انا کرے فنا

دور جہالت میں لوگ بیٹی سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ زندہ دفن کر دیا کرتے تھے ‘ اور آج کل جدید دور میں لوگ بہت پڑھ لکھ گئے ہیں بہت ترقی کر گئے ہیں‘ لیکن بیٹی کی ذلت وہیں کی وہیں کھڑی ہے بس طریقہ بدل گیا ہے۔ آج کے دور میں بیٹی کو پیدا ہوتے زندہ دفن نہیں کیا جاتا بلکہ بیٹی کو لاڈ پیار سے بڑا کیا جاتا ہے ہر خواہش پوری کی جاتی ہے اور جب شادی ہوتی ہے تو ماں باپ بیٹی کو اپنی اوقات سے بڑھ کر جہیز بھی دیتے ہیں لیکن افسوس کہ بیٹی کی تربیت صحیح نہیں کرتے ‘ وقت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا بیٹی ہمیشہ پرائی ہوتی ہے پتہ نہیں کیوں ماں باپ بھول جاتے ہیں کہ بیٹی کو ہر حالا ت کا مقابلہ کرنا سکھائیں سسرال میں جا کر کیا کیا مسئلے درپیش آئیں گے بیٹی کو سمجھاتے نہیں ‘ آج کل کے اکثر ماں باپ اپنی بیٹی کو کہتے ہیں بیٹی سسرال والوں کی ایک نہیں سننی‘ تم ہماری لاڈلی بیٹی ہوہم نے بہت پیار سے تمہیں پالا ہے لوگوں کے لئے نہیں پالا ، سسرال میں گزارا نہ ہو تو واپس آجانا اپنے شوہر ، ساس، سسر ، نند کی ایک نہ سننا ہمیں فوراً کال کر لینا ہم آ کر تمہیں لے جائیں گے تم ہم پر بوجھ نہیں ہو۔ یہ خود وہ ہی ماں ہے جو سسرال والوں کی سر توڑ خدمت کر کے ٹائم گزارتی ہے آگے بیٹی کو کیا سیکھا رہی ہے۔ میں پھر واضح کر دوں کہ سب والدین کی بات نہیں کر رہا ‘اکثر والدین یہ ہی تربیت کر رہے ہیں۔جوماں باپ اس قسم کارویہ رکھتے ہیں وہ ضرورغورکریں ،آیا وہ اپنی بیٹیوں کے نادان دوست تونہیں ۔اناکاراستہ فناکاراستہ ہے،انسان کو اناسے فناتک کاسفر طے کرنے میں کچھ پل لگتے ہیں۔

والدین اپنی بیٹی سے محبت تو کرتے ہیں لیکن جہاں ایسی تربیت ہو گی وہاں بیٹی اپنے سسرال میں کیسے ایڈجسٹ کر سکے گی جس بیٹی کو اُس کے ماں باپ نے شہ دے رکھی ہو کہ تم نے زیادہ کام نہیں کرنے ، کوئی کچھ کہے تو چلی آنا ہم تمہارے والدین ہیں ہم تمہیں بہت پیار کرتے ہیں تم ہمارے اوپر بوجھ نہیں ہو۔ خیر یہ تو تھی ماں باپ کی غلط تربیت جو وہ بیٹی کی کرتے ہیں جس کی وجہ سے آج کل عدالتیں بھری پڑی ہیں طلاق کے کیسوں سے اور مدرسوں میں لائن لگی ہوئی ہے طلاق کے فتویٰ لینے والوں کی۔یہاں میں اپنی مثال دیتا ہوں اگر مجھے میرے والدین کہیں کہ بیٹا تم کچھ نہ کرو نہ کماؤ ہم آپ کی ہر ضرورت پوری کریں گے تو میں تو کبھی بھی نوکری نہ کروں جب مفت میں سب ضرورت پوری ہو گی تو مجھے کیا ضرورت ہے نوکریوں کی ٹینشن لینے کی اسی طرح اس بیٹی کو سسرال میں رہنے کی کیا ضرورت ہے۔بیٹی کو طلاق دلوانے میں سب سے بڑا کردار اس کی ماں کا ہوتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں ماں اچھی ہے تو بیٹی کیسی بھی ہو بیٹی کا گھر ماں چلوا لے گی۔ لیکن خدا را آج کل کی ماؤں کو کیا ہو گیا ہے۔ خیر جب بیٹی کو طلاق ہو جاتی ہے تو ماں باپ صدا تو رہتے نہیں سر پر پھر بھائی ہوتے ہیں اُن کے سر پر بوجھ بن جاتی ہیں طلاق یافتہ عورتیں ، بھابیاں برداشت نہیں کرتی کہ اُن کی طلاق یافتہ نند پر ہمارا شوہر خرچ کرے یہ سب آخر اُس طلاق یافتہ عورت کی اپنی اور والدین کی غلطیوں سے زندگی‘ زندگی نہیں رہتی زندہ لاش بنا دیتے ہیں والدین اپنی لاڈلی بیٹی کو‘ ذرا نہیں سوچتے اپنی بیٹی کا مستقبل۔اﷲ نے ہر عورت اور مرد میں خواہش رکھی ہے مرد تو 4 شادیاں بھی کر سکتے ہیں لیکن طلاق یافتہ عورت سے شادی کون کرتا ہے؟ وہ عورت کیسے خواہش پوری کرے گی اپنی؟ اﷲ نے خواہش رکھی ہے ہر انسان میں فرشتوں میں نفس کی خواہش نہیں رکھی انسان تو انسان ہے پھر وہ ہی ماں باپ کی لاڈلی بیٹی (طلاق یافتہ) گلی محلے کے لڑکوں سے اپنی خواہش پوری کرتی ہیں اور جب والدین خود تو مر جاتے ہیں بیٹی کا گھر خراب کر کے بھائی بھابیاں خرچہ نہیں دیتیں تو یہ ہی خواہش اس طلاق یافتہ عورت کی کمائی کا ذریعہ بن جاتا ہے جس سے برائی کے اڈے آباد ہوتے ہیں۔

پرانے وقتوں میں بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کہا جاتا تھا بیٹی یہاں سے ڈولی جا رہی ہے وہاں سے جنازہ ہی اُٹھنا چاہئے ‘تمہیں ہر حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور اُس وقت عورتیں ہر حالات کا مقابلہ کرتی بھی تھیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ 95% فیصد عدالتوں میں طلاق و خلع کے کیسوں میں کوئی وجہ نہیں ہے وجہ بنائی گئی ہیں طلاق کی۔ برداشت ختم ہو چکا ہے آج کل کی لڑکیوں لڑکوں میں، مہنگائی کا دور ہے بیروزگاری ہے آج پیسہ کمانا کتنا مشکل ہے آج کل کی عورتوں کو کیا پتہ پیسہ کیسے کمایا جاتا ہے شوہر کبھی ٹینشن میں گھر آکر کچھ کہہ ہی دے گا بیوی کو تو بیوی کو ’’سلف ریسپکٹ‘‘ کا خیال آجاتا ہے کہ میری تو یہاں کوئی عزت نہیں ہے میں امی کو کال کرتی ہوں آکر لے جائیں آگے سے امی بھی ویسی فوراً آجاتی ہیں لینے چل بیٹی تم لاوارث نہیں ہم تیرے شوہر کو دیکھ لیں گے۔ بیٹی اور شیر ہو جاتی ہے شوہر کو اپنے ماں باپ کے سامنے ہی کہنے لگتی ہے میں لاوارث نہیں تمہاری روٹی کی بھوکی نہیں میں، میرے ماں باپ نے مجھے پال پوس کر بڑا کیا ہے آج بھی رکھ سکتے ہیں وہ مجھے اپنے گھر آگے ماں باپ بھی ویسے پڑھے لکھے جاہل ۔بہت سی طلاقوں کے پیچھے لڑکی کے گھر والوں کی عجلت اور بے صبری کا ہاتھ ہوتا ہے، اجنبی اور نامانوس ماحول میں جانے والی لڑکی ابتدا میں تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے بے خوابی، اجنبی لوگوں میں گھرے رہنے اور مرغن غذاؤں سے اس کے اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے جو جلد تناؤ میں بدل جاتا ہے اس دوران کوئی ناخوشگوار بات ہو جائے تو وہ دل پہ لے لیتی ہے بڑھا چڑھا کر ماں بہنوں سے بیان کرتی ہے خود کو مظلوم سمجھتی ہے اور میکے والوں سے ہمدردی اور توجہ سمیٹنے کے لئے چھوٹی باتوں کو بڑھا کر پیش کرتی ہے یہیں سے خرابی کا آغاز ہوتا ہے ماں بہنیں اور دیگر سرگرم خواتین رشتہ دار اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تاکید کرتے ہیں یا خود بات کرنے پہنچ جاتے ہیں یا لڑکی کو بلا کر بٹھا لیتے ہیں۔ یہ دراصل ہمدردی کے پردے میں لڑکی سے دشمنی ہوتی ہے۔ نئی شادی شدہ لڑکی کو سختی سے تاکید کر دی جائے کہ سسرال کی کوئی ناگوار بات میکے میں نہیں کرنی۔ اگر وہ کرے تو اسے ٹوک دیا جائے اور کسی قسم کی ’’مدد‘‘ سے انکار کر دیا جائے تو لڑکی سسرال میں ایڈجسٹ کرنے کی زیادہ کوشش کرتی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جن گھروں میں عورتوں کی حکوم تہے وہاں طلاق کی شرح زیادہ ہے جہاں مردوں کا کنٹرول ہے وہاں طلاق کی شرح کم ہے۔

اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ لڑکیوں میں تحمل او ربرداشت کی کمی ہے۔ والدین کی اور خصوصاً ماؤں کی جانب سے دی گئی تربیت ناقص ہے۔ لڑکی کو ذہنی طور پر نئی ذمہ داریوں اور ایثار کیلئے تیار نہیں کیا جاتا۔ وہ ہر معاملے میں خود کو حق بجانب سمجھتی ہے اور میکے والے اس کی بیجا حمایت کرتے ہیں بعض حالات میں صرف اس لئے طلاقیں ہو گئیں کہ لڑکی اپنے شوہر کے ہمراہ لگ گھر میں رہنا چاہتی تھی جبکہ لڑکا اور اس کے گھر والے تیار نہ تھے یا ان کے پاس وسائل نہ تھے۔ یا اس کی ضرورت نہیں تھی عجلت، غلط سوچ، عاقبت نااندیشانہ مشورے اور میکے کی غیر ضروری پشت پناہی اور مداخلت بھی طلاق کا سبب بنتی ہے۔اَن پڑھ جاہلوں میں طلاقوں کا رجحان نسبتاً کم ہوتا ہے جو لڑکے پڑھے لکھے ہوتے ہیں ان میں بھی یہ شرح بہت زیادہ نہیں، اسی طرح جو لڑکیاں کم پڑھی لکھی اور بھولی بھالی ہوتی ہیں ان کے ہاں بھی طلاق یا خلع کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ایک کم پڑھی لکھی لڑکی آخری حد تک سمجھوتا کرتی ہے وہ یہ سمجھتی ہے کہ میرا پہلا گھر والدین کا تھا اب یہ میرا دوسرا اور آخری ٹھکانا ہے میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں وہ کشتیاں جلا کر آتی ہے لہٰذا وہ ہر ایسے اقدام سے دور رہتی ہے جو ناچاقی یا طلاق کا سبب بن جائے اس کے مقابلے میں جو لڑکیاں تیز طرار، ہوشیار، مغربی طرزِ معاشرت میں ڈھلی ہوئیں اور زیادہ پڑھی لکھی ہوتی ہیں وہ عموماً کشتیاں جلا کر نہیں آتیں وہ کہتی ہیں کہ میں دیکھوں گی اگر یہ صاحب سمجھ نہ آئے تو میرے اور آپشن بھی ہیں۔ میں خود کما کر زندگی گزار سکتی ہوں والدین کے گھر رہ کر اپنی گزر اوقات کر سکتی ہوں۔ ماں باپ سے میری التجا ہے کہ جس قرآن کے سائے میں بیٹیوں کو رخصت کیا جاتا ہے اُس قرآن کی تعلیم بھی سکھائیں اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو اپنے بچوں کی تربیت بہتر کریں اتنی خوشیوں سے شادیاں کی جاتی ہیں ایک سال میں طلاق ہو جاتی ہے؟ دور جہالت ہی ٹھیک نہ تھا؟ بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ آج کل کی طرح زندہ لاش یا جسموں کے خریداروں کے لئے تو نہیں چھوڑا جاتا تھا مر جاتی تھی سب کچھ اپنے ساتھ لے کر۔ ذرا سوچئے گا ضرور ‘دوسرا موقع کہانیاں دیتی ہیں زندگی نہیں۔
Kiran Waqar
About the Author: Kiran Waqar Read More Articles by Kiran Waqar: 6 Articles with 4229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.