مدارس ،حقائق اور مفروضے
(Tanveer Ahmed Awan, Islamabad)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گزشہ دنوں قومی اخبارات میں شائع ہونے والے نغمہ حبیب کے کالم "قربانی کی
کھالیں"میں مدارس کو نشانہ اعتراض بنایا گیا ،انہوں نے اپنے سطحی علم کی
روشنی میں مدارس کی کردار کشی کرنے کی ناکام کوشش کی،اس اعتراف کے ساتھ کہ
مدارس دینی تعلیم کا مرکز تھے لکھا کہ ایسا نہیں کہ مدارس واحد ادارے ہیں
جہاں سے شدت پسندی ترویج پا رہی ہے بلکہ اب تو جدید اعلیٰ تعلیمی اداروں
میں بھی حالات تشویش ناک ہیں لیکن مدار س کی طرف سے اس میں بڑا حصہ ڈالا جا
رہا ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ شدت پسندتنظیموں کو نہ صرف افرادی قوت
فراہم کی جارہی ہے بلکہ دہشت گردی کے لیے تربیت کے مراحل میں بھی مدد دی
جارہی ہے"۔
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دینی تعلیمی مراکزانسانیت ساز ادارے ہیں ،جن کا
مقصد صرف اور صرف کردار سازی ،اعلیٰ اخلاقی صفات سے متصف ایسے افراد تیار
کرنا ہے جو ملک و ملت کی خدمت اور تربیت کر سکیں۔ دینی تعلیمی اداروں ہمارے
تاریخی اور اسلامی ورثہ کے امین ہیں،اعلیٰ معاشرتی اقدار کا فروغ ان ہی کی
وجہ سے ہے،پتھر کے زمانے میں انسان کو قلم و قرطاس سے روشناس اسی درسگاہ نے
کیا ہے جس کے معلم اول محبوب خالق کائنات ،پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ تھے ،
ان ہی کے فیض یافتہ خلفاء راشدینؓ نے تعلیمی شہر (ایجوکیشنل سٹی) آباد کئے
،علم کے فروغ کے لیے خطیر رقم خرچ کی، اہل علم کے لیے تمام وسائل کو بروئے
کار لایا،دنیا سے جہالت کے اندھیروں کو ختم کیا ،یورپ جب بے راہ روی اور
جنگ وجدل کی اندھیریوں میں گم تھااور مسلم اہل علم ،اطباء ،ریاضی دان
اورسائنسدان نئی نئی ایجادات کررہے تھے ،دینی مدارس ان کی دی ہوئی میراث
کوآنے والی نسلوں تک منتقل کرتے چلے آرہے ہیں۔تاریخ شاہدہے کہ جتنا منظم و
مرتب اور کامیاب نظام تعلیم مدارس کے پاس ہے کوئی تعلیمی نظم ایسی مثال پیش
کرنے سے قاصر ہے�ۂبرصغیر کے روشن ماضی پر نظر رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے
کہ انگریز ی سامراج سے پہلے شرح خواندگی نوے فیصد سے زائد تھی ،شہنشاہ
اورنگزیب کے زمانہ میں صرف شہر" ٹھٹھہ "سندھ میں چار سو مختلف علوم و فنون
کے کالج تھے ۔(سفرنامہ کپتان ایلگزنڈر ہملٹن)دہلی کے قریب ضلع روہیلکھنڈ
میں پانچ ہزار رعلماء علم کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل تھے جن کے مصارف
نوابروہیلکھنڈحافظ رحمت اللہ ؒ برداشت کرتے تھے،بنگال میں اسی ہزار مدارس
تھے ،اس طرح چار سو آدمیوں کی آبادی کے لیے ایک مدرسہ تھا۔انہی درسگاہوں کا
فیض تھا کہ ہندوستانی معاشرے میں مہمان نوازی،انسانی ہمدردی ،غرباء اور
مصیبت زدہوں پر شفقت اور رحم ،عہد وپیمان کا تحفظ و پابندی،خداترسی
وسچائی،امانت داری،سخاوت ووفاداری،صداقت ،دیانت و عدالت،بلند حوصلگی و
شرافت،بیدار مغزی،جفاکشی ،چستی،شجاعت اور مردانگی وغیرہ اوصاف جمیلہ بڑے
پیمانے پر پائے جاتے تھے،سچ بولنا تو اس قدر ضروری سمجھا جاتا تھا کہ جرائم
پیشہ لوگ بھی اس کے پابند ہوتے تھے۔(نقش حیات)انگریزی سامراج نے ان تمام
خوبیوں کے مراکز کو تباہ اور بدحال کرکے برصغیر کو غلامی کے تاریک گھاٹیوں
میں پھینک دیا اورایسا نظام تعلیم رائج کیا جس کا مقصد صرف اور صرف انگریزی
دفاتر میں کلرک اورمترجم مہیا کرنا تھا۔7مارچ 1935 کو ہندوستانی تعلیمی
ضروریات کو پورا کرنے کے لیے لارڈ میکالے کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی
گئی،جس کے تعلیمی اعراض ومقاصد میں مندرجہ ذیل کلمات تحریر کئے گے،"ہمیں
ایسی جماعت بنانی چاہیے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان مترجم
ہواوریہ ایسی جماعت ہونی چاہیے جوخون و رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہو مگر
مذاق اور رائے الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔(تاریخ التعلیم میجر
باسوص105)
تاریخ کا طالب علم بخوبی آگاہ ہے کہ تحاریک آزادی اور قیام پاکستان کے لیے
قیادت اورافرادی قوت اسلام کے ان ہی نمائندہ اداروں"دینی مدارس" نے مہیا
کی۔پرچم پاکستان کو لہرانے سے لے کر قرارداد مقاصد تک ،آئین پاکستان کا
تحفہ ہو یا استحکام پاکستان کے لیے قوم میں اتحاد و اتفاق کی فضاء قائم
کرنا ،دینی مدارس کے فیض یافتہ ہر جگہ صف اول میں نظر آتے ہیں ۔پوری دنیا
سے مسلم طلبہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستانی دینی علوم کی جامعات کو
ترجیح دیتے ہیں ۔تعلیم کے فروغ کے حوالے سے صرف وفاق المدارس العربیہ
پاکستان کے تحت 21633رجسٹرڈ مدارس چودہ لاکھ چوبیس ہزار آٹھ سوپچھتر
طلبہ(1424875)اورسات لاکھ پچاس ہزار تین سو تریاسی طالبات(750383)زیر تعلیم
ہیں ،جب کہ حفظ قرآن کریم کی عظیم خدمات کے اعتراف میں 7جولائی 2014 ء
میں مملکت عربیہ سعودیہ کی طرف سے "خدمت قرآن انٹرنیشنل ایوارڈ "دیا گیا۔
تمام مکاتب فکر کے مشترکہ پلیٹ فارم تنظیمات المدارس کے قائد ین ہمیشہ اس
بات کی وضاحت کرتے چلے آرہے ہیں کہ مدارس کی جدوجہد کا مرکز و محور تعلیم
ہے ،یہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں ،اہل مدارس ملک دشمن
سرگرمیوں سے کوسوں دور اپنے طلبہ کو حب الوطنی ،اتفاق و اتحاد کا درس دیتے
ہیں،انتشار وافتراق اور تعصبات سے بالاتر ہو کر مختلف صوبوں،علاقوں اور
قوموں سے تعلق رکھنے والے طلبہ، ایک چھت کے نیچے تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں
۔وطن عزیز کو مسجد کا درجہ دینے والے اہل مدارس نے ہمیشہ استحکام پاکستان
کی بات کی ہے جس کی پاداش میں سینکڑوں جید علماء و مشائخ کو شہید کیا گیا
مگر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے ہمیشہ مدارس کو "بند گلی" میں لانے کو شش
کی جاتی ہے ،کچھ نادان اپنی کم علمی کی وجہ سے مدارس کے اجلے کردار پرحرف
اعتراض اٹھا کر ان سازشی عناصر کے آلہ کار بن رہے ہوتے ہیں،مگر "چمگادڑ کے
الٹا لٹکنے سے سورج کی روشنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔" |
|