علمِ تصوف وہ نکھار اورپیار کانام ہے کہ
جومخلوق اور خالق کے رشتہ عبودیت کومضبوط اور مستحکم کرتاہے ۔فقیہ الامت
حضرت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاں تصوف وہ نکھراہواطریقہ ہے
جس میں مکمل طور پرشریعت کے اصولوں کی پابندی ہے ،ولی کامل حضرت والدمحترم
سردارمحمداسماعیل الشاشی(چیچی) رحمۃا ﷲ علیہ نے توایک ایساجامع جملہ بیان
کردیاکہ سوکتابوں کونچوڑکررکھ دیا۔حضرت رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے رب کے عشق
میں ڈوب جانے کانام تصوف ہے مگر راستہ وہی اختیار کرناہے جوسنت مطہرہ سے
ثابت ہے اورمشائخ عظام سے منقول ہے ہھر عبادت میں لطف وسرورآئے گاپھر دوکام
بندے سے خودبخودجاری ہوجائیں گے ’’زبان سے شریعت کااظہاراورعمل سے طریقت
کااظہار‘‘شریعت اور طریقت ایک ہی چیز کے نام ہیں وہ ہے قرآن وسنت
کودستورِحیات بناکر زندگی بسر کرنا۔پنجابی ،ہندکواورگوجری زبان میں کہاکرتے
ہیں ’’ہاتھ کاروَل ،دِ ل یاروَل‘‘
دل میں اﷲ ہی اﷲ ہواورہاتھ سے رزقِ حلال میں مصروفِ عمل ہو۔تزکیہ نفس قرآنی
اصول کے پیش نظر ہر شخص سے مطلوب ہے ۔
عارف ہندی اکبرالہ آبادی مرحوم نے بہت خوب کہا ہے۔
قرآن رہے پیش نظر ، یہ ہے شریعت
اﷲ رہے پیش نظر ، یہ ہے طریقت
چنانچہ شیخ جنید بغدادیؒ کا بڑے واضح الفاظ میں اعلان ہے کہ’’ایں راہ کسے
یابد کہ کتاب بردست راست گرفتہ باشد وسنت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم بردست چپ
و در روشنائی ایں دوشمع می رود تانہ در مغاک شبہت افتد نہ درظلمت بدعت‘‘
اس راہ کو وہی پاسکتا ہے جو کتاب اﷲ کو داہنے ہاتھ میں اور سنت رسول کو
بائیں ہاتھ میں لیے ہواور ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راہِ سلوک طے کرے
تاکہ گمراہی اور بدعت کی تاریکی میں نہ گرے۔
تصوف کی تعریف
یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ سے نفس کے تزکیہ ،اخلاق کی صفائی اور باطن وظاہر
کی تعمیر (کے اسباب وطرائق) کی معرفت حاصل ہوتی ہے تاکہ ہمیشہ کی سعادت
حاصل ہو۔نیز اس سے نفس کی اصلاح ،معرفت ورضائے خداوندی کاحصول ہوتاہے -
اس تعریف سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ تصوف ایک مقدس علم ہے جوسالک کووصول الی اﷲ
جیسی عظیم نعمت سے نوازتاہے ۔اس علم کے بنیادی اصول توقرآن وسنت سے مستنبط
ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں غیر اسلامی اور غیر شرعی نظریات کی آمیزش
ہوتی چلی گئی ۔
حضرت سہل بن عبداﷲ تستری جو متقدمین صوفیا میں امتیازی مقام و مرتبہ کے
حامل تھے فرماتے ہیں کہ ہمارے سات اصول ہیں کتاب اﷲ پر مکمل عمل، سنت رسول
کی پیروی، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دینا، گناہوں سے بچنا، توبہ
واستغفار، اور حقوق کی ادائیگی۔یاد رکھیے کہ اﷲ والوں کی مجالس میں یہی کچھ
سیکھنے کوملتاہے وہ ان ہی باتوں کادرس دیتے ہیں -
اﷲ اﷲ والے جوہم سے قریب ہی ہندوستان میں آرام فرماہیں اﷲ پاک ان کے فیضان
کوہمیشہ جاری وساری رکھے میری مرادسلطان الہند شیخ معین الدین اجمیری ہیں
ان کاایک یہ مقولہ تاریخِ اجمیر میں درج ہے۔’’اے لوگو! تم میں سے جو رسول ﷺ
کی سنت ترک کرے گا وہ شفاعت رسولﷺسے محروم رہے گا۔
صوفیاء کرام بھی نبی پاک ﷺبتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں
مشائخ کی محافل یہی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اولیاء اﷲ وصوفیاء کرام کی محافل
اس دور میں ابر رحمت ہیں -
اسی تصوف کی حقیقت کے سلسلہ میں محترم حبیب الرحمن اعظمی صاحب نے ایک
پیارامضمون لکھاجودارلعلوم دیوبند کے شمارہ نمبر2جلد91میں 2013ء میں شائع
ہوامختصراًقارئین کی خدمت میں پیش کیاجاتاہے وہ فرماتے ہیں کہ تصوف دراصل
وہ رہنما ہے جو سالک کو ہر آن باخبر رکھتا ہے کہ دیکھنا کہیں مقصود نگاہ سے
اوجھل نہ ہوجائے وہ ہدایت کرتا ہے کہ جب تو بارگاہِ خداوندی میں نماز کے
لیے کھڑا ہو اور یہ دیکھے کہ قبلہ رو ہے یا نہیں، جائے نماز اورکپڑے پاک
ہیں یا نہیں، تو اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھ کہ تیرا تصور پاک ہے یا نہیں، دل
مالک کائنات کی طرف ہے یا نہیں، غرض تصوف ہر ہر قدم پر سالک کو خبردار
رکھتا ہے کہ مقصود اصلی خدائے ذوالجلال والاکرام کے خیال سے دل غافل نہ
ہونے پائے، ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل کے تلامذہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ
بشر حافی کے پاس کیوں جاتے ہیں وہ تو عالم ومحدث نہیں ہیں؟ توامام صاحب نے
فرمایا کہ میں کتاب اﷲ سے واقف ہوں مگر بشر اﷲ سے واقف ہیں۔
اس حقیقت کویوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ فقیہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ، اے بندے
اﷲ کا نام لے، اور صوفی بھی یہی کہتا ہے کہ اﷲ کا نام لے مگر اس طرح کہ وہ
تیرے دل میں اتر جائے، یعنی صوفی کا کہنا یہ ہے کہ صرف زبان سے اﷲ کا نام
لینا کافی نہیں ہے، زبان کے ساتھ تیرا دل بھی ذاکر ہونا چاہیے، حاصل کلام
یہ نکلا کہ تصوف یا احسان دل کی نگہبانی کا اصطلاحی نام ہے، حدیث جبرئیل
میں ان تعبد اﷲ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک کا جملہ اسی دل کی
نگہبانی کی انتہائی بلیغ اور پیغمبرانہ تعبیر ہے،امام الانبیاء وسید
الانبیا ﷺ نے اس مختصر جملے سے احسان یا تصوف کی پوری حقیقت بیان فرمادی ہے
کیوں کہ راہِ تصوف کے تمام جہد و عمل، ذکر وفکر، محاسبہ و مراقبہ وغیرہ کا
منشا و مقصد یہی ہے کہ دل مشاہدہ و حضور کی متاعِ عزیز سے ہم کنار ہوجائے۔
تصوف کی مستند کتابوں مثلا قوت القلوب از شیخ ابوطالب مکی، طبقات الصوفیہ
از شیخ عبدالرحمن سلمی، حلی الاولیا از ابو نعیم اصفہانی، الرسال القشیری
از امام قشیری کشف المحجوب ازشیخ علی بن عثمان ہجویری مدفون لاہور، تذکر
الاولیا از شیخ فرید الدین عطار، عوارف المعارف از شیخ سہروردی، فوائد
الفواد ملفوظات شیخ نظام الدین اولیا، خیرالمجالس ملفوظات شیخ نصیرالدین
چراغ دہلوی وغیرہ کے صفحے کے صفحے الٹ جائیے صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عملا
بھی کتاب و سنت کی تلقین ملے گی،اور معتمد طور پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ
اکابر صوفیا کے مجاہدات، ریاضات اور مراقبات کی اساس و بنیاد قرآن وحدیث کی
تعلیمات ہی ہیں، اور ان کی پاکیزہ زندگیاں اسلام کی جیتی جاگتی تصویریں
تھیں۔
اسلامی تعلیمات میں محبت الہی، مکارم اخلاق اور خدمت خلق کو بنیادی حیثیت
دی گئی ہے، تصوف کی تعلیمات بھی انھیں ارکانِ ثلثہ پر مبنی ہیں، تاریخی
شواہد کی بنیادپر بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حضرات صوفیا ہی نے
اپنی عملی جدوجہد کے ذریعہ ہر زمانے میں اسلام کے اخلاقی و روحانی نظام کو
زندہ رکھا، صوفیا سے بڑھ کر تبلیغ اور تعمیرِ سیرت کا فریضہ کسی جماعت نے
انجام نہیں دیا، متکلمین، معتزلہ اور حکما نے صرف دماغ کی آبیاری کی جب کہ
صوفیا نے دماغ کے ساتھ دل کی تربیت اوراصلاح کی اہم ترین خدمت بھی انجام دی
اوریہ بات کسی بیان و تشریح کی محتاج نہیں ہے کہ اسلام میں اصلی چیز دل ہے
نہ کہ دماغ اگر دل فاسد ہوجائے تو دماغ کا فاسد ہوجانا یقینی ہے، چنانچہ
نبی صادق و مصدوقﷺ کا ارشاد ہے: کہ انسان کے جسم میں ایک عضو ہے اگر وہ
صالح ہوجائے تو سارا جسم صالح ہوجائے اوراگر وہ فاسد ہوجائے تو سارا جسم
فاسد ہوجائے، آگاہ ہوجا وہ قلب ہے۔
حضرات علمائے کرام نے علمی و نظری دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا جب
کہ حضرات صوفیا نے اپنے اعمال و اخلاق اور سیرت و کردار سے اسلام کی صداقت
کو مبرہن اور آشکارا کیا، اس لیے تصوف یا طریقت شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں
ہے بلکہ صحیح معنوں میں تصوف اسلام کا عطر اور اس کی روح ہے، لیکن کوئی
انسانی تحریک خواہ وہ کتنی اچھی کیوں نہ ہو جب افراط و تفریط عمل و رد عمل
کا بازیچہ بنتی ہے تواس کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہتی، چنانچہ متکلمین نے
اسلام کو یونانی فلسفہ کی زد سے بچانے میں بڑی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہیں،
لیکن آگے چل کر جب علم کلام کو شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ذریعہ بنالیا گیا
تو یہی علم کلام مسلمانوں میں ذہنی انتشار برپا کرنے کا سبب بن گیا، یہی
حال تصوف کا بھی ہوا کہ تصوف کی ہمہ گیر مقبولیت اور ہر دلعزیزی دیکھ کر
جاہل یا نقلی ارباب غرض صوفیوں کے بھیس میں اس جماعت صوفیہ صافیہ میں درآئے
اور اپنی مقصد برآری کے لیے شریعت و طریقت میں تفریق کا نظریہ شائع کردیا،
مجاز پرستی، قبرپرستی، نغمہ و سرور کو روحانی ترقی کا لازمی جزو بنادیا اور
دنیاپرستی سے گریز کو رہبانیت کی شکل دیدی مگر ہمیں اس حقیقت کو فراموش
نہیں کرنا چاہیے کہ محققین صوفیا نے ہمیشہ ان گمراہیوں کے خلاف آواز بلند
کی ہے، اور ان فاسد عناصر کو تصوف سے خارج کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔
اس جعلی اور غیر اسلامی تصوف کی بنا پر سرے ہی سے تصوف کا انکار کردیا جائے
اوراسے نوع انسانی کے لیے بمنزلہ افیون بتایاجائے اورالزام عائد کیا جائے
کہ تصوف زندگی کے حقائق سے گریز کی تعلیم دیتا ہے اوراس نے مسلمانوں کے
قوائے عمل کو مضمحل یا مردہ بنادیا ہے تو یہ سراسر ناانصافی اور اسلامی
تصوف پر ظلم ہوگا۔
بدقسمتی سے خود مسلمانوں کا ایک طبقہ جو براہ راست اسلام اوراسلامی مآثر کا
مطالعہ کرنے کی بجائے مستشرقین اور عیسائی مصنفین کے واسطہ اورانہیں کی
مستعار عینک سے اسلامی علوم و معارف کو دیکھنے کا عادی ہے، اسلامی تصوف پر
اسی قسم کے بیجا اور غلط اعتراضات کرتا رہتا ہے، یہ بات حق و صداقت
اورانصاف و عدالت سے کس قدر بعید ہے کہ ہدفِ ملامت تو بنایا جائے اسلامی
تصوف کو اور قبائح مدنظر رکھی جائیں غیراسلامی تصوف کی، اسلام کے ان نادان
دوستوں نے اپنے اس رویہ سے نہ صرف علم و تحقیق کا خون کیا بلکہ لاکھوں
بندگانِ خدا کو تصوف کی حسنات و برکات سے محروم کردیا۔
قارئین کرام کوچاہیے کہ اس مضمون کوپڑھ کرسن کراور دیکھ کر صوفیاء کرام کے
دامن کوتھام لیں اور اﷲ اﷲ کی ضربیں لگاتے جائیں اسی سلسلہ میں ہم نے ایک
کتاب کافی عرصہ پہلے تصنیف کی جس کانام ہی جمال اؤلیاء اﷲ تھاجس میں اولیاء
اﷲ کی سوصفات بیان کیں آپ کے ہاتھ اگر وہ کتاب لگ جائے تواس کاضرورمطالعہ
کیجیے اور زندگی میں نکھاراور پیارپیداکیجیے ،اﷲ پاک ہمیں اہل اﷲ کی صحبت
نصیب فرمائے اور مرنے کے بعد اہل اﷲ کے ساتھ جگہ عطا فرمائے(آمین) |