انسانی خوراک کے اصل لوازمات چاول چینی
دالیں مرچ مصالحہ جات گندم چنے باجرہ مکئی و غیرہ سبھی تواصولاً محکمہ
خوراک کے تحت آتے ہیں اور کبھی چینی چاول دالیں وغیرہ کی محکمہ فوڈ ڈیلنگ
کرتا تھا اب فوڈ والے صرف سالانہ گندم خریدتے ہیں اس میں بازار کی عام قیمت
فروخت سے تقریباً سو روپے کے قریب مہنگی حکومت خریدتی ہے اور اسے ہی کسانوں
کو سبسڈی کا نام دے کرمطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتی ہے ۔پہلے چینی کنٹرول
ریٹ پر فو ڈ ڈپوؤں سے بذریعہ پرمٹ ملا کرتی تھی حکومتی بیورو کریٹ منتخب
ممبران اسمبلی کی سفارشوں پر چینی کا ڈپو الاٹ کردیتے تھے۔یہی سمجھیں کہ
ڈپو ہولڈر ہی علاقے کا چوہدری بن جاتا تھا۔اسطرح وہ کونسلر تو منتخب ہو ہی
جاتا تھا اول تو منتخب کونسلر کو ہی یہ ڈپو الاٹ کیا جاتا تھاتاکہ وہ ووٹ
بھی سرکاری کھاتے میں ڈالتا رہے گا اور زیر بار بھی رہے گاغرضیکہ یہ
ساراکام سرکاری رشوت ہی کہلاتا تھا ایوب خان نے دھاندلی زدہ جعلی صدارتی
انتخاب ایسے ہی سرکاری ڈپو ہولڈر بی ڈی ممبروں کی وساطت سے خصوصاً مغربی
پاکستان میں جیتا تھاآجکل سرکار گندم محکمہ خوراک کے مختلف ملازمین کے
ذریعے خرید کر گندم کے گوداموں میں سٹاک کرتی ہے جو کہ بیشتر کھلی جگہوں پر
موجود ہیں۔یہ سنٹرز عام غریب کسان کی پہنچ سے ہی باہر ہوتے ہیں کہ جس کی
گندم یہاں خریدلی گئی اسے اصل سے اڑھائی سو روپے فی بوری مزید منافع مل
جائے گا۔اول تو یہ سنٹرزحکومت جان بوجھ کرلیٹ سٹارٹ کرتی ہے اس وقت تک کہ
جب حکومتی مراکز خریداری شروع کرتے ہیں غریب کسان لٹ چکا ہو تا ہے وہ اونے
پونے داموں گندم فروخت کرچکا ہوتا ہے کہ اس کی مجبوری ہے کہ اس نے آڑھتیوں
کا قرضہ بھی چکانا ہوتا ہے اوراگلی فصل بونے کے لیے کھاد بیج ادویات وغیرہ
کی فوری ضرورت ہوتی ہے گندم علیحدہ کرنے والے تھریشر کی بھی رقوم ادا کرنی
ہوتی ہیں غریب کسان گندم گھر میں چند روز بھی سٹاک نہیں رکھ سکتا۔ سرکاری
سنٹرز پر علاقائی برسراقتدار ٹولہ کی ہی من مانیاں چلتی ہیں وہ جس کی گندم
چاہیں گے وہی خرید کر گودام میں جمع ہو گی اسطرح سے ان چند دنوں میں سرکاری
ممبران اسمبلی کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔سرکاری خریداری میں دوسرا رول
سرمایہ داروں اور درمیانی ٹھیکیداروں کا ہے کہ وہ غریب کسانوں سے کم قیمت
پر گندم خرید کر آگے گوداموں کو مہیا کرکے کروڑوں روپے کا سیزن لگاتے ہیں ۔ممبران
اسمبلی صرف چٹ دے کر متعلقہ افسران کو اسی شخص کی گندم خریدنے کا پابند
کرکے ڈھیروں منافع کماتے ہیں اور کچھ گندم"ھذا من فضل ربی"کے محاورہ کے تحت
حکومتی مراکز خرید لیتے ہیں ۔ جب سے محکمہ فوڈ نے شوگر کواپنے کھاتوں سے
نکال دیا ہے شوگر مافیاانتہا ئی مضبوط ہو چکا ہے کہ وہ گنا سرکاری مقرر
کردہ قیمت سے بھی کم پر خریدیں گے انھیں کئی سال تک اس کا معاوضہ بھی نہیں
دیں گے اور چینی سٹاک کرکے سارا سال ملیں عوام کو کئی بار جھٹکے لگاتی ہیں
چینی ملے گی ہی نہیں کبھی یوٹیلٹی سٹور کے چکر لگانا پڑیں گے کبھی بازار
میں بیس پچیس روپے مہنگی ملے گی ۔غرضیکہ سارے مافیاز نے عوام کو لوٹنے کے
محیر العقول طریقے اختیار کر رکھے ہیں حکومت کے پروردہ نودولتیے سود خور
سرمایہ داروں اور چینی کے مل مالکوں نے عوام کی چیخیں نکلوا رکھی ہیں کبھی
یہاں سے چینی باہر برآمد ہو جائے گی پھر درآمد ہو کر ہمیں مہنگی بیچیں
گے۔غرضیکہ ہر پروگرام غریبوں کی ہی کھال کھینچنے پر منتج ہو تا ہے دالیں
اور چاول تو کسان مجبوراًدیگرفصلات کی طرح فوراً بیچ ڈالتا ہے آڑھتی صاحبان
مفت میں دلالیاں کماتے ہیں اور مارکیٹ میں ریٹ بڑھتے چلے جاتے ہیں کسانوں
کا محنت کش طبقہ انتہائی محرمیوں کا شکار رہتا ہے اسے تو صرف اناج پیداکرنا
ہے اور وہ سبھی اجناس جو انسانی ضروریات کے لیے اہم ہیں اور زمین سے اگتی
ہیں وہ معاشرے کو مہیا کرتا رہتا ہے مگر خود سخت دھوپ میں سر سے پاؤں کے
ناخن تک پسینہ میں شرابور اور ٹھٹرتی سردیوں کی راتوں میں بھی محنت کرکے
سارا سال تنگدستی میں گزارتا ہے اگر یہ سارے خوراک کے ایٹموں کی خریداری
صرف اورصرف محکمہ خوراک سرکاری نگرانی میں کرنے کا پابند کرڈالا جائے تو
کسانوں کو اچھا ریٹ مل سکے گا حکومت جو ریٹ نکالے گی اس پر سارا سٹاک
خریدنے کی پابند بھی ہو گی تو یقینا کسانوں کی اشک شوئی ہو سکے گی مگر
عملاًاس محکمہ کے ملازمین چند ہفتے غلے کی خرید کے بعد فارغ رہ کر مکھیاں
ہی مارتے رہتے ہیں سارا سال گند م کی کیارکھوالی کریں گے جبکہ وہ پہلے ہی
محفوظ جدید ترین طریقوں سے سٹاک کر لی گئی ہوتی ہے۔اسکے خراب ہونے کا امکان
انتہائی کم ہوتا ہے صرف بارشوں کے موسم میں مزید حفاظتی اقدامات کرنے ہوتے
ہیں ان حالات میں ایسے محکمہ کا کیا فائدہ باقی رہ جاتا ہے گند م کو بھی
پرائیویٹ سیکٹر میں جانے دیں اور اس محکمہ کو حکومت خدا حافظ کہہ دے ۔انگریز
کے دور کی بنائی گئی بلڈنگیں اور گودام پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ان کو
بھی خدا کے حوالے کریں کہ لاکھوں ملازمین خوامخواہ خزانہ پر بوجھ بنے بیٹھے
ہیں ویسے اس محکمہ میں "کماؤ پتر " والی سیٹ صرف ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کی ہی
ہے جو کہ گندم کے سنہری خوشوں سے حاصل شدہ آدمؑ کی پسندید ہ خوراک کے سٹاک
کا واحد مالک ہوتا ہے اور اوپر والوں تک کو "رزق روزی" حصہ بقدر جسہ
پہنچاتا رہتا ہے ۔گندم کے سنہری خوشوں کی نسبت سے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرول سونے
کے پانی سے نہاتا ہے اگر صحیح راز اگل ڈالوں تو ملک بھر کے انتظامی افسران
و مشیر وزیر سبھی اس سیٹ پر تعیناتی کی شدید خواہشیں کریں گے خواہ اس میں
انھیں کتنا ہی سر پھٹول ہونا پڑے اور مال متال بھی لگا نا پڑے۔ محکمہ اگر
ختم کرڈالا گیا تو جہاں دوسری اشیائے خوردنی مقابلے میں بکتی ہیں وہیں گندم
بھی سہی کم ازکم صاف ستھراا ٓٹا عوام کے پیٹوں میں جاسکے گا کوئی ملاوٹ کر
نہیں سکے گا۔اگر پھر بھی محکمہ کو برقرار رکھنا مقصود ہے تو چینی چاول
دالیں چنا وغیرہ کا بھی کنٹرول اسی کو لازماً دے دیں تاکہ نہ ذخیرہ اندزوی
ہوسکے اور نہ ملاوٹ کا غلیظ کاروبار چل سکے اسطرح شوگر ملوں والے جو اربوں
روپے منافع کے بہانے لوٹ رہے ہیں ان کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔اگر یونہی
سلسلہ چلتا رہا تو محکمہ انسداد رشوت ستانی کے دفتر کی طرح اس محکمہ کا بھی
لو گ دفتر پو چھتے پھرتے رہا کریں گے کہ کہاں ہے ؟ |