نکاح صحیح
نہ ہوگا۔
" ویفتی فی غیر الکفوء بعدم جوازہ اصلا وھو المختار للفتوی لفساد الزمان "
(درمختار مع الشامی باب الولی)
البتہ اگر لڑکی کے اولیاء اس نکاح سے رضامند ہوں تو پھر وہ نکاح صحیح ہے۔
"وازا زوجت نفسہا من غیر کفو ء ورضی بہ احد الاولیاء لم یکن لھذا لولی ولا
لمن مثلہ او دونہ فی الولایۃ حق الفسخ ویکون ذالک لمن فوقہ کذا فی فتاوی
قاضی خان ،وکذا اذازوجہا احدالاولیاء برضا ھا کذافی المحیط" (عالمگیری
جلداول ،الباب الخامس فی الاکفاء )
لیکن اگر وہ نکاح "کفو "میں ہو تو شرعی نقطہ نظر سے صحیح ہے۔
واضح رہے کہ اس قسم کا نکاح شریعت اور معاشرے کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں
ہے،اس لیے کہ شریعت نے جہاں نکاح میں عورت کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ
رکھا ہے وہاں ساتھ راستہ بھی بتا دیا کہ تمام معاملات اولیاء کے ہاتھوں
سرانجام ہوں، اسلام نے جہاں اس بات کی اجازت دی کہ کہ ایک مسلمان خاتون کا
نکاح بلاتمیز رنگ ونسل، عقل وشکل اور مال وجاہت ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے
وہاں اس نے انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ
اس عقد سے متاثر ہونے والے اہم ترین افراد کی رضامندی کے بغیر بے جوڑ نکاح
نہ کیا جائے تاکہ اس عقد کے نتیجے میں تلخیوں، لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا
نہ ہوجائے۔
اور یہ بات خلاف عقل بھی نہیں کہ اولیاء کو اعتماد میں لے کر قدم اٹھایا
جائے، اس لیے کہ جب اولاد جذبات میں آکر کوئی فیصلہ کرتی اور قدم اٹھاتی
ہے تو وہ اس بات سے قطع نظر کرلیتی ہے کہ ان کے والدین کا بھی ان پر کوئی
حق ہے، جنہوں نے ان کو پالا پوسا اور ان کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ حسب
توفیق زیور تعلیم اور فن وہنر سے آراستہ کیا، ان کی رضامندی میں اپنی خوشی
کو تلاش کرنے کی بجائے الٹا ان کو مجرموں کی طرح گلی و محلہ سے منہ چھپا کر
نکلنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ کیا ان کی محبتوں وشفقتوں کا یہی صلہ ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور اکرم ﷺ کا لایا ہوا دین ہی ہے جو پیدائش سے
موت تک زندگی کے تمام مراحل اور گوشوں کے حوالے سے نہایت جامع اور تفصیلی
ہدایات رکھتا ہے، جس پر عمل کر کے دنیا وآخرت کی سعادتیں اور کامیابیاں
حاصل کی جاسکتی ہیں۔ آپ ﷺ نے انسان کو انسان کی قدر کرنا سکھلایا، عدل
وانصاف کا قانون جاری کیا۔
عورت کو آزاد و خود مختار بنایا اور اس کو اپنی جان ومال کا ایسے ہی مالک
قرار دیا جیسے کہ مرد اپنی جان ومال کا مالک ہے کوئی شخص خواہ وہ باپ دادا
ہی کیوں نہ ہو زبردستی اسے نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا اگر وہ زبردستی نکاح
کر بھی دے تو وہ اس کی اجازت پر موقوف رہے گا، اور اگر وہ نامنطور کردے تو
باطل ہوجاتا ہے، اس کے اموال میں کسی مرد کو بغیر اس کی رضا واجازت کے کسی
تصرف کا کوئی حق نہیں، شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد بھی خود مختار ہے
کوئی اس پر جبر نہیں کرسکتا، لڑکوں کی طرح میراث میں بھی اس کا حصہ مقرر
ہے، اس پر خرچ کرنا اور اس کو راضی رکھنا شریعت نے عبادت قرار دیا۔
لیکن جیسے عورت کو اس کے حقوق مناسبہ نہ دینا ظلم وجور اور قساوت وشقاوت ہے
اسی طرح ان کو بالکل کھلی چھٹی دے دینا اور مردوں کی نگرانی وسیادت سے
آزاد کردینا بھی بہت سے فتنوں و فسادات کا ذریعہ ہے عورت کو مردوں کی
سیادت ونگرانی سے بالکل آزاد کردیا جائے تو یہ پورے انسانی معاشرہ کے لیے
خطرہ عظیم ہے جس سے فساد وخون ریزی اور طرح طرح کے فتنوں کا پیدا ہونا
لازمی ہے جیسا کہ آئے دن اخبارات میں اس قسم کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
اس لیے قران حکیم نے عورتوں کے حقوق واجبہ کے بیان کے ساتھ ساتھ یہ بھی
ارشاد فرمایا :۔
وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ (سورۃ بقرہ :۲۲۸)
"اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے"
مردوں کو عورتوں پر، اخلاقی، مالی، جسمانی، حکمرانی کی حیثیت سے فضیلت حاصل
ہے اور مرد عورتوں کے سردار، نگران اور ذمہ دار ہیں، اور جب عورتیں مردوں
کی نگرانی وسیادت سے آزاد ہوتیں ہیں تو ایسے ایسے نتائج بد سامنے آتے ہیں
کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ جاتی ہے۔ نکاح وشادی وغیرہ کے مسئلہ میں شریعت کا
منشاء یہ ہے کہ یہ امور عورت کے اولیاء اور سرپرست انجام دیں۔
ارشاد باری تعالی ٰ ہے:۔
وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ (سورۃ
نور :۳۲)
"اور نکاح کرا دیا کرو تم لوگ ان کے جو تم میں سے بےنکاح ہوں"
آیت مذکورہ کے طرز خطاب سے اتنی بات تو باتفاق ائمہ اربعہ فقہاء ثابت ہوتی
ہے کہ خود اپنا نکاح کرنے کے لیے کوئی مرد یا عورت بلاواسطہ اقدام کی بجائے
اپنے اولیاء و سرپرستوں کے واسطے سے یہ کام سرانجام دے اس میں دین ودنیا کے
بہت سے مصالح اور فوائد ہیں بالخصوص لڑکیوں کے معاملہ میں کہ لڑکیاں اپنے
نکاح کا معاملہ خود طے نہ کریں یہ ایک قسم کی بے حیائی بھی ہے اور اس میں
فواحش کا راستہ کھل جانے کا بھی خطرہ ہے یہی وجہ ہے کہ بعض روایات احادیث
میں عورتوں کو خود اپنا نکاح بلاواسطہ ولی کرنے سے روکا گیا۔ (معارف
القرآن مفتی محمد شفیع صاحب جلد ششم )
خلاصہ کلام:
اسلام معتدل شریعت ہے اس کے تمام احکام افراط وتفریط سے پاک، انسان کے فطری
جذبات وخواہشات کی رعایت کے ساتھ تعدی اور حد سے تجاوز کی ممانعت کے اصول
پر دائر ہیں، اس لیے جب ایک طرف انسان کو ناجائز شہوت رانی سے سختی سے منع
کیا گیا تو ضروری تھا کہ فطری جذبات وخواہشات کی رعایت سے اس کا کوئی جائز
اور صحیح طریقہ بھی بتلایاجائے، اس کے علاوہ بقاء نسل کا عقلی اور شرعی
تقاضا بھی یہی ہے کہ کچھ حدود کے اندر رہ کر مرد وعورت کے اختلاط کی کوئی
صورت تجویز کی جائے اسی کا نام قرآن و سنت کی اصطلاح میں نکاح ہے۔
نکاح کے معاملہ میں شریعت نے مردو عورت کو پسند اور ناپسند کا پورا اختیار
دیا اور اولیا ء کو جبروسختی سے کام لینے سے منع کیا اور دوسری طرف مردو
عورت کو بھی ترغیب دی کہ وہ اولیاء کو اعتماد میں لے کر کوئی بھی قدم
اٹھائیں۔ |