آداب قبلہ فرمان رسولﷺ کی روشنی میں

عن ابی ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ ان النبی ﷺ قال اذا انتیتم الغائط فلا تستقبلوا القبلۃ ولا تستدبروھا ولٰکن شرقوا او غربوا۔
(بخاری شریف جلد اول صفحہ 57،مسلم شریف جلد اول صفحہ 130)
حل لغات : الغائط :پاخانہ ۔لا تستقبلوا:منہ نہ کرو،لا تستدبروا:پشت نہ کرو۔
ترجمہ :سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ص نے فرمایا:جب تم قضاء حاجت کے لئے آؤ (بوقت قضائے حاجت) قبلہ کی طرف نہ منہ رو، اور نہ پشت کرو، لیکن مشرق کی طرف منہ کر لو، یا مغرب کی جانب۔‘‘
تعارف راوی:حضرت ابو ایوب خالد بن زید بن کلیب انصاری رضی اﷲ عنہ ،عقبہ ،بدر ،احد اور تمام مشاہد میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ حاضر ہوے ۔جب رسول اﷲ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو انہیں کے مہمان ہوئے ۔حضور نبی کریم ﷺ نے مصعب بن عمر رضی اﷲ عنہ اور ان کے درمیان مؤاخات فرمائی۔آپ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ تمام جنگوں میں شریک رہے صحابہ کرام میں سے ان سے ابن عمر، برا۷ بن عازب ،ابو امامہ ،زید بن خالد جہنی ۔مقدام بن معدیکرب ،انس بن مالک ،جابر بن سمرہ ،عبد اﷲ بن یزید الخطمی رضی اﷲ عنہم ابعین میں سے حضرات سعید بن المسیب ،عروہ،سالم بن عبد اﷲ ،ابو سلمہ ، عطاء بن یسار، عطاء بن یزید رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم وغیرہ ہم نے روایت کی ہے ۔باختلاف روایات آپ کی وفات 52-51-50ھ میں ہوئی۔
یہ اس لشکر میں تھے جس کا امیر زید بن معاویہ تھا ۔آپ کو قسطنیطینہ کے نزدیک دفن کیا گیا۔ان کی قبر کے توسل سے استسقاء کیا جاتا ہے ۔(اسد الغایہ جلد2 صفحہ82-81)
حضرت ابو ایوب انصاری نے امیر معاویہ (رضی اﷲ عنہما ) کے عہد میں 51ھ میں قسطنیطینہ پر حملہ کے وقت شرکت کی ،وہیں وفات پائی اور قلعہ کے نزدیک دفن کئے گئے ۔مجاہد نے کہا وہاں کے لوگ جب قحط میں مبتلا ہوتے ۔تو ان کی قبر مبارک کھول دیتے تو بارش ہوجاتی۔(اسد الغایہ جلد 5صفحہ 144)
تشریح :الغائط کا لغوی معنی پشت زمین ہے ،لیکن منقول عرفی کے طور پر اب ا س کا معنیٰ قضاء حاجت ہے جیسا کہ قرآن کریم میں بھی یہی معنیٰ مراد ہے :جاء احدکم من الغائط۔آیاتم میں سے کوئی قضاء حاجت سے فارغ ہو کر آیا ہے؟ وجہ نقل یہ ہے کہ عام طور پر قضا ء حاجت کے لئے لوگ باہر کسی پست زمین میں جاتے ،تاکہ پردہ حاصل ہو جائے ۔پھر عرف عام میں خود قضائے حاجت کو غائط کہا جانے لگا، کیونکہ اہل عر کی عادت ہے کہ جس چیز کا سننا اور دیکھنا ناپسند کرتے ہیں ،اس کو بطور کنایہ کے ذکر کر تے ہیں۔
اس حدیث میں بوقت وضائے حاجت کے آداب قبلہ کا بیان ہے ۔یعنی جب کوئی شخص پیشاب ،پاخانہ کرنے کے لئے صحرا یا بیت الخلاء میں جائے تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرے اور نہ پیٹھ قبلہ کی طرف کرے۔اس حدیث میں مطلق حکم ہے صحرا ہو یا بیت الخلاء میں جائے اور یہی مذہب امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا ہے اور آپ نے فرمایا !بوقت قضاء حاجت مشرق کی طرف منہ کر لیا کرو۔مغرب کے جانب یہ حکم اہل مدینہ اور ان کے لئے ہے ۔جس جگہ سے قبلہ یا جنوب کی طرف ہے یا شمال کی طرف اور جس جگہ سے قبلہ مشرق کی طرف ہے یا مغرب کی طرف ،ان کے لئے حکم اس کے بر عکس ہے ۔یعنی وہ قضاء حاجت (بول و براز) کے وقت شمال ،جنوب کی جانب منہ اور پشت نہ کر نی چاہئیے ۔اسی احترام کے پیش نظر یہ حکم ہے کہ نہ قبلہ کی جانب تھوکے ،اور نہ پاؤں پھیلا کر بیٹھے اور نہ ہی قبلہ کی جانب پاؤں پھیلا کر لیٹے ،ہاں واعظ کے لئے اجازت ہے کہ بوقت وعظ قبلہ کے طرف پشت کرے اور لوگوں کی طرف منہ کر کے خطاب کرے۔اس طرح سے بھی اجازت ہے کہ جب میت کو قبر ستان یا جنازہ پڑھنے کے لے لے جارہے ہوں تو حکم ہے کہ میت کا سر اس طرف ہونا چاہئے جدھر جا رہے ہوں ،چاہے اس کے پاؤں قبلہ کی جانب ہو ں ،یہ مجبوری ہے ،اسی طرح اگو کوئی بیمار ہوا ور وہ لیٹ کر نماز پڑھ رہا ہو ،اس وقت بھی بہتر یہی ہے کہ وہ اس طرح سیدھا لیٹے کہ چہرہ اور مکمل جسم قبلہ کی جانب ہو، اس وقت بھی مجبوراً پاؤں قبلہ کی جانب ہو جائیں گے ،احتراماً ذرا پاؤں کو اونچا کرے۔اس مسئلہ میں مشہور چار مذاہب ہیں۔
مذہب امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ:سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا اس مسئلہ میں مذہب یہ ہے کہ مطلقاً وقت قضاء حاجت ،استقبال قبلہ اور استدابار منع ہے ،چاہے جنگل ہو یا کھلی فضا میں اور چاہے بیت الخلا اور بنیان اورتعمیر شدہ جگہوں میں قضا ء حاجت کرے اور یہی مزذہب ہے امام مجاہد اور ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری اور ابو ثور کا اور یہی مذہب ہے راوی حدیث ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کا ان کی دلیل یہی حدیث ہے کہ اس میں حکم مطلق اور عام ہے اور قاعدہ ہے کہ مطلق اپنے اطلاق پر اور عام اپنے عموم پر جاری ہوتا ہے ۔راوی حدیث نے بھی اس حدیث سے یہی معنی اخذ کئے ہیں ۔جیسا کہ بخاری اور مؤطا امام مالک میں ہے کہ راویٔ حدیث ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ملک شام میں آئے ،تو وہاں قبلہ کی جانب بیت الخلاء بنے ہوئے تھے ،ہم وہاں قضاء حاجت کے وقت رخ بدل کر بیٹھے اور اﷲ تعالیٰ سے مغفرت چاہتے ۔ثابت ہوا اس طرح بیت الخلا بنانے بھی منع ہیں۔جن میں استقبال و استدا بار قبلہ کی جانب ہو تا ۔مسلک امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کی تائید و تصدیق ان احادیث سے بھی ہوتی ہے۔
1) عبد اﷲ بن حارث بن جز کی حدیث ہے وہ فرماتے ہیں:’’میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے سید دو عالم ﷺ کو فرماتے سنا کہ تم میں س کوئی بھی ہر گز قبلہ کی جانب منہ کر کے پیشاب نہ کرے ۔‘‘
2) معقل بن ابی معقل کی حدیث جس میں وہ بیان کرتے ہیں:’’رسول اﷲ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ بول و براز کے وقت ہم قبلتین کی طرف منہ کریں۔‘‘
اس حدیث میں قبلتین سے مراد قبلہ اول بیر المقدس اور کعبہ کی طرف ہو جاتی اس طرح خانہ کعبہ کی جانب استدبا ر ہو جائے گا۔ بعض نے فرمایا کہ قبلہ اول کے احترام کے پیش نظر اس وقت بھی قضائے حاجت کے وقت استقبال و استد بار نہ کرنا چاہئیے۔۔
3) حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ کی حدیث جس میں ذکر فرماتے ہیں:’’ہمیں سرکار ﷺ نے بول و براز کے وقت استقبال قبلہ کرنے سے منع فرما یا ہے ۔‘‘
4) حدیث :حضر ت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ میں تمہارے لئے والد کے قائم مقام ہوں۔تمہیں تعلیم دیتا ہوں ،جب تم میں سے کوئی بول و براز کے لئے آئے تو وہ قبلہ کی طرف منہ نہ کر اور نہ ہی اس کی طرف پشت کرے۔‘‘
یہ تمام احادیث مبارکہ عمدۃ القاری سے نقل کی گی ہیں ۔ان سب میں حکم مطلق ہے ۔صحرا کی تقلید نہیں ہے اور یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا مذہب ہے ۔
دوسرا مذہب :یہ ہے کہ مطلقاً استقبال و استد بار قبلہ بوقت قضائے حاجت جائز ہے ۔یہ مذہب عروہ بن زبیر اور ربیعہ اور داؤد ظاہری کا ہے ۔ان کی دلیل حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کی حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم بوقت قضائے حاجت استقبال و استدبار قبلہ کریں ۔پھر فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو وصال سے ایک سال قبل دیکھا ہے کہ وقت قضاء حاجت استقبال قبلہ فرمائے ہوئے ہیں ۔اس مذہب والے ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کی حدیث منسوخ اور اس حدیث کو ناسخ سمجھتے ہیں ۔اس کا جواب آگے نقل کیا جائے گا۔
تیسرا مذہب:صحراء کے بیت الخلاء میں استقبال قبلہ جائز نہیں ہے اور استدابار جائز ہے ۔امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ سے بھی اس طرح کی ایک روایت ہے ی۔
چوتھا مذہب:یہ کہ صحرا اور کھلی فضا ء میں استقبال و استدابار جائز نہیں اور بیت الخلا ء اور آبادی میں استقبال و استدبار جائز ہے ۔
یہ ہے مذہب امام شافعی اور اسحاق اور امام احمد رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ۔ان کی دلیل حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی حدیث وہ فرماتے ہیں :ایک دن میں اپنے مکان کی چھت پر گیا تو جناب رسول اﷲ ﷺ کو دو اونیٹوں پر قضاء حاجت کرتے دیکھا ۔جبکہ بیت المقدس کی طرف منہ مبارک کئے ہوئے تھے۔کہ یہ حدیث عموم نہی کی مخصص ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ابو ایوب رضی اﷲ عنہ والی حدیث کی ناسخ ہے ،لیکن یہ درست نہیں ہے کہ تخصیص و نسخ کا دعویٰ اس وقت صحیح ہوسکتا ہے جب تطبیق ممکن نہ ہو ۔ان میں تطبیق ممکن ہے ،وہ اس طرح کہ یہ آپ کا فعل مبارک ہے اور وہ آپ کا قول مبارک ہے ۔اور قاعدہ یہ ہے کہ جب قول و فعل میں تعارض ہو تو ترجیح قول کو ہوتی ہے ،کیونکہ فعل میں احتمال خصوصی اور احتمال عذر بھی ہو سکتا ہے ،یعنی پو سکتا ہے کہ یہ حکم آپ کے ساتھ ہو یا بوجہ کسی مجبوری کے ہو یا راویٔ حدیث کو غلط فہمی ہو گی ہو ،کیونکہ اس مخصوص حالت میں عام شخص کو بغور نہیں دیکھا جا سکتا ،چہ جایکہ سرکار ﷺ کو انہوں نے اجانک دیکھا ،تو اپنے غور و فکر سے قیاس کر کے بیان کر دیا ۔(واﷲ تعالیٰ اعلم)
اور یہی جواب دوسرے مذہب میں مذکور حدیث کا ہو گا۔
دوسرا جواب:قاردہ یہ ہے کہ جب حلت و حرمت میں تعارض آئے تو حرمت کو ترجیح دی جائے گی ۔لہٰذا ان روایات کو ترجیح ہو گی ، جن میں مطلقاً منع فرمایا گیا ہے ۔(جو مذہب اول میں مذکور ہوا)
تیسرا جواب:امت کو سمت قبلہ کی طرف استقبال و استدبار سے آپ نے فرمایا ہے اور سرکار ﷺ کے سامنے عین قبلہ ہوتا ہے ۔ آپ عین قبلہ کی طرف منہ نہ فرماتے تھے ،اگر چہ سمت قبلہ کی طرف منہ مبارک ہو جائے کیونکہ آُ کے لئے حجابات نہیں ۔آپ قبلہ کو مشاہدہ فرماتے ہوئے عین قبلہ کی طرف رخ نہ فرمایا سمت قبلہ ہونے کی وجہ سے (راوی کو غلط فہمی ہو گئی ہے)بھی تطبیق کی ایک صورت ہے ۔
وضا حاجت کے آداب:جب کوئی شخص قضائے حاجت کرنا چاہے تو اگر صحرا ہو تو دور مقام میں چلال جائے جہاں لوگ اسے نہ دیکھیں ۔اگر آبادی میں ہو تو پردہ کرے یا کسی گڑھے وغیرہ میں چلا جائے اور زمین سے قریب ہو کر شرمگاہ سے کپڑا اٹھائے ۔جیسا کہ ابو داؤد شریف میں ہے :ننگے سر قضاء حاجت نہ کرے اور نہ ہی اس وقت کوئی بات کرے ۔بائیں ہاتھ سے استنجا کرے اور فارغ ہونے کے بعد مٹی یا صابن سے ہاتھ دھوئے ۔استنجا کے لئے مٹی کے ڈھیلے استعمال کرے ۔ہڑے ،ط گوبر وغیرہ سے پرہیز کرے اور غسل خانہ میں وضو نہ کرے ۔ جناب رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی بھی شخص غسل خانہ میں پیشاب نہ کرے ۔پھر وہاں غسل بھی نہ کرے۔ یہ اس وقت ہے جبکہ غسل خانہ میں پانی جمع ہو جاتا ہو ،ورنہ حرج نہیں ۔انگوٹھی پینی ہو اور اس میں اﷲ کا نام لکھا ہو تو اس کو اتاردے ۔سورج اور چاند کی طرف منہ نہ کرے۔کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرے اور نہ ہی راستہ میں اور سایہ ،کھڑے پانی ،پھلوں کے گرنے کی جگہ اور نہروں کے کناروں پر،پیشاب نہ کرے۔(تفہیم البخاری جلد اول صفحہ 382)
﴿بیت الخلاء جاتے وقت کیا پڑھے﴾
عن انس رضی اﷲ عنہ قال کان النبی ﷺ اذا دخل الخلا قال انی اعوذ بک من الخبث والخبائث۔(بخاری شریف جلد اول صفحہ 26،مسلم شریف جلد اول صفحہ 163)ترجمہ:سیدنا انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں:جب حضور نبی کریم ﷺ بیت الخلاء میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے تو یہ پڑھتے :اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث۔’’اے اﷲ !میں نرجنوں اور مادہ جنوں سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
تشریح :اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ مستحب و مسنون یہ ہے کہ جب بندہ بیت الخلاء جائے ،تو مذکورہ بالا استعاذہ پڑھے ،کیونکہ ان مقامات میں شیطان حاضر ہوتے ہیں ،اس لئے ان میں داخل ہونے سے قبل استعاذہ پڑھے تاکہ ان کے شر سے محفوظ ہو جائے ۔ حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا: ’’ان حشوش میں جن حاضر ہوتے ہیں۔‘‘
اذا دخل:سے مراد یہ ہے کہ جب داخل ہونے کا ارادہ کرے ،کیونکہ داخل ہونے کے بعد زبان سے اﷲ تعالیٰ کا ذکر نہ کرنا مستحب ہے ۔اس طرح عبد العزیزی کی راویت اذا ارادا ن یدخل ۔سے موافقت ہو جائے گی جیسے قرآن پاک میں اذا قرأت القرآن سے مراد ہے ۔’’ جب قرأت کا ارادہ کرے‘‘
بیت الخلاء سے مراد عام ہے وہ تعمیر زدہ بیت الخلا ہو یا صحرا میں۔فرق صرف یہ ہے کہ تعمیر شدہ میں داخل ہوتے پڑھنا ہے اور صحرا میں بیٹھنے سے پہلے پڑھنا ہے ۔(فتح الباری)
الخبث والخبائث:لفظ خبث میں خا اور با دونوں پر ضمہ مروی ہے ۔خططابی فرماتے ہیں کہ با کو ساکن کر کے پڑھنا جائز نہیں ہے ۔لیکن شارح مسلم امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اہل معرفت کی ایک جماعت نے تصریح کی ہے کہ با سکن ہے ،کیونکہ قانون بھی ہیے فُعُل میں فُعْل پڑھنا جا سکتا ہے جیسے کتب کو تکب پڑھا جا سکتا ہے۔ ہاں ترک تخفیف اولیٰ ہے تاکہ مصدر سے اشتباہ نہ ہو۔(فتح الباری)
ابو عبد اﷲ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا اگر خُبْث مخفف ہو خُبُث سے تو اس کا معنیٰ وہ ہے جو بندہ نے حل لغات میں ذکر کیا ہے اور خُبْثْ مفرد ہو تو اس کا معنیٰ جیسا کہ ابن عربی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا :امر مکروہ (نا پسندیدہ) ہو گا ۔فرمایا:اگر مکروہ کلام ہو تو مراد گالی وغیرہ ،اور اگر مکروہ ملت ہو تو کفر اور اگر طعام سے ہو تو حرام اور اگر مشروب سے ہو تو نقصان دہ مراد ہو گا۔ اس معنی پر پھر خبائث سے مراد گناہ یا مطلق مذموم افعال مراد ہوں گے تاکہ تناسب حاصل ہو جائے ۔(فتح الباری جلد اول صفحہ214-213)
مسائل:1)اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ بیت الخلاء میں داخل ہونے کا جب ارادہ ہو تو استعاذپ پڑھے اور اس کے استحباب پر اجماع ہے چاہے تعمیر شدہ مکان ہو یا صحراء(جنگل وغیرہ) ہو اگر تعوذ بھول گیا اور داخل ہو گیا ،تو سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہما وغیرہ نے فرمایا کہ داخل ہو نے کے بعد پڑھنا مکروہ ہے اور سیدنا ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے پڑھنے کی اجازت دی ہے۔
2) بیت الخلاء میں داخل ہونے کے بعد پڑھنے میں آثار مختلف ہیں ۔اس اثر سے جواز معلوم ہوتا ہے اور اس حدیث سے منع معلوم ہے ۔جس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ بئر جمل کی طرف تشریف لا رہے تھے کہ ایک شخص سے ملاقات ہو گئی اس نے سلام عرض کیا،تو آپ ﷺ نے جواب نہ دیا۔یہاں تک کہ دیوار سے تیمم فرمایا ،تو جواب دیا ،معلوم ہوا بے وضو ذکر کرنا آپ نے نہ پسند فرمایا۔اس مسئلہ میں علماء کے ارشادات بھی مختلف ہیں ۔ابن عباس ،عطا ء ، مجاہد شعبی کا قول یہ ہے کہ وہ خلاء کے وقت اﷲ تعالیٰ کے ذکر کو ناپسند کرتے ہیں حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : خلاء میں اﷲ کا ذکر زبان سے نہ کرے، بلکہ دل میں ذکر کر سکتا ہے۔
ایک جماعت نے ذکر کی اجازت بھی دی ہے۔ مروی ہے کہ عبد اﷲ بن عمر و بن عاص رضی اﷲ عنہ بیت الخلاء میں ذکر کر لیتے تھے اور عرزمی فرماتے ہیں کہ میں نے شعبی سے پوچھا کہ اگر مجھے بیت الخلا میں چھینک آجائے تو کیا میں اﷲ تعالیٰ کی حمد کروں؟ تو آپ نے منع فرمایا۔ارشاد فرمایا: تو آپ نے فرمایا حمد کر لے ۔میں نے ان کو قول شعبی کی خبر دی ،تو انہوں نے فرمایا: تو حمد اوپر چڑھتی ہ ،نیچے نہیں اترتی۔ابن بطال کہتے ہیں اس حدیث میں اس کی دلیل ہے ،جو ذکر کے جواز کا قول کرتے ہیں۔(عمدۃ القاری)
آثار و اقوال مختلف ہیں ،اس قاعدہ کے تحت کہ جب جواز و کراہت میں تعارض ہو تو احتیاط کراہت کو ترجیح ہوتی ہے ۔اس لئے مناسب یہی ہے کہ بیت الخلاء میں زبان سے ذکر نہ کرے ،اسی لئے مستحب یہ ہے کہ جس انگوٹھی میں اﷲ تعالیٰ کا نام کندہ ہو اسے پہن کر بیت الخلاء میں نہ جائے۔
احب بعض الناس ان لا یدخل الخلا بالخاتم فیہ ذکر اللّٰہ۔’’بعض لوگوں نے یہ پسند کیا ہے کہ ایسی انگوٹھی پہن کر جس میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کا نام ہو ،بیت الخلاء میں نہ جائے ۔‘‘ (کہ ادب و احترام کا یہی تقاضا ہے)
امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ قول حرمت کے فتویٰ کے بغیر درست ہے ۔خلاصہ یہی ہے کہ بیت الخلاء میں زبان سے ذکر نہ کرنا مستحب و بہتر ہے ۔
3) اس حدیث میں لفظ استعاذہ لفظ اعوز کے ساتھ ہے اور ایک روایت میں ہے فلیتعوذ باللّٰہ ۔یہ ان تمام الفاظ کو شامل ہے جس میں استعاذہ ہو جیسے اعوذ بک ،استعیدبک، اعوذباللّٰہ، استعیذ باللّٰہ ،اللّٰھم انی اعوذبک، اور اس کی امثال۔
4) حضورسید عالم ﷺ کا استعاذہ فرمانا اظہار عبودیت ہے اور تعلیم امت ہے ورنہ جن و انس سے محفوظ و معصوم ہیں۔ آپ نے تو عفریت جن کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیا تھا۔
5) علماء کرام نے فرمایا:تعوذ کے ساتھ بسم اللّٰہ بھی کہے ۔عبد العزیز بن صہیب رحمۃ اﷲ علیہ کے روایت میں:اذا دخلتم الخلاء فقولوا بسم اللّٰہ من الخبث وا لخبائث ۔ ’’جب خلا ء میں جانے کا ارادہ ہو تو کہو:’’بسم اللّٰہ اعوذ باللّٰہ من الخبث الخبائث ۔
اور سعید بن زید نے ابن عدی کی کتاب میں فرمایا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو وہ پڑھتے ۔
بسم اﷲ ۔پھر پڑھتے:اللھم انی اعوذبک ۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ تعوذ کے ساتھ بسم اللّٰہ بھی پڑھنی چاہئے(عمدۃ القاری جلد دوم272-271)
بیت الخلاء سے فارغ ہونے کے بعد بیت الخلاء سے بایاں پاؤں باہر رکھتے اور یہ دعا پڑھتے:الحمد ﷲ الذی اخرج عنی الاذٰی وعافانی۔( ’’میں تجھ سے بخششاچاہتا ہوں‘‘)تمام تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں ۔جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو خارج کر دیا اور مجھے عافیت عطا فرمائی۔(واﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب!)
Pir Owaisi Tabasum
About the Author: Pir Owaisi Tabasum Read More Articles by Pir Owaisi Tabasum: 198 Articles with 658588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.