آج کل کے نام کے مسلمانوں نے مسلم معاشرے
کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔نوجوان نسل میں عدم برداشت اور بدکلامی
بہت حد تک پائی جا رہی ہےِ۔ جسکی وجہ ان کی بنیادی پرورش ہے۔ جب بنیاد ہی
کمزورہو تو بیچارا درخت کیسے پھلدار بنے گا؟ اسی طرح والدین کی لاپرواہی
اور بچوں کے غلط ماحول نے معاشرے میں کہرام برپا کر رکھا ہے اور دن بدن یہ
بڑھتا جا رہا ہے۔
ظاہر جب نہ کسی کا ڈر ہو گا، نہ کسی دین کی پرواہ ہو گی اور نہ ہی کسی کی
قدر کی اہمیت کا علم ہو گا تو نوجوان نسل اپنی من مانی اور غلط رستوں کو ہی
اپناتی ہے۔
رات کو جاب سے فارغ ہو کر اکثر والد محترم کی شاپ پر چلا جاتا تھا۔ وہاں
کچھ پرسنل باتیں کر کے کچھ دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کتیہ
کےدو بچے بڑے لاڈ پیار سے کھیل رہے ہیں۔مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ اسی
کھیل کھیل میں اس کا ایک بھائی موت کے منہ میں چلا جائے گا۔
اچانک اسی گلی کی ایک کار نمودار ہوتی ہے ۔کار میں کچھ آدمی سوار ہیں جو فل
گپ شپ اور ہنسی مذاق میں ہیں۔ اور روڈ پر کچھ خاص دھیان نہ تھا۔ جیسے ہی کا
ر گلی کے کونے سے مڑی تو اگلے وھیل کے سامنے وہی کھیلتا کتیہ کا بچہ آیا۔
مگر شاید اس کا پاوں دب گیا ہو ٹائر کے نیچے۔ مگر جب گاڑی پوری مُڑ گئی تو
پچھلے ٹائر کے نیچے وہ دب گیا۔ اور ایک آخری آواز نکال کر اس ظالم دنیا سے
چھٹکارا پا گیا۔
یہ منظر دیکھ کر مجھے بے پناہ دکھ ہوا کہ کسی بھی جان کی کوئی اہمیت نہیں۔
پھر ابو سے کہا کہ ایک ظالم نے کتنا برا کیا۔ ابو نے بھی کہہ دیا کہ یہ
آوارہ کتے ہیں ۔کوئی بات نہیں۔
مگرمیرے دل میں بہت افسوس تھا۔خیر۔۔۔تھوڑی دیر بعد اس بچے کی ماں بھی آگئی
جو بڑی حسرت اور دکھ بھری نظری سے اسے دیکھنے لگی، ہلانے جلانے لگی۔ کچھ
منٹ اس کے ساتھ لگی رہی پھر ایک سائیڈ پر ہو کر اسے دیکھتی رہی۔
اس کے بعد بھی کچھ بائیک والے اس پر سے گذرے۔مگر نیچے پڑے بچے کا کچھ احساس
تک نہ ہوا۔ نہ کسی کے ماتھے پر جونک رینگی۔
ہمارا دین ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم کسی کی جان لیں۔
ایک مسلمان کا دل بہت نرم اور حساس ہوتا ہے۔ جو ہر جان کیلئے اہمیت رکھتاہے
بھلے وہ چیونٹی ہو یا کُتا۔ |