سعید نے طلال کے کندھے پر سے ہاتھ اٹھایا
اور اپنی جگہ پر بیٹھ گیا طلال حیران تھا سعید بھائی کی سوچ ابھی بھی ویسی
ہی تھی اس کو افسوس ہوا کہ وہ بھائی کی سوچ نہیں بدل پایا تھا۔ وہ سوچ رہا
تھا کہ وہ کیسے بھائی کے خیالات کو بدلے کہ صرف اچھا کھانا پہنا اور امن سے
رہنا ہی زندگی نہیں ہے بلکہ عزت اور وقار سے سر اٹھا کر جینے کو زندگی کہا
جاتا ہے ۔اسی لیئے وہ بولا بھائی آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر یہ آزادی کی
تحریک ختم ہوجائے اور کشمیر کے لوگ پاکستان سے الحاق کی خواہش چھوڑ دیں تو
کیا بھارت ہمیں انسان تسلیم کرتے ہوئے انسانی حقوق دے گا ؟ بولیئے بھائی
حالات تو آپ کے سامنے ہیں کشمیر کے بھی اور بھارت کے ان مسلمانوں کے بھی
جو بھارت میں رہتے ہیں نہ جانے کتنی نسلیں ان کی بھارت میں ہی رہ رہی ہیں
امن سے رہتے ہوئے بھی ان کو سکون نصیب نہیں زیادہ دور کیوں جائیں گجرات کی
مثال آپ کے سامنے ہے وہاں کس بے دردی سے مسلمانوں کا خون بہایا گیا ہے تو
کیا ہمیں ہمارے حقوق دے گی بھارت سرکار جو کہ مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے
۔ آج سے نہیں چودہ سو سال پہلے سے مکہ میں بھی یہ ہی ہندوں مسلمانوں کو
سکون اور امن سے نہیں رہنے دیتے تھے ان کے خون میں مسلمانوں کی دشمنی موجود
ہے یہ دنیا میں کہیں پر بھی ہوں یہ مسلمانوں کو اذیت اور ضرر پہنچائے بنا
نہیں رہ سکتے کشمیر پاکستان ضرور بنے گا اور ہم بنائیں گئے اسے انشااللہ
لیکن اگر نہ بھی بنا سکے تو بھارت سے الحاق کھبی نہیں ہونے دیں گئے یہ بات
تو پتھر پر لکیر کی طرح ثبت ہوچکی ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں نے بھارتی فوجیوں
کے خلاف خوشی سے بندوق نہیں اٹھائی بلکہ انہوں نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم
ایسے کریں جب فیصلہ ہوگیا تھا کہ اپنی خواہش کے مطابق ہمارا حق ہے کہ ہم جس
سے چائیں الحاق کریں تو یہ ہندوں محاراجہ ہی تھے جنہوں نے ہم انسانوں کو
بےجان کاڑکباڑ کی طرح بھارت کو چند سکوں کی خاطر بیچ دیا تھا۔ کیوں کیا
ہماری کوئی حثیت نہیں تھی ہم انسان نہیں تھے ہمارے حقوق غضب کرتے چلے جارہے
ہیں یہ خون کے پیاسے بھارتی فوجی اور اس کی سرکار اور ہم آج اتنی جدوجہد
کے بعد صرف اس لیئے ہار مان لیں کہ ہمیں دنیا کی زندگی گذارنی ہے۔ مجھے
نہیں گذارنی ایسی دنیا کی زندگی جہاں صرف مادیت پرستی ہو اپنے ہاتھوں اپنے
ہی بھائی کے حقوق کھائے جائیں اور پھر چین کی نیند سویا جائے ۔ اور آپ تو
جانتے ہیں چین تو امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی نہیں وہ بھی وہاں
کس خوف اور دہشت میں رہ رہے ہیں شام فلسطین مصر یمن ان کے حالات سے بھی آپ
بخوبی واقف ہیں۔ اگر ہم یہ جدوجہد چھوڑ دیں تو بھی مارے ہی جائیں گئے تو جب
ہی مرنا ہی ہے تو عزت سے کیوں نہ مریں دوچار کو لے کر اس دھرتی کا بوجھ ختم
کر کے کیوں نہ مریں۔
طلال میرے بھائی تم نہیں سمجھوگئے میری باتوں کو ۔
نہیں میں سمجھ رہا ہوں بھائی۔ طلال نے سر ہلاتے ہوئے کہا لیکن آپ نہیں
سمجھ رہے یا پھر سمجھنا نہیں چاہارہے ۔ ہمیں ہمارے خوابوں اور خواہشوں سے
دستبردار ہونا پڑے گا جھبی ہماری نسلیں سکون سے جی سکیں گی آج ہمیں ان کئے
کل کی خاطر لڑنا ہوگا ۔ طلال نے فاطمہ کی گود میں موجود احمد کی طرف اشارا
کرتے ہوئے کہا۔ پاکستان جب بنا تھا تو کتنے لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ
دیا تھا ان کی جدوجہد ہی تھی جھبی وہ لوگ آج اپنے وطن میں سکون سے رہ رہے
ہیں۔
سکون سے ! سعید نے ایک دم طنزیہ انداز میں طلال کی بات کاٹ دی
کیا تم نہیں جانتے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود وہ لوگ اب بھی پاکستانی نہیں
بن سکے مہاجر سندھی پنجابی پٹھان ہیں وہ سب مگر پاکستانی نہیں ہیں ۔ جو لوگ
خود کو ابھی تک قبول نہیں کرسکے وہ کشمیر کو پاکستان بنتا کیسے قبول کرلیں
گئے ۔ سعید طلال سے بات کرتا ہوا اب فاطمہ کی طرف مڑا جو احمد کوناشتہ
کرارہی تھی ۔ مجھے بتاو کیا کیا لانا ہے میں کام پہ جارہا ہوں وہاں سے
بھیجاوا دوں گا ۔ پھر طلال سے بولا باہر نہیں نکلنا آرام کرو اچھا ۔۔۔
طلال گہری سوچ میں گم تھا اس لیئے اس نے سر ہلا دیا۔ سعید کے کام پر جانے
کے بعد طلال بولا بھابھی بھائی کے خیالات اب بھی ویسے ہی ہیں وہ شاید خود
کو بدلنا نہیں چاہتے ۔ فاطمہ بولی جب میں احمد کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے
لگتا ہے کہ سعید بھی ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ مگر جب کشمیر کے حالات دیکھتی ہوں
تو دل بجھ جاتا ہے سمجھ نہیں آتا کیا کروں بس اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ
ہمارے حال پر رحم کرے اور ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دے ۔۔۔۔
طلال بولا بھابھی انشااللہ وہ دن دور نہیں جب ہم آزادی کی فضا میں سانس
لیں گئے۔
فاطمہ انشااللہ بولتے ہوئے کمرے سے نکل گئی طلال چارپائی پر لیٹ گیا اور
آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔
رات ہوچکی تھی کھانے سے فارغ ہوکر قہوے کا دور چل رہا تھا۔ احمد کی باتوں
سے سب محظوظ ہورہے تھے بچے کی معصوم حرکتیں ماحول میں پھیلی افسردگی کو ختم
کررہی تھیں کہ بوٹون کی دھمک سنائی دینے لگی جوکہ قریب ہوتی جارہی تھی پھر
دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی ساتھ آواز آئی دروازہ کھولو۔۔
سب نے چونک کر پہلے دروازے کو پھر ایک دوسرے کو دیکھا سعید نے طلال کو
اشارا کیا کہ وہ اوپر چھت پر چلا جائے طلال چھت پر چلا گیا اور فاطمہ نے
احمد کو اپنی گود میں اٹھا لیا بچہ جو ماں باپ کے چہروں پر موجود خوف کو
دیکھ کر خوفزدہ ہوگیا تھا اور اس کو احساس ہونے لگا تھا کہ کچھ غلط ہونے
جارہا ہے اس لیئے وہ چپ کرکے ماں کے گلے سے لگا سب کو دیکھ رہا تھا ۔
سعید نے آگئے بڑھ کر دروازہ کھولا عین توقع کے مطابق بھارتی فوجی ہی
دروازے پر موجود تھے جو کہ سعید کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے اندر داخل ہوگئے۔
سامنے لکڑی کی بنی چھوٹی ٹیبل پر جو دو چارپائیوں کے گرد رکھی تھی اس پر
تین قہوے کے مگے رکھے تھے۔ بھارتی افسر نے ایک مگ اٹھاتے ہوئے سیعد سے
مخاطب ہوا تو قہوا پی رہے تھے تم جھبی اتنی دیر لگا دی دروازہ کھولنے میں !
سعید نے ایک نظر چائے کے کپوں کو دیکھا اور بے اختیاردل ہی دل میں اللہ سے
مدد کی درخواست کی۔
تم تو دو افراد ہو گھر میں یہ تیسرا کپ کس کا ہے؟
سعید اس دفعہ بھی خاموش رہا اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح بات کو
سنبھالے یہ بھارتی درندے تھے ان کو سعید کی باتوں سے اس کی وضاحت سے کچھ
لینا دینا نہیں تھا انہیں صرف اپنی خون کی پیاس بجھانی تھی جو کام انہیں
کرنا تھا وہ کام وہ ضرور کرتے اس لیئیے ان سے بحث بےکار تھی
اوئے جواب کیوں نہیں دے رہا گونگا ہے کیا ؟ بول بھارتی فوجی نے سعید کو
دیوار کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا ۔
پھر فاطمہ کی طرف مڑا اور احمد کو اس کی گود سے چھینتے ہوئے کہا کہ تو بول
یہاں کس کس کو چھپارکھا ہے تم لوگوں نے بچہ کی جان پیاری ہے تو بول ۔ فاطمہ
بولی میرا بچہ کو چھوڑ دو خدا کے واسطے اس معصوم کی کوئی غلطی نہیں اس کو
چھوڑ دو ۔ سعید نے فاطمہ کو اس طرح گڑگڑاتے ہوئے دیکھا تو اس سے برداشت
نہیں ہوا اور اس نے افسر کی گود سے احمد کو چھپٹا اور فاطمہ کو دیتے ہوئے
بولا کہا نہ ادھر صرف ہم ہیں تم جاو جاکر کہیں اور تلاش کرو اتنگ وادیوں
کو۔ ابھی اس کا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک تھپڑ سعید کے چہرے پر
آلگا جس سے وہ لڑکھڑا کر گر گیا
کتے ہمارے آگئے بولتا ہے تیری تو یہ کہے بھارتی افسراور اس کے ساتھیوں نے
سعید پر لاتیں مارنی شروع کردیں۔ احمد سہم کر ماں سے چمٹ گیا تھا ۔سعید ادھ
موا ہوگیا تھا اور اوپر بیٹھے طلال کا گرم خون جوش مارنے لگا اب اس کی ہمت
جواب دینےلگی تھی لیکن وہ اپنا دل مضبوط کرکے اوپر ہی بیٹھا ہوا تھا جب اس
کو آواز آئی پرکاش تم اوپر جاکر چھت پر جاکر دیکھو اور رام دین تو اندر
کے کمرے اچھی طرح دیکھ
اوپر چھت پر بیٹھا طلال کا خون گرم ہونے لگا گو کہ وہ ادھر کسی قسم کی جنگ
نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ اکیلا تھا اور بھائی کے ساتھ اس کے بیوی بچے بھی
تھے پھر آس پڑوس والے بھی فائرنگ کی زد میں آجاتے پہاڑوں کے درمیاں
ساتھیوں کے ساتھ لڑنا اور بات تھی بھارتیون کوفوجی کیمپ میں اڑٖانا اس کے
بائیں ہاتھ کا کام تھا مگر اس وقت صرف بہادری نہیں مصلحت کا تقاضہ تھا کہ
وہ چپ رہے لیکن بزدلوں کی طرح مرنا اس کو بھی پسند نہ تھا اس لیئے اس کی
گرفت اپنی گن پر مضبوط ہوتی گی وہ ہر طرح سے بھارتی فوجی پر حملہ کرنے کے
لیئے تیار بیٹھا تھا کہ تین چار بلیاں نہ جانے کہاں سے میاوں میاوں کرتیں
سیڑھیوں کی جانب بھاگیں بھارتی فوجی پرکاش جو چھت پر پہنچ چکا تھا بلی کی
آواز سے ڈر کر نیچے بھاگا ۔ بھارتی افسر نے اس کو دیکھ کر پوچھا کوئی ہے
کیا ادھر پرکاش بولا نہیں جی کوئی نہیں ہے اوپر تو ۔ رام دین بھی کمرے چیک
کرکے آگیا تھا نہیں جی ادھر کوئی نہیں ہے لگتا ہے بھاگ گیا ۔
ہمممم بھارتی افسر نے ایک ہنکارا بھرا اور سعید پر ایک گہری نظر ڈال کر
واپس ہوگیا ۔ سعید نے اٹھ کر جلدی سے دروازہ بند کیا اور ایک لمبا سانس
خارج کرکےپاس پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا ۔
جاری ہے ۔۔۔۔ |