فیر وز پورہ پر گجو متہ سے تقر یبا ُ چار
پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گا ؤ ں ہے ـ’کنکر‘ ۔اس گاؤں میں
ایک لڑ کو ں کا مڈل سکو ل اور دوسرا لڑ کیوں کا پرائمر ی سکو ل ہے ۔ چند
سال پہلے میں نے کچھ سکول بہتری کی غرض سے اپنے ذمے لئے ہوئے تھے ۔اُن
سکولوں میں کنکر کا پر ائمری گرلز سکو ل بھی تھا ۔میں سکول کے وقت میں ہفتے
میں تین چار دن مختلف اوقات میں اُس سکو ل کا چکر لگا تا ۔ وہا ں ایک
ہیڈمسٹر س اور ایک اُن محتر مہ کی ساتھی ٹیچر تھیں ۔ دونوں مزے سے ساڑے نو
بجے کے بعد سکو ل آ تیں اور ساڑھے گیارہ بجے سکول بند کر کے چلی جاتیں ۔
وہا ں کچھ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ضرور تھا لیکن اس کی وجہ سے دس بیس منٹ لیٹ
ہو جا نا تو جائز تھا مگر ساڑھے نو بجے آنا زیادتی تھی ۔پھر سکو ل کا ٹائم
ڈیڑھ بجے تک تھا ۔ ساڑ ھے گیارہ بجے وقت سے دو گھنٹے پہلے سکو ل بند کر
دینا مزید زیا دتی تھی ۔میں نے ہیڈمسڑس صاحبہ کو سمجھا نے کی کو شش کی مگر
وہ سمجھنے کو تیار ہی نہ تھیں ۔
میں چاہتا تھا کہ دونوں اساتذہ وقت پرسکول آ ئیں ۔ اُن کا مو قف تھا کہ وہ
کا فی دور سے آتی ہیں اس لئے صبح ڈیڑھ دو گھنٹے لیٹ ہو جا تی ہیں ۔ کیو نکہ
اتنا لمبا راستہ طے کر نے اور ویگنیں بد ل بد ل کر وہا ں پہنچنانہ صرف
دشوار بلکہ ناممکن ہے ۔دوسرادوپہر کو انہوں نے گھر بھی ڈیڑھ بجے سے پہلے
واپس پہنچنا ہو تا ہے کیو نکہ بقول ہیڈ مسٹرس صاحبہ و ہ بہت دیندار خاتون
ہیں اور گھر پہنچ کر اُ نہیں نما ز پڑ ھنا ہو تی ہے۔ میں نے بہت سمجھا یا
کہ میڈم بہترہے جب سکو ل ختم ہو تو آپ یہیں نماز پڑھ کر اپنے گھرروانہ ہو ں
۔مگر وہ بضد تھیں کہ نماز پڑھنے کے لیے جو سازگا ر ماحو ل اُنہیں درکار ہے
وہ سکول میں میسر نہیں ۔ ہم دونو ں کے درمیان یہ کھینچا تانی کا فی دن جا
ری رہی ۔میں نے تنگ آ کر انتظامیہ کو رپورٹ کر دی ۔ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے
جواب میں اُس گاؤں کے مکینوں کومیرے خلاف بڑھکا دیا کہ میں اُنہیں نماز
نہیں پڑھنے دیتا ۔میں ایک اسلامی ملک میں ایک مسلما ن عورت کو اُس کی عبادت
سے روک رہا ہو ں ۔
ایک دن میں سکول پہنچاتو میری آمد کی اطلاع پاکر گاؤں کے چایس پچاس آدمی وہ
بھی انتہائی برہم ۔فوری طور پر پہنچ گئے ۔ان کے جذباتی انداز سے لگتا تھا
کہ وہ میرا سر پھوڑ دیں گے ۔ ایک بزرگ نے بڑے خوفناک انداز میں مجھے پوچھا
کہ مسلما ن ہو ۔میں نے صورتحال دیکھی اور بڑے مطمن انداز میں جواب دیا
الحمداﷲ ۔پھر میڈم صاحبہ کو دوپہر کے وقت نماز پڑھنے سے کیوں روکتے ہو ، یہ
اصل سال تھا۔ ہماری بچیاں یہاں پڑھتی ہیں ۔ نماز کی وجہ سے میڈم اگر جلدی
جاتی ہیں تو ہمیں کو ئی اعتراض نہیں ، تم اعتراض کرنے والے کو ن ہو؟
مذہبی معاملات بڑے حساس ہو تے ہیں ۔ مذہب کے نام پر جذباتی لو گ کچھ بھی کر
سکتے ہیں اور کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں اور پھر جہا ں چایس پچاس آدمیوں کا
ہجوم ہو وہاں بہت احتیاط کی ضرورت تھی ۔میں نے مسکراتے ہوئے اُنہیں کہا کہ
بھا ئیوں میری بات غور سے سنو ۔یہ آپ کی نہیں میری بھی بیٹیاں ہیں ۔ میرے
خیال میں انہیں نماز آنی بھی چاہیے اور پڑھنی بھی چاہیے۔آپ لوگوں کا کیا
خیال ہے؟کچھ لوگ غصے سے کھڑ ے چپ رہے مگر کچھ نے کہا کہ پڑھنی چاہئے ۔میں
نے کہا ڈیڑھ بجے چھٹی ہوتی ہے ۔میڈم ساڑھے گیارہ بجے چھٹی کر لیتی ہیں ۔میں
نے ان سے درخواست کی ہے کہ چھٹی سو ۱بجے کریں اوراس کے بعد پندرہ منٹ ان
گاؤں کی بچیوں کو جو میری اور آپ کی بیٹیاں ہیں نماز سکھائیں بھی اور
پڑھائیں بھی۔یہ اگر بچیوں کو نماز سکھا دیں گی تو بچیوں کا بھی بھلا ہو
جائے گا۔ دوسرا یہ تنخواہ ڈیڑھ بجے تک کی وصول کرتی ہیں اوریہ تنخواہ ا ن
کو بچیوں کو پڑھانے اور سکھانے کی ملتی ہے ۔ ان کے ڈیڑھ بجے تک ٹھہرنے سے
ان کی تنخواہ بھی ان کیلئے حلال ہو جائے گی ، ہمارا مقصد بھی پورا ہو جائے
گا۔ یہ تو دیندار خاتون ہیں انہیں تو ایسی باتوں کا پوری طرح علم ہونا
چاہیے۔
میری اس طرح کی باتوں سے لوگوں میں چہ مے گوہیاں شروع ہو گئیں ۔پھر سب کہنے
لگے کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں نے دوبارہ کہاکہ جناب یہ سکول آپ کا ہے میرا
نہیں ۔اس کے معاملات سے آپ لاتعلق تھے ۔اس لئے مجھے مجبوراًآنا پڑتا تھا۔
اب چونکہ آپ تمام معززین آگئے ہیں تو کل سے آ پ دیکھیں کہ میڈم دیر سے نہ
آئیں ان کا وقت آٹھ سے ڈیڑھ بجے تک ہے ڈیڑھ بجے آپ کو دیکھنا ہے کہ یہ
بچیوں کو نماز پڑھا کر یہاں سے رخصت ہوں ۔ اس دن دیہات کے لوگوں کو پہلی
دفعہ پتہ چلا کہ سکول کا اصل وقت کیا ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد دیہات کے لوگوں
کی مداخلت سے سکول کی حالت بہت بہتر ہو گئی۔ البتہ ہیڈ مسٹرس صا حبہ نے تنگ
آ کر اپنی ٹرانسفر کہیں اور کروا لی اور وہ سکول چھوڑ گئیں۔
یہ پرانی بات مجھے کل کے ایک نئے واقعے سے یاد آئی ۔مرے گھر کے راستے میں
ایک بیکری ہے جس سے میں زیادہ تر ضرورت کی چیزیں خرید تا ہوں ۔ٹریفک رکی
ہوئی تھی۔ جمعہ کادن تھا ۔ مجھے گھر پہنچنا تھا اور راستے میں بیکری سے کچھ
چیزیں بھی لینی تھیں۔ بڑی مشکل اور جدوجہد کے بعد پون گھنٹے میں تین چار
کلومیٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد میں ٹھیک پون بجے بیکری کے آگے تھا۔ مگر
بیکری کا شٹر نیچے تھا۔ گارڈز نے بتایا کہ بیکری بند ہو گئی ہے ۔بیکری پر
وقفہ تو ایک بجے شروع ہو تاہے میں نے گارڈ سے کہا ۔ گارڈ کہنے لگا۔ شروع تو
ایک بجے ہی ہوتاہے مگر منیجر صاحب نے کہا ہے کہ بند کر دو میں ملازم ہوں
کیا کر سکتاہوں ۔اس بیکر ی سے میرا گھر پانچ چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور
دوبارہ آنا مشکل ہے میں نے گارڈ سے کہا کہ منیجر کو بلاؤ۔ اس نے اندر پیغام
بھیجا۔ایک صاحب آئے ۔پوچھا کہ جلد بند کیوں کی ۔کہنے لگے آپ کو نہیں پتہ آج
جمعہ ہے اور سب کو جمعہ پڑھنا ہے اسلئے بندکردی میں شکایت کرنے کے لئے فون
نمبر پوچھا تو مسکرا کر ایک طرف چلے گئے ۔بہت سے لوگ آئے اور چلے گئے مگر
میں کھڑا احتجاج کرتا رہا۔ ایک بجنے میں پانچ منٹ پر منیجر صاحب تشریف لائے
اور بیکری کو تالے لگانے لگے ۔میرے احتجاج کی انہوں پرواہ بھی نہ کی۔مگر
فون نمبر بتا کر کہنے لگے ۔شوق پوراکر لیں ۔آج جمعہ ہے اور ہمیں نماز پڑھنی
ہے میں نے اس بیکری کے منیجر HRسے بات کی اور اسکے کہنے پر فون بیکری کو
تالے لگا کر جاتے ہوئے مینجر کو دیا۔ دروازے دوبارہ کھلے میں نے مطلوبہ
اشیا لیں۔ایک بج کر تین منٹ تک میں چیزیں لے چکا تھا۔ بیکری بند ہوئی اور
منیجر صاحب جہاں جانا چاہتے تھے چلے گئے۔
ان دو واقعات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے لوگ نماز کا مفہوم سمجھے
بغیر نماز کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ اﷲ آپ کی نماز کا محتاج
نہیں۔ اﷲ کو آپ کی نماز کی ضرورت نہیں ۔اﷲ کو آپ کی کسی بھی عبادت کی ضرورت
نہیں۔ اﷲان عبادات کے ذریعے آپ کو اجتماعی زندگی کے آداب سکھاتا ہے۔ اﷲ
نماز کے ذریعے آپ کو نظم ونسق سکھاتا ہے۔وقت کی پابندی سکھاتا ہے۔جس میں
کہے گئے وقت کو آگے پیچھے کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ لوگوں سے حسن
سلوک سکھاتا ہے۔ ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے چند لمحوں میں صف آرا ہو جانا
سکھاتا ہے۔نماز آپ کو بتاتی ہے کہ کسی معاشرے میں کس طرح مل جل کر رہتے ہیں۔
امیر اور غریب ایک دوسرے کو کس طرح برداشت کرتے ہیں۔کسی طرح ایک دوسرے کی
مدد کرتے ہیں۔ کالے گورے ، امیر غریب، لمبے چھوٹے ہر طرح کی تفریق ختم کرکے
معاشرے میں میل جول کو فروغ دینا نماز ہی کا کمال ہے ، نماز ہمیں ایک دوسرے
کو جاننے اور کام آنے کاموقع فراہم کرتی ہے اور اس کام کی عملی تربیت دیتی
ہے ، مگر افسوس کہ ہم نماز کی روح سے واقف ہی نہیں۔ ہم وقت کی پابندی نہیں
کرتے ، لوگوں سے حسن سلوک نہیں کرتے ، ہم نماز کی عملی افادیت سے محروم ہیں۔
نماز کا استعمال اپنے مفاد کے لئے کرنا تو اسلام میں جائز ہی نہیں۔ |