رونے کا مقام، صحت اور وقت،قربانی ،کھال،دوریاں(سو لفظوں کی پانچ کہانیاں 6-10)

 ٭ رونے کا مقام
ایک بنگلے کے سامنے ضعیف شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا ۔ ہم قریب گئے ،پوچھا:
ـ’’ بڑے میاں ! تم کون ہو، کیوں رو رہے ہو؟‘‘
وہ بولا:’’اے اجنبی! میرا نام شیطان ہے ، سامنے جو مالک مکان ہے ،ہم نے اسے ملاوٹی ،ذخیرہ اندوز اور اسمگلر بنایا،پھر اسے حاجی بنایا۔
جب یہ حج کرکے واپس لوٹا تو اپنے ساتھ دینی ثواب کی بجائے ’’دنیاوی ثواب‘‘ کے ڈھیر اٹھا لایا ،پھر اس نے یہ بنگلہ بنایا ۔
یہ کہہ کر شیطان پھر رونے لگا،دیکھوسامنے لکھا ہے :’’ ھذا من فضل ربی ‘‘ ،کیا یہ’ رونے کا مقام‘ نہیں؟‘‘
٭ صحت اور وقت
’’سنا ہے آپ کے پاس بڑی دولت ہے ؟‘‘،میں نے اپنے دوست اکرم سے پوچھا۔
اس نے بوجھل آنکھوں سے میری طرف دیکھا ۔
’’مقصود بتا رہا تھا کہ آپ کی تین سپورٹس کمپنیاں ہیں۔
مشہور برانڈ کے موبائل کی فرنچائز ہے ۔
امپورٹ ایکسپورٹ اور بنک بیلنس کروڑوں میں ہے ۔
کئی شہروں میں کوٹھیاں ،بنگلے اور پلاٹس ہیں۔
گاڑیوں کے کئی شورومز ،پلازے اور دکانیں ہیں ‘‘، میں مسلسل اور ایک ہی سانس میں کہتا چلا گیا۔
’’جی ہاں! میرے پاس سب کچھ ہے ،پر ’صحت اور وقت ‘نہیں ہے ‘‘، اکرم نے ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے مایوسی سے جواب دیا۔
٭ قربانی
’’پاپا جی ! مجھے پانچ ہزار روپے دینا ‘‘، گڑیا نے ہچکچاتے ہوئے کہا ۔
’’بیٹا اتنے پیسوں کا کیا کرنا ہے ؟‘‘، میں نے پوچھا ۔
’’پاپا وہ نا ہماری ایک کلاس فیلو یتیم اور بہت ہی غریب ہے ، اس کی بڑی بہن کی شادی ہے اور ہماری ساری کلاس ان کی مدد کے لئے پیسے جمع کر رہی ہے ، میں نے بھی انہیں دینے ہیں ‘‘، گڑیا نے کہا۔
’’ بیٹا ! میرے پاس صرف پچاس ہزار روپے ہی ہیں جو میں نے قربانی کا بکرا خریدنے کے لئے رکھے ہیں ‘‘، میں نے کہا ۔
’’ پاپا جی ! یہ ’’ قربانی ‘‘ کیا ہوتی ہے ؟ ‘‘،گڑیا نے معصومیت سے پوچھا۔
٭ کھال
پچھلے ماہ میں ایک مدرسے میں گیا ،ناظم الامور سے ملا اور کہا:
’’ علامہ صاحب! میں نے اپنے بھتیجے کو حافظِ قرآن بنانا ہے ، اسے داخل کر لیں ۔‘‘
’’ہم صرف اپنے مسلک کے بچے داخل کرتے ہیں ‘‘، علامہ صاحب نے جواب دیا۔
جب قربانی کی تو دروازے پر دستک ہوئی،میں نے دروازہ کھولاتو سامنے اسی مدرسے کے ایک مولوی صاحب کھڑے تھے ،
کہنے لگے :’’کھال ہمیں دے دیجئے ۔‘‘
’’لیکن آپ کا مسلک تو اور ہے ‘‘، میں نے کہا۔
’’ آپ کھال ہمیں دے دیں ،بکرے کا کونسا کوئی مسلک ہوتا ہے ‘‘، مولوی صاحب نے پر اصرار لہجے میں کہا۔
٭ دوریاں
’’ موبائل فونز نے فاصلے مٹا دئیے ہیں ،اب دنیا گلوبل ویلج کی مانندہے ،آپ دنیا بھر میں کسی سے بھی بات کرسکتے ہیں ،
اسے دیکھ سکتے ہیں ، دنیا بھر کی خبریں اور مفید معلومات حاصل کر سکتے ہیں ،اور تواور آپ اس سے وقت اور موسم کے بارے
میں بھی جان سکتے ہیں ‘‘،میں نے اپنے دوست اکرم سے کہا ۔
’’ آپ کی بات صحیح ہے مگر اٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے سیلولر فونز پر کال پیکیجز اور انٹر نیٹ کے اندھا دھند استعمال کی بدولت ہم میں
اور اخلاقیات میں ’’ دوریاں ‘‘ بھی تو پیدا ہو رہی ہیں نا ‘‘، اکرم بولا۔
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 50 Articles with 89381 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.