اعزاز؟

سڑک کےکنارے پر لگےبوہڑکےدرخت کے نیچے،ٹوکری میں پونیاں کلپ اور چھوٹے چھوٹے جیولری کےپیکٹ رکھے وہ اپنی دائیں طرف لگےگیٹ پرزنگ آلود تالے کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔ پریشےکے لیے یہ انہونی نہیں تھی ۔کیونکہ اسے علم تھا کہ خوشیوں کا تعلق کوڑاکرکٹ پر بیٹھنے یا محلات میں رہنے سے نہیں ہے ۔۔مگر اسے یہ بات عجیب لگی کہ مٹیالےسےکپڑوں میں ملبوس یہ خوش شکل سی بچی جسکی عمر بمشکل دس یاگیارہ برس ہو گی وہ زنگ آلود تالے کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔پریشےنےصحافت کےمیدان میں جب سے قدم رکھا تھا ۔۔۔ ایسے کئی واقعات رونما ہوتے دیکھے تھے مگر یہ واقعہ ان سب سے الگ تھلگ تھا۔

پریشے نے اس خوش شکل سی بچی سے مسکرانے کا سبب پوچھا تو وہ بچی جس نے اپنا نام لائبہ بتایا تھا گویا ہوئی کہ یہ جو زنگ آلود تالے سے مقفل عمارت ہے یہ ایک اسکول ہے ۔اگر آپ اسکی داہنی طرف ہو کے دیکھیں تو اسکول کا بورڈ آپکو نظر آئے گا ۔۔پریشے نے گھوم کر دیکھا تو بورڈ اپنی زبوں حالی کا رونا رو رہا تھا۔اسکی تحریر مدھم ہو چکی تھی ۔۔اس نے غور سے دیکھا تو لکھا تھا شہید کارگل حولدار اعجازہائی سکول بھگتاں والا۔۔پریشے نے لائبہ سے کہا اس میں کوئی خاص بات تو نہیں ہے۔۔لائبہ مسکرائی اور بولی میری ماں بتاتی ہے کہ یہ تمہارے ابا تھے۔حکومت نے اس کی خدمات کے عوض یہ سکول انکے نام سے معنون کر دیا تھا۔۔پریشےنے کہا ٹھیک ہے یہ تو ہر جگہ ہوتا ہے کہ شہیدوں کو یاد کیا جاتا ہے۔۔لائبہ نے پھولے نہ سماتے ہوئے کہا کہ باجی ایک سڑک شہر کی بھی میرے ابا کے نام سے بنائی جارہی ہے اور میرا بھائی اور میری ماں وہاں پر مزدوری کر رہے ہیں۔۔۔
Shanza Khan
About the Author: Shanza Khan Read More Articles by Shanza Khan: 6 Articles with 4766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.