قابل برداشت

انسان کے معاشرتی رویے پر مبنی ایک سچا مضمون
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو بالکل برداشت کے قابل نہیں ہوتی ہیں۔کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی تکلیف گولی لگنے سے زیادہ ہوتی ہے۔کچھ باتیں ایسے دیر پا زخم کر دیتی ہیں جن کی مرہم کرتے کرتے ساری زندگی گزر جاتی ہے مگر زخم پھر بھی ہرے ہی رہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں نا کہ ’’زبان میں ہڈی نہیں ہوتی مگر یہ ہڈیاں تڑوانے کا سبب بنتی ہے۔‘‘

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس سب کچھ ہوتا ہے اگر کچھ نہیں ہوتا تو وہ ہے اخلاق۔ایسے لوگ انتہائی خود غرض ہوتے ہیں ۔یعنی جب ان کو اپنی غرض ہوتی ہے تو وہ اپنا منہ بولا بیٹا بنانے تک جاتے ہیں ۔جب ان کا کام نکل جاتا ہے تو ان کا رویہ ہی بدل جاتا ہے۔پھر ان کو سچی باتیں بھی کڑوی لگتی ہیں۔ظاہر ہے سچی بات تو ہر کسی کو کرڑوی لگتی ہے۔پھر صرف ان کو بس ان کا مفاد ہی نظر آتا ہے۔پھر ان کے لیے اخلاقیات کی بات کرنا قابل برداشت(bearable)نہیں ہوتا ہے۔حالانکہ زمینی حقائق واضح ہوتے ہیں کہ اخلاق کے ساتھ بات کرنے سے آپ کے پیسے نہیں لگتے ہیں۔اگر آپ کو یقین نہیں آتا ہے تو اس بات کا تجربہ کر سکتے ہیں۔اگر واقعی کسی کے ساتھ اچھے طریقے سے بات کرنے آپ کا سٹیمنا ضائع ہو یا آپ کو کسی دقت کا سامنا کرنا پڑے یاآپ کے پیسے لگیں گے تو یہ صرف آپ کی سوچ ہے۔تو ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا چاہیے۔اپنے آپ کو بدلنا چاہیے۔Thinking for making a change in yourself۔

آپ کے سامنے ایک واقعہ رکھتا ہوں ۔جس سے واضح ہو جائے گا کہ آج کے دور میں اخلاقیات کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ہم کچھ بھول گئے ہیں تو اپنے اخلاقیات بھول گئے ہیں ۔ایک بندہ تھا جس کو ایک پرائیویٹ سکول میں کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر رکھا گیا تھا۔اس کو سکول کے اصولوں کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اس کو ٹائم پہ سکول پہ آنا ہے بلکہ سکول ٹائم سے 15منٹ پہلے آنا تھا۔یہ بات بالکل ٹھیک تھی کہ ٹائم پہ سکول آنا چاہیے۔مگر یہ بات بالکل اصول کے خلاف تھی کہ سکول سے چھٹی کا ٹائم مقرر نہ تھا۔یہ کیوں نہ تھا ۔اس کا جواب تو اس خود غرض باس(Boss)سے پوچھنا چاہیے کہ جس کو صرف اور صرف اپنا مفاد نظر آتا ہے۔تو کمپیوٹر آپریٹر صاحب کے لیے یہ بات بالکل قابل برداشت نا تھی کہ سکول میں آنے کا ٹائم مقرر ہے بلکہ ٹائم سے پہلے آنے کا آرڈر ہے تو سکول سے جانے کا کوئی ٹائم کیوں نہیں ہے۔

کمپیوٹر آپریٹر کا مطلب ہوتا ہے کہ کمپیوٹر کو چلانا ۔کمپیوٹر آپریٹر کا کام ہوتا ہے کہ جو بھی حساب کتاب کمپیوٹر کا ہوتا ہے اس کو مینیج(manage)کرنا۔مثلاً کمپوزنگ کرنا،فیس کی ڈیٹا انٹری اور اس طرح کے دیگر کام جو کمپیوٹر سے متعلق ہو۔لیکن کمپیوٹر ٹیبل کو کپڑے سے صاف کرنا یہ بات کمپیوٹر آپریٹر کے ذمہ نہیں ہوتی ہے۔

تو ثابت ہوا کہ یہ صفائی والا کام بھی کمپیوٹر آپریٹر کرے تو یہ کام (c.o)کے لیے bearableنہیں ہے۔مگر محترم باس کیلیے یہ فریضہ بھی ( c.o) کو ہی انجام دینا پڑتا ہے۔کیونکہ صفائی والے حضرات کو کمپیوٹر کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا ۔چنانچہ اس سے محتاط رہنے کے لیے یہ کام بھی (c.o)ہی کرے گا۔لیکن باس صاحب اگر اپنے دماغ کا تھوڑا سا استعمال کریں تویہ فرما سکتے ہیں کہ بھئی آپ وہاں کھڑے ہو کر صفائی کروالو ۔تاکہ صفائی بھی ہو جائے اور کسی قسم کا نقصان نا ہو۔

شاید کبھی آپ نے سنا ہو ایک (c.o) برف لینے کے لیے بازار گیا ہو۔نہیں کبھی نہیں سنا ہو گا کیونکہ یہ کام ( c.o) کا نہیں ہے بلکہ اگر برف لانے والا کام اسے کہا جائے تو یہ کام bearableنہیں ہے۔اگر آفس بوائے کو کہا جائے کہ بازار سے گوشت ،ڈبل روٹی ،الیکٹر یسٹی کا بورڈ بنوا لاؤ تو باس کا یہ فرمان بلکل درست ہے لیکن یہی کام کمپیوٹر آپریٹر کو کہیں جائیں تو یہ اَن بلیوایبل (unbelieveable)اور ناقابل برداشت ہیں۔ہاں کمپیوٹر آپریٹر کو کہاں جائے کہ بھئی آپ کو بازار بھیجا جاتا ہے تاکہ پرنٹر کو جس کو ایک کپڑے سے ڈھانپا گیا ہے جیسے ایک نئی نویلی دلہن کو گھونگھٹ میں چھپایا جاتا ہے تاکہ کسی اس کے چہرے کو نا دیکھ سکے۔جب کپڑے سے ڈھانپے اس پرنٹر کو بازار لے جایا گیا تو وہاں انتہائی بلند اخلاق کے مالک نے اپنی جادوئی نظروں سے دریافت کیا کہ پرنٹر کو ( c.o)الٹا لے آیا ہے۔اس لیے انہوں نے اپنے بلند ترین اخلاق کی حامل اپنی زبان سے کچھ جملے یوں ارشاد کیے ۔’’پرنٹر کو الٹا کرکے لے آئے ہو۔‘‘انتہائی درشت لہجے میں یہ جملے جب (c.o) سنے جبکہ وہ ( bridle printer)تھامے کھڑے تھے۔تو اس شاپ والے کو اگر آدھا گھنٹا کھڑا رکھنے کے خیال آیا کہ ایک پرنٹر بھی آیا ہے تو اس نے اپنے قدم مبارک اپنی دکان کے اندر رکھے۔اب اگر (c.o)اتنی باتیں سننے کے بعد ،آدھا گھنٹا دھوپ میں گھڑا رہنے کے بعد ،اگر شاپ والے کو اخلاقیات کے کچھ سبق دے دے تو یہ کمپیوٹر آپریٹر کا یہ رویہ بالکل ناقابل برداشت ہے۔کیونکہ باس کی نظر میں ایک پیسوں سے خریدی ہوئی چیز کی قیمت ایک انسان کے اخلاق سے کہیں زیادہ ہے ۔
کسی کو اخلاق کا سبق دینا باس کے لیے bearableنہیں ہے۔ اگر شاپ والا اپنی زبان سے تکلف کرکے صرف اتنا کہہ دیتا کہ بھئی آپ اندر جا کے بیٹھ جائیں تو یہ کام اس کے لیے bearableتھا۔
Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 40678 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More