پچھلی رات کے تین بج رہے تھے ٗ ہر طرف سکوت
طاری تھا ۔ گھٹاٹوپ اندھیرے میں عوام ایکسپریس ریل کی پٹڑی پر نہایت تیز
رفتاری سے دوڑرہی تھی ۔گاڑی میں سوار مسافر بھی خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے
تھے ۔اچانک زور دار دھماکہ ہوا اور عوام ایکسپریس ٗ اندھیرے میں کھڑی ہوئی
مال گاڑی سے جا ٹکرائی ۔ عوام ایکسپریس کا انجن اور چار اگلی بوگیاں مکمل
طور پر تباہ ہوگئیں ۔ یہ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ رات کے سناٹے میں میلوں
دور تک سنا گیا ۔چار مسافر موقع پر ہی دم تو ڑ گئے اور 35 مسافر وں کو شدید
چوٹیں آئیں جنہیں نشتر ہسپتال ملتان پہنچادیا گیا ۔ محکمہ ریلوے کا یہ پہلا
حادثہ نہیں ہے بلکہ جب سے ریلوے تنصیبات (جن میں ٹریک ٗ بوگیاں اور انجن )
اپنی طبعی عمر پوری کرکے ناقابل استعمال ہوئی ہیں ۔اسی دن سے حادثات معمول
بن چکے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک سنگین حادثہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ معاملات
اس لیے ٹھیک نہیں ہوپارہے کہ حادثات کے اصل ذمہ دار بچ جاتے ہیں اور ذمہ
داری کیبن مین ٗپھاٹک والے اور ڈرائیور پر ڈال کر اصل حقائق کو دبا
دیاجاتاہے ۔ چند دنوں بعد انکوائر ی رپورٹ فائلوں میں دب کر اپنی اہمیت کھو
کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے ۔جب تک اصل مجرموں تک قانون کے ہاتھ نہیں
پہنچیں گے اس وقت تک نہ تو حادثات رک سکتے ہیں اور نہ ہی مسافروں کی قیمتی
جانیں حادثات کی نذر ہونے سے بچائی جاسکتی ہیں ۔خواجہ سعد رفیق کی تمام تر
پھرتیوں اور بہتر فیصلوں کے باوجود ریلوے اگر اب تک ترقی نہیں کرسکی تواس
کی وجوہات ٗ حادثات ٗ بدانتظامی ٗ فرسودہ تنصیبات اور محکمانہ لاپرواہیاں
ہیں ۔ اب تازہ ترین حادثے کو ہی دیکھ لیں ۔ ٹرین ڈرائیور پر تمام تر ذمہ
داری ڈال کر کنٹرولر ٗ اسٹیشن ماسٹر ٗ مال گاڑی کے گارڈ سمیت تمام ذمہ
داران کو بچانے کی جستجو کی جارہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سکندر آباد
موضع بچ اسٹیشن پر اگر مال گاڑی کے نیچے کوئی شخص آگیا تھا تو رات کے
اندھیرے میں ڈرائیور کو یہ کیسے پتہ چلا اور اس نے دو اسٹیشنوں کے درمیان
میں از خود مال گاڑی روک کر ریلوے ٹریک کو کیوں بلاک کردیا ۔کیا اسے خبر نہ
تھی کہ عوام ایکسپریس اس کے پیچھے آرہی ہے ۔ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ
کنٹرولر ملتان ڈویژن کو جب مال گاڑی رکنے کی خبر ملی تو اس نے عوام
ایکسپریس کودو اسٹیشن پہلے کیوں نہیں روکا ۔ (یہاں یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ
آج بھی کنٹرولر آفس صدیوں پرانے ماحول کی عکاسی کررہا ہے جہاں کاغذ کے
ڈایاگرام پرپنسل سے لکیریں لگا کر گاڑیوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کیا
جاتاہے۔جبکہ دنیامیں جہاں ریلوے سسٹم کا م کررہا ہے وہاں ٹرینوں کی نقل و
حرکت کوجانچنے کا جدید ترین نظام قائم ہوچکا ہے ۔گاڑی کی رفتار کتنی ہے ٗ
گاڑی مکمل بھی ہے یا نہیں ٗ انجن کا ڈرائیور جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے ۔
ریلوے لائن پر کوئی رکاوٹ تو نہیں ۔کہیں سے ٹریک تو نہیں اکھڑ گیا۔اس تمام
صورت حال کا علم کنٹرولرکو اپنے آفس میں بیٹھ کرہوتا ہے ۔) میں یہ بات وثوق
سے کہہ سکتا ہوں کہ کنٹرولر ملتان ڈویژن خود سویا ہو گا اور اس کی جگہ دفتر
کا کوئی چپڑاسی کنٹرولر کے فرائض انجام دے رہا ہوگا ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو
عوام ایکسپریس کو روکنے کے لیے وارننگ پٹاخے بھی ٹریک پر نصب کروائے جاسکتے
تھے جو ہر ریلوے اسٹیشن ٗ ہر گاڑی کے ڈرائیور اور گارڈ کے پاس ہوتے ہیں۔
ایمرجنسی میں وارننگ پٹاخے 200 میٹر کے فاصلے پر تین چار جگہوں پر ٹریک پر
باندھ دیئے جاتے ہیں جب ٹرین ان پٹاخوں پر چڑھتی ہے توان کی آواز دور تک
سنی جاسکتی ہے ۔ڈرائیور اگر سو بھی رہا ہوتا تو وہ ان پٹاخوں سے جاگ جاتا۔
لیکن حیرت ہے کہ مال گاڑی کے گارڈ اور اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر نے عوام
ایکسپریس کو روکنے کے لیے وارننگ پٹاخے ریلوے ٹریک پر باندھنا کیوں ضروری
نہیں سمجھا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آجکل تمام ریلوے انجنوں میں
وائرلیس کا سسٹم موجود ہے جس کے ذریعے کسی بھی ٹرین کا ڈرائیور ہنگامی صورت
حال میں اپنے نزدیکی اسٹیشن سے رابطہ کرسکتا ہے ۔ ڈرائیور اور فائر مین ٹی
وی پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ وہ دونوں جاگ رہے تھے
اور اوٹر سگنل سرخ نہیں گرین تھا ۔ چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اگر عوام
ایکسپریس کا ڈرائیور سویا ہوا تھا تو مال گاڑی کے ڈرائیور نے عوام ایکسپریس
کے ڈرائیور سے وائر لیس پر رابطہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی ۔ میں
جانتا ہوں کہ عوام ایکسپریس ٗ خیبر میل ٗ تیزگام اور شالیمار جیسی تیز
رفتار گاڑیوں کے لیے تین تین اسٹیشن پہلے اور بعد میں مال گاڑی سمیت ہر قسم
کی پسنجر ٹرینوں کو روک لیا جاتاہے تاکہ ایکسپریس ٹرین کو رکنا نہ پڑے ۔
پھر عوام ایکسپریس کے لیے ایسا کیوں نہیں کیاگیا ۔ اس لاپرواہی میں کنٹرولرٗ
اے ایس ایم اور مال گاڑی کا گارڈ اور ڈرائیور ہی ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں ۔
یہ بھی شنید ہے کہ ڈرائیور ز ٗ فائر مین ٗ کیبن مین ٗ پھاٹک والوں سمیت
کتنے ہی ریلوے ملازمین کو بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنے پر مجبور کیا جارہاہے
۔ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے پھر بطور خاص ڈرائیور حضرات جن کی ہتھیلی
پر ہزاروں مسافروں کی جان ہوتی ہے ان سے مسلسل بارہ گھنٹے ڈیوٹی لینا
حادثات کو خوددعوت دینے والی بات ہے ۔افسران کی فوج اور حادثات کی بڑھتی
ہوئی تعداد محکمہ ریلوے کو کھنڈرات میں تبدیل کررہی ہے ۔اس کا ثبوت ایک اور
حادثہ ہے کہ سرگودھا سے لالہ موسی جانے والی مال گاڑی کی تین بوگیاں پٹڑی
سے اتر گئیں جبکہ ایک بوگی کے پہیئے ٹوٹ کر نہر لوئر جہلم میں جاگر ے اور
انجن تین کلومیٹر تک بغیر پہیوں کے بوگی کوگھسیٹتارہاجس سے ٹریک کو شدید
نقصان پہنچااور بارہ گھنٹے بعد ٹریفک بحال ہوئی ۔ یہ پے درپے حادثات اس بات
کا ثبوت ہیں کہ صرف ڈرائیور ہی نہیں سوتے تمام ذمہ دار افسر ہی خواب خرگوش
کے مزے لوٹ رہے ہیں۔خواجہ سعد رفیق کرایے کم کرکے عوام کا اعتماد ریلوے پر
بحال کررہے ہیں اور افسران کی غفلت کی وجہ سے ہونے والے حادثات عوام کو
ریلوے سے دور کررہے ہیں ۔ |