پاکستان آنے سے پہلے میرا خیال تھا کہ پاکستانی خواتین
پاکستانی معاشرے کا وہ مظلوم طبقہ ہیں جو ہر شعبہء زندگی میں مردوں کی دستِ
نگر ہیں۔ لیکن پاکستانی عورت اتنی خود مختار ہوگی اس کا مجھے بالکل اندازہ
نہیں تھا۔
|
|
یہ کہنا ہے پولستانی خاتون مصنفہ ’جوانا کوسی‘ کا جو گزشتہ قریب پانچ برسوں
سے پاکستان میں مستقل طور پر مقیم ہیں۔ پاکستان کے موضوع پر ان کی پولش
زبان میں تحریر کردہ کتاب ’عام پاکستانی زندگی‘ کو پولینڈ میں بے پناہ
پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ یہ کتاب بالخصوص پاکستان کے شہر کراچی اور بالعموم
پاکستان کی ثقافت اور سماجی منظر نامے سے متعلق ہے۔
جوانا اپنی کتاب’’ عام پاکستانی زندگی‘‘ کے دیباچے میں لکھتی ہیں، ’’یہ
کتاب نہ تو ادب کے ڈراموں پر مشتمل ہے نہ ہی خوفناک کہانیوں پر۔ اس میں آپ
کو کلاشنکوف ہاتھ میں لیے کوئی مرکزی کردار بھی نہیں ملے گا۔ یہ میری زندگی
کے پاکستان میں گزرے اب تک کے ان چند سالوں کے مٹھی بھر تجربات اور یاد
داشتوں کا نچوڑ ہے جب شادی کے زرق برق کپڑے الماری میں لٹکا دیے گئے تھے
اور ہاتھوں پر لگی مہندی کے رنگ پھیکے پڑنے لگے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد
آغاز میں ہر چیز اُس ماحول سے بہت مختلف اور اجنبی تھی میں جس میں پلی بڑھی
تھی۔ تاہم ہرجذبے کے پیچھے ایک ہی قوت کار فرما ہے اور وہ یقین اور محبت کی
قوت ہے۔ اسی جذبے نے مجھے بھی پاکستان منتقل ہونے پر مجبور کیا۔‘‘
|
|
جوانا کی کتاب ’عام پاکستانی زندگی نہ صرف ان کے کراچی میں قیام پر مبنی
تجربات پر مشتمل ہے بلکہ پاکستانی صوفی ثقافت، پاکستان کی تاریخ اورسماجی
زندگی کی بھی بھر پور تصویر پیش کرتی ہے۔ صوفی اقدار اور رسم و رواج کی بات
کرتے ہوئے جوانا اپنی کتاب میں، پاکستان میں صوفیاء کے مزاروں کا ذکر کرنا
نہیں بھولیں۔
ڈی ڈبلیو سے انٹرویو میں جوانا نے خصوصی ویب پیج ’وجود زن ‘ کے لیے اپنے
پیغام میں کہا کہ چونکہ پاکستانی معاشرے میں وسیع طبقاتی فرق ہے اس لیے
معاشی اور تعلیمی لحاظ سے مضبوط خواتین کو محروم طبقے سے تعلق رکھنے والی
خواتین کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں
مدد دینی چاہیے ۔
|
|
جوانا کوسی نے ڈی ڈبلیو سے اپنی خصوصی بات چیت میں بتایا کہ اپنی کتاب میں
انہوں نے ایک غیر ملکی کی نظر سے ان مشکل حالات کا ذکر کیا ہے جو کراچی کے
امیر علاقوں میں رہنے والوں کے مقابلے میں کم آمدنی والے علاقوں میں رہنے
والے لوگوں کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ جوانا ماہر عمرانیات ہیں اسی لیے
پاکستانی معاشرے میں خود کو ضم کرنا ان کے لیے جہاں کسی قدر دقت طلب تھا
وہیں دلچسپی سے خالی بھی نہیں تھا۔ پہلی بار وہ بطور مہمان پاکستان آئی
تھیں۔ جوانا کا کہنا ہے کہ انہیں یہ دیکھ کر بہت خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا
کہ پاکستانی لوگ اس سے بہت مختلف تھے جیسا ان کے بارے میں انہیں تاثر ملا
تھا۔
جوانا کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان اور پولینڈ کے لوگ بہت سی باتوں میں ایک
جیسے لگے۔ مثلاﹰ پاکستان میں خاندانی اقدار کا جس طرح پاس کیا جاتا ہے اسی
طرح پولینڈ میں بھی خاندان کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ پولینڈ اور پاکستان کے لوگوں میں ایک اور بات مشترک ہے اور وہ
یہ کہ دونوں ممالک کے لوگ اپنے ملکوں کے سیاسی اور سماجی نظام پر آپس میں
خوب تنقید کرتے ہیں اور برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن جب کوئی غیر ملکی ایسا
کرنے کی کوشش کرے تو اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ جوانا نے پاکستان
اور کراچی سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ جب بھی کچھ دن کے
لیے اپنے آبائی ملک پولینڈ جاتی ہیں، انہیں پاکستان یاد آنے لگتا ہے۔
(بشکریہ ڈوئچے ویلے) |