شاہینوں کی رینکنگ!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ میں اُسی کی ٹیم
کے خلاف میدان میں ہے۔ ٹیسٹ میچوں کی سیریز برابر ہو گئی۔ اس برابری کے
موقع پر پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے، ریکارڈ قائم ہوئے، ٹیم اور
قوم فتح سے سرشار ہوگئی۔ خمار ابھی اترا نہیں تھا کہ ون ڈے سیریز کا آغاز
ہوگیا۔ شاہینوں نے پے در پے چار میچ ہار کر قوم کے غم و غصے کو دعوت دے دی۔
مگر پانچواں میچ جیت کر ٹیم کو کلین سویپ سے بچا لیا۔ بس یہی انگلینڈ میں
کرکٹ ٹیم کی مختصر داستان ہے، ابھی میچ اور بھی ہیں، مگر یہاں ایک اور خبر
نے حالات میں ہلچل سی پیدا کردی، بتایا گیا کہ کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں
پاکستان کا نمبر نواں ہے۔ یعنی اگر دنیا کی دس بڑی ٹیمیں الگ کی جائیں تو
پاکستان کی ٹیم ان میں شامل ہے، گویا دنیا میں تقریباً اتنی ہی ٹیمیں مقبولِ
عام ہیں اور پاکستان کا نمبر آخری سے پہلا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام
قابلِ ذکر ٹیمیں پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے پہلے
نمبروں پر براجمان ہیں۔ دوسری طرف کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں بتایا گیا ہے
کہ پاکستان کا کوئی کھلاڑی انفرادی طور پر پہلی دس پوزیشنوں میں شامل نہیں،
نہ باؤلنگ میں اور نہ ہی بیٹنگ میں۔ عالمی رینکنگ میں مختلف حوالوں سے نکات
جمع کئے جاتے ہیں، تب ترتیب بنتی ہے۔
اپنے ہاں کرکٹ بورڈ، حکومت اور عوام کی اپنی رینکنگ ہے، یہ عالمی رینکنگ کو
زیادہ محسوس ہی نہیں کرتے، اگر کر لیں تو اس کی بہتری کی طرف توجہ نہیں
دیتے۔ اپنے ہاں ابھی تک مولا جٹ سٹائل کو شرفِ قبولیت بخشنے والوں کی
اکثریت ہے، اگر کسی کھلاڑی نے کسی میچ میں چوکوں چھکوں کی برسات کردی تو وہ
چھا گیا، میڈیا اسے سر پر اٹھا لیتا ہے، اس کے اہلِ خانہ سے لے کر اس کے
ہمسایوں تک کے انٹرویو شروع ہو جاتے ہیں، اس کے سکول کے زمانے کے حالات اور
اس کے اساتذہ کو تلاش کر لیا جاتا ہے، دوستوں سے رابطے کئے جاتے ہیں۔ وزیر
اعظم اسے لاکھوں روپے انعام دینے کا اعلان کرتے ہیں، دیگر حکومتی ادارے بھی
بڑھ چڑھ کر اس قومی خدمت میں اپنا حصہ ملانے کا اعلان کرتے ہیں (یہ الگ بات
ہے کہ وہ ایسے تمام اخراجات قومی خزانے سے ہی ادا کرتے ہیں، تاہم نام انہی
کا بنتا ہے)۔ بہت سے نجی ادارے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں مخیر
حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے، وہ بھی لاکھوں روپے اس نیک کام میں لگا
کر اپنا نام روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کبھی پوری ٹیم کوئی معرکہ مار
لے تو پھر تو بس قوم کا اﷲ ہی حافظ ہوتا ہے، منچلے سڑکوں پر نکل آتے ہیں،
کامیابی کی خوشی میں ون ویلنگ کا انعقاد کیا جاتا ہے، آتش بازی ہوتی ہے،
اور بعض اوقات فائرنگ بھی۔ ٹیم کے لئے مبارکبادوں کے پیغام ہوتے ہیں۔
جب اپنی ٹیم مایوس کن کھیل کا مظاہر ہ کرتی ہے، تو پھر قوم کے مزاج کا مت
پوچھئے، مغلظات کی گردانیں تیار کی جاتی ہیں، طعنے دیئے جاتے ہیں، کھلاڑیوں
کو ٹیم سے نکال باہر پھینکنے کے مشورے دیئے جاتے ہیں، کرکٹ بورڈ اور اس کے
آؤٹ ڈیٹڈ عہدیداروں کو کوسا جاتا ہے، انہیں اِن اہم عہدوں سے ہٹانے کا
مطالبہ کیا جاتا ہے، کھلاڑیوں کی چھٹی کروانے کی بات کی جاتی ہے، نئے خون
کی بھرتی کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اگر کارکردگی زیادہ ہی خراب ہو جائے، شکست
عبرتناک کے ساتھ شرمناک بھی ہو جائے تو پھر شاہینوں کے جانثار انہی کے خلاف
میدان میں اتر آتے ہیں۔ گدھوں کے گلے میں کسی ہیرو کا نام لکھ کر بھی ڈال
دیا جاتا ہے۔ کیاکچھ جتن نہیں کئے جاتے۔ مسلسل ناکامیوں کے بعد اپنی
کارکردگی کا جائزہ نہ لینا اور کچن کابینہ کے فیصلوں پر ہی ڈٹے رہنا ہی
آئندہ کے لئے ناکامی کاموجب بنتا ہے۔سب سے پہلے کرکٹ بورڈ کے اراکین کو
دیکھنا چاہیے، کون کیا ہے، کرکٹ سے اس کی دلچسپی کتنی ہے، انتظامی امور میں
اس کا تجربہ کیا ہے، وہ اپنی عمر اور سرگرمیوں کے حوالے سے کس قدر متحرک ہے؟
اسی طرح سلیکشن کمیٹی کی غیر جانبداری پر کوئی حرف نہیں آنا چاہیے، اور آخر
میں لڑکوں کے انتخاب پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ اگر
بورڈ والے علاقائی کرکٹ بورڈوں کو فعال کریں اور مختلف مقابلوں کی صورت میں
لڑکے آگے لائیں تو چھپی ہوئی صلاحیتیں ظاہر ہو سکتی ہیں، پسند ناپسند کے
دائرے سے نکلے بنا کام نہیں بنے گا۔ یوں ہم عالمی رینکنگ میں بدترین سطح سے
اوپر نہیں آسکیں گے۔ |
|