لڑ کر مرنا ، لڑائی چھوڑ کر مرنے سے بہتر
ہے" ۔
کہتے ہیں " جنگ میں جیت ممکن ہے لیکن وہ اسی کو ملتی ہے جو اسکا صحیح معنوں
میں حق دار ہوتا ہے" ۔ صحیح معنوں میں حقدار کیسے ہوتا ہے؟ وہ جو لڑتا ہے
اپنے مقابل سے۔ وہ جو ہمت ہار کر پلٹ نہیں جاتا۔ جو ہمت ہار کر پلٹتا ہے وہ
'جیت' کے راستے سے بےدخل کر دیا جاتا ہے۔
میری زندگی بھی میری نظر میں پرسکون گزر رہی تھی۔ لڑائی/جنگ کا تو نام و
نشان نہیں تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ جنگ لڑنے کا دور گزر چکا ہے۔ یہ کام
پرانے زمانے میں ہوتے تھے۔
لیکن۔۔۔میں غلط تھی۔
میری زندگی میں جنگ کا تعارف اور آغاز اس دن سے شروع ہوا جب میں اپنی دوست
مدیحہ کے گھر پہلی بار گئی۔ ہم کالج میں تو روز ہی ملتے تھے لیکن گھر میں
پہلی بار مل رہے تھے۔ اور میری خوشی الگ آسمان سے ہنس ہنس کے کہہ رہی تھی
کہ " آج میں اپنی دوست کے گھر جا رہی ہوں پہلی بار۔ اف کیا مزا آۓ گا"۔
چونکہ مجھے آسف بھائی نے عصر کے بعد لے کر جانا تھا اس لیے میں نے دوپہر کے
بارہ بجتے ہی تیاری شروع کردی۔ اپنا نیا جوڑا نکال کر استری کیا۔ اور میچنگ
بُندے نکال کر رکھےپھر نہانے گھس گئی اور نکل کر مدیحہ کے لیے کل بازار سے
لیا تحفہ اور چاکلیٹ کا ڈبہ پیک کرکے رکھا۔ اف! ابھی بھی دو گھنٹے باقی
تھے۔ یہ ایک گھنٹہ جیسے گزرا ہے میں ہی جانتی ہوں۔ میں نے بال کنگی کئے،
پہلے سوچا کھلے چھوڑ دوں پھر خیال آیا کہ میں پارٹی میں نہیں جارہی جو کھلے
چھوڑوں۔ سو ہائی پونی ٹیل بنالی۔ آنکھوں میں ہلکا سا کاجل ڈالا اور لپ گلاس
اٹھاکر لائی۔ جوتا پہننے لگی تو دل چاہا ہیل پہن لوں ان کپڑوں کے ساتھ خوب
جچے گی لیکن پھر سے وہی بات۔۔۔میں کونسا پارٹی میں جا رہی ہوں اس لیے سینڈل
پہن لی۔ آہ! یہ ہم لڑکیوں کی تیاریاں بس ہم ہی جانیں!۔
اپنا پرس اور تحفہ اٹھا کر میں باہر نکلی اور بھائی کا انتظار کرنے لگی جو
ناجانے ایسے مواقع پر کہاں 'غائب' ہوجاتے ہیں۔ اف! نوٹنکی۔۔ ضرور سونے کی
ایکٹنگ کر رہا ہوگا یا مجھے لےجانے کے بدلے کوئی کام نکلوائے گا۔ اسی برگر
کھلانے کی آفر کرکے میں عباہا پہن کر گاڑی کی جانب بڑھ گئی۔ جی ہاں! سعودیہ
میں عبائے کے بغیر نکلنا ممنوع ہے سو مجھے عادت ہے۔
بیس منٹ کے بعد میں بلڈنگ میں داخل ہوئی اور سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر
آئی اور بیل بجائی۔
"ماہم"۔ مدیحہ دروازہ کھولتے ہی میرے گلے لگ گئی اور مجھے لے کر اندر چل
پڑی۔
اسنے مجھے اپنی والدہ سے ملوایا اور پھر کمرے میں بیٹھ کر ہم نے خوب گپے
لگائیں۔
آج ہمیں واقعی بےحد مزا آیا۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ مغرب کی
آزانیں ہو رہی تھی۔ مدیحہ کچھ بےچین سی ہوگئی۔
"کیا ہوا؟" ۔ میں نے فوراً پوچھ لیا۔ لیکن جواب سے پہلے ہی بھائی کی کال
آگئی۔ وہ مجھے لینے آگیا تھا۔ مدیحہ اب مطمئین نظر آرہی تھی۔
"اب میں چلتی ہوں۔ لیکن تم ٹھیک ہو؟"
"ہاں! بس کچھ جنگ سی چل رہی ہے"۔ اسنے مسکرا کر کہا۔ مجھے سمجھ نہیں آیا
میں تفصیلاً بات کرتی لیکن بھائی کا فون دوبارہ بجنے لگا ۔ اف۔
"میں کل کال کروں گی۔ خدا حافظ" وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئی۔ اور مڑ کر
جائےنماز آٹھالی۔
مدیحہ ہماری کلاس میں وہ لڑکی تھی جو کلاس میں خاموش رہتی تھی، ہم سب کے
درمیان ہوتے ہوئے بھے وہ کہیں اور ہوتی تھی۔ کبھی کبار کوئی ایک آدھ بات
کرلیتی ورنہ خاموش رہنا پسند کرتی۔ وہ میری بہترین دوست تھی۔
اگلے دن میں نے اسے کال کی۔
"تم کس جنگ کی بات کر رہی تھی؟" ۔ وہ خاموش رہی۔
"بتاؤ بھی۔۔؟" ۔
"شیطان سے جنگ" اسکی بات سن کر میں دنگ رہ گئی۔
"کیا؟کیا مطلب؟" ۔
"ماہم تم کچھ دن پانچ وقت کی نماز پڑھنا۔ خود ہی جان جاؤ گی"۔ میں نے جواب
دینے کی بجائے باتوں کا رخ بدل دیا تھا۔
میں تو عید پر یا رمضان میں نماز پڑھ لیتی تھی یا کبھی ماما کے جھاڑ پلانے
پر مجبوراً۔
ہم روز فون پر دس منٹ بات کرلیتے تھے۔ ایک بار باتوں باتوں میں مدیحہ کہنے
لگی۔
"دنیا میں چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو پانچ وقت کے نمازی ہوتے ہیں
۔ دوم وہ جو روز شیطان سے لڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔ سوم وہ جو عید اور رمضان
پر نماز پڑھ لیتے ہیں یا ڈانٹ کھانے پر۔ اور چہارم وہ جو نماز ہی نہیں
پڑھتے " ۔
اسکی بات پر میں خاموش تھی کہ وہ دوبارہ بولی۔ "تم پلیز نماز پڑھنے کے کوشش
کیا کرو ماہم" ۔ میں بلکل خاموش ہوگئی تھی۔ اور پھر فون کٹ گیا۔ کیا
درخواست کی تھی اسنے۔۔۔۔ جسکا جواب مجھے نہیں معلوم تھا۔
پھر اگلی دوپہر میں یونہی بستر پر لیٹی تھی تو ظہر کی آذان ہو رہی تھی۔ میں
نے سوچا کوشش کر ہی لی جائے۔ اٹھ کر وضو کیا اور نماز پڑھی۔
اسی طرح کچھ دن تک میں ایک دو نماز پڑھ لیتی اور کچھ چھوڑ دیتی۔
پھر اس دن میں نے سوچا کہ وہ کس جنگ کے بارے میں بات کر رہی تھی؟ ۔ پوچھوں
گی اس سے۔
اگلے دن میں نے مدیحہ کو فون ملایا۔
"یہ جنگ کیا ہے مدیحہ؟"
وہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔ "میں نے کہا تھا نا تم کچھ دن ساری نمازیں پڑھ
کر دیکھو جان جاؤ گی"۔
"لیکن میں تمہارے منہ سے سننا چاہتی ہوں۔ پلیز "
" یہ وہ جنگ ہے جو ہم دن میں کئی بار لڑتے ہیں ۔ کبھی ہم جیت جاتے ہیں تو
کبھی شیطان۔ کبھی ہم ہارتے ہیں تو کبھی وہ۔ میں اس دوم قسم میں سے ہوں جسکی
روز جنگ اور لڑائی ہوتی ہیں۔ اب تم مجھے بتانا کہ تم کونسی کیٹیگری میں سے
ہو"۔ اور پھر دو چار باتوں کے بعد فون بند ہوگیا۔
خیر کچھ دن گزر گئے میں کبھی ظہر پڑھ لیتی ، تو کبھی عصر۔۔۔ کبھی مغرب۔۔
لیکن پوری پانچ اب بھی نہیں پڑھ پائی۔
اس دن میں نے صرف ظہر پڑھی اور رات کو مدیحہ کا فون آیا۔
"آج تم چار دفعہ شیطان سے لڑائی میں ہاری ہو۔ اور صرف ایک بار جیتی۔" ۔
اوہ خدایا! یہ کیا کہا تھا اسنے۔ یہ تھی وہ ان دیکھی جنگ؟ جو چل رہی تھی
لیکن میں محسوس نہیں کر پائی۔
"اب تم خود جانو کہ یہ جنگ کیا ہے اور کیسے لڑنی ہے"۔ وہ پتا نہیں کیا کیا
کہہ رہی تھی لیکن میں ابھی تک حیران بیٹھی تھی۔۔۔ دماغ سن سا ہوگیا تھا۔
جنگ اور شیطان؟ شیطان سے جنگ؟
"لوگ اسے جو مرضی کہیں میں تو اسے شیطان سے جنگ ہی کہوں گی"۔ یہ خاموش رہنے
والوں کہ اندر بھی ایک جنگ چل رہی ہوتی ہے۔ ان دیکھی جنگ۔ جسے محسوس کر
سکتے ہیں لیکن دیکھ نہیں سکتے۔
----
اور میں نے یہ جنگ لڑنے کا فیصلہ کر لیاتھا۔ فجر کے لیے آلارم لگایا اور
سوگئی۔
میں گہری نیند میں تھی جب الارم بجنے لگا۔ اف! چھوڑو سو جاؤ۔ اور میں نے
واقعی آنکھیں موند لیں۔
'شیطان سے جنگ'۔ میں نے بمشکل آنکھیں کھولیں۔ وہ ہنستا ہوا میرے سامنے کھڑا
تھا۔ ہنستے ہوئے اسنے کمرے کا اےسی اور ٹھنڈا کیا اور کمرا اور پر سکون بنا
دیا۔ اس گرم موسم میں سکون سا ملا تھا۔ میں آنکھیں بند کرنے ہی والی تھی کہ
وہ مسکرانے لگا۔ فاتح۔۔۔۔۔۔ وہ جیت گیا۔۔۔۔۔
نہیں میں فوراً اٹھی اور وضو کر آئی اور نماز پڑھی۔ وہ ناکام ہوکر ہٹ گیا۔
اور میں مسکرا دی میں جیت گئی تھی۔ ہاہ!
ظہر کی نماز پڑھ کر بھی میں جیت گئی۔ دوپہر کا کھانا کھا کر میں ٹی وی کے
آگے آبیٹھی۔ فلم لگی تھی اور فلم میں گانا۔۔ میں محو ہوکر دیکھ رہی تھی اور
وہ دوسرے صوفے پر بیٹھا قہقہے لگا رہا تھا۔ اسکے بلند ہوتے قہقہے زخم پر
نمک کی طرح لگ رہے تھے۔ مجھے یہ جنگ ، یہ لڑائی جیتنی ہے۔۔۔۔ میں اٹھ کر ٹی
وی بند کردیا۔
ہاہ! اب بولو شیطان!۔ اور وہ ناکام ہو کر پلٹ گیا۔
عصر بھی ادا ہوگئی۔ اب مغرب ہونے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔
"چلو بھئی باہر گھوم کر آتے ہیں۔ کھانا بھی باہر کھائیں گے" ۔ بھائی اپنے
کمرے سے نکل کر آیا تھا اور ہم سب خوش ہو کر باہر نکل گئے۔
گھومتے پھرتے مغرب کی آذان ہونے لگی۔ اور مغرب کا وقت گزرے بھی ایک گھنٹہ
ہوگیا۔ اپنی ہار کو سامنے دیکھ مجھے بےچینی ہونے لگی۔ اوہ! مدیحہ بھی ایسے
ہی بےچین ہوئی تھی۔ کیونکہ وہ ہار رہی تھی۔
عشاء بھی ہوگئی تھی لیکن گھومنا پھرنا جارہ تھا۔ ہم ہوٹل میں بیٹھے کھانا
کھانے لگے۔ اور واپس آکر تکھن ایسے حاوی ہوئی کہ میں سیدھا بستر پر آلیٹی۔
ہاہاہا! ہاہ! میں جیت گیا۔ میرے ہی انداز میں وہ مجھ سے کہہ رہا تھا۔ میں
خاموشی سے لیٹی رہی۔ پھر فون اٹھا کر اپنی ہار کا ذکر مدیحہ سے کیا۔
"جانتی ہو ماہم! یہ ایسی جنگ ہے جس میں کامیابی اور ناکامی دونوں ہی ہمیشہ
کے لیے نہیں رہتی۔ ہمیں روز کئی بار یہ جنگ نئے سرے سے لڑنی پڑتی ہے۔ دن
میں کئی بار"
"ٹھیک کہہ رہی ہو تم"۔
"اور پانچ وقت کا نمازی اور اچھا مسلمان بننے کے لیے ہمیں عمر بھر یہ جنگ
لڑنی پڑتی ہے۔ ایسے ہی کامیاب مسلمان تو نہیں ہوتا کوئی بھی۔ "
ہاں یہ جنگ روز لڑی جاتی ہے۔ کبھی کوئی مہمان آگیا تو چھوٹ گئی نماز۔ کوئی
ڈرامہ لگ گیا تو چھوٹ گئی نماز۔ کبھی باہر چلے گئے۔ کبھی دل نہیں کیا۔ کبھی
کچھ تو کبھی کچھ۔
عشاء کی نماز کا تو وقت باقی تھا نا۔ میں وضو کر کے آئی اور نماز پڑھ لی۔
ایک بار ہار گئی تو کیا ہوا۔ میرے پاس اگلا موقع تو ہے نا جیتنے کے لیے۔
ایک ہی بار میں مکمل کامیابی یا مکمل ناکامی کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ بار بار
موقع ملتا ہے ہمیں۔
میں نے دعا کہ لیے ہاتھ اٹھائے۔
"یااللہ مجھے اس جنگ میں کامیابی عطا کرتے رہنا۔ مجھے اکیلا مت چھوڑ دینا
یا رب میرے ساتھ رہنا۔ ہمیشہ میرے ساتھ رہنا اور میری مدد کرنا۔ یااللہ
میری اس جنگ میں مدد کرنا اور کامیابی عطا کرنا۔ " میں مانگتے مانگتے رو
پڑی۔
"مجھے مضبوط بنانا اور ثابت قدم رکھنا۔ مجھے ہمت دینا یااللہ۔۔۔۔۔۔ بس میری
مدد کرنا۔ آمین!"۔ میں نے جائےنماز طے لگائی اور اٹھ گئی۔ میں نے دعا مانگ
لی تھی۔ اب مجھے زندگی بھر یہ جنگ لڑنی ہے پورے عزم کے ساتھ۔
یہ جنگ تو تاعمر چلنی ہے۔ اور چلتی رہنی ہے۔ کبھی جیت تو کبھی ہار۔ لیکن
لڑے بغیر جیت ناممکن ہے۔ اللہ ہمیں اس لڑائی میں کامیاب کرے آمین!
--- |