میرا دل آج اور اسوقت ’’ بو ل کے لب آزاد
نہیں‘‘ کی تفسیر بنتے ہوئے ایک ایسے موضوع پر لب آزاد کرنے کا جس کی طرف
نظر کرو تو آنکھ بار شرم سے جھک جاتی ہے اور سر بار ندامت سے خم ہو جائے
چشم و فلک و ارض نم ہو جائیں ضمیر کی عدالت میں خود پر کوڑے پڑتے محسوس ہوں
، شرم سے نظر چرائے اپنا اور اپنی قوم کی حالت کا محاسبہ کرتے کرتے اس
موجودہ وقت سے گواہی لیتے لیتے سر ندامت سے جھکتا چلا جاتا ہے۔
اور ہاں ہاں یہ سچ ہے اور کڑوا سچ ہے ہاں یہ سچ ہے تاریخ گواہ ہے کہ واقعی
ہم ایسے نہ تھے یہ وقت خود کہہ رہا ہے کس کس بات کو بیان کروں میں آج اپنی
گواہی کے لیے؟؟؟ کیا اس وقت کو جب عرب میں جہالت مٹ گئی تھی اور ایک قرآن
اور ایک اللہ کو ماننے والے تھے طالبان نہ تھے داعش نہ تھےسیکولر ازم و
لبرل ازم کے چاہنے والے نہ تھے ، گستاخ رسول ﷺ نہ تھے، تھے تو صرف ا ور صرف
عاشقان رسول ﷺ تھے۔ آج کی طرح ناموس رسالت کے دشمن نہ تھے عاشقان رسول کے
قاتل نہ تھے ،یہ قتل و غارت نہ یہ نہ انصافیاں نہ تھی ۔
یا پھر اس بات پر گواہی دوں کہ دورِ صدیق اکبر میں ایسی گری ہوئی سیاست تھی
نہ ایسے گرے ہوئے سیاست دان تھے ،جو مزدور کی اجرت کے مساوی اپنی اجرت
رکھتے تھے ، یا شرمندہ خم کر کے اس بات سے گواہی بیان کروں کہ عمر فاروق
رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا حاکم گلی گلی کوچے کوچے بنا سکیورٹی ، بنا
پروٹوکول کے پھر کر عوام کی خبر گیری کیا کرتا تھے ۔گستاخ رسول کا فیصلہ
بنا کسی عدالت کے کیا کرتے تھے ،یا ،میں بار شرم سے جھکی نظروں سے یہ گواہی
دوں کے ہاں ہاں عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ تھے جو اپنی دولت اپنا
پیسہ رعایا پر خرچ کرتا تھا۔ اپنے اکاؤنٹ نہیں بھرتا تھا، اپنی پراپرٹی میں
اضافہ نہ کرتا تھا ۔ یا میں گواہی دوں اسی اسد اللہ کی جو نام محمد ﷺ پر
حرف اٹھانے والے بڑے بڑے عہدے دار کا سر تن سے جدا کر دیتا تھا‘ پیاز ‘
ٹماٹر کی لالچ میں ناموسِ رسالت پر حرف نہ آنے دیتا تھا۔ خاموش نہ رہتا تھا
کیا کیا گواہی دے گایہ وقت ؟ اے وقت! کیا کیا گواہی دے گا؟؟؟
کیا اس وقت کی
اس ایماندار بانی پاکستان ،قائداعظم کی، جنھیں یاد کر کے اشک بار چشم سے
لرزیدہ لبوں سے یہ بیان کروں جو بھری محفل میں بنا ڈرے ‘ بنا جھکے ‘ بڑے
بڑے وزراء سے کھلے عام کہتا تھا کہ عوام کا پیسہ عوام کے لیے ہے، وزراء کی
چائے پانی کیلئے نہیں ہے بلا وجہ کے ظہرانے عشائیوں کے لیے نہیں ہے یا میں
اس شرمندہ وقت کو مزید شرمندہ کروں کہ یہ قوم اس وقت اظہار یکجہتی کے لیے
سڑ کوں پر آ گئی تھی جب کشمیر میں ایک مسلمان عورت کو ظلم و بربریت کا
نشانہ بنایا گیا اسکی عزت کو اپنی بہن‘ بیٹی کی عزت سمجھ کے اس کا ساتھ دیا
گیا تھا۔ آج تک کشمیر ڈے منایا جا رہا ہے لیکن افسوس اس وقت پر ہے جب ان۔
مسلمانوں کے سامنے حافظ قرآن کو زندہ جلایا گیا، لیکن کوئی گھر سے باہر نہ
آیا کسی نے آواز بلند نہ کی یا یہ وقت اس وقت کی گواہی دے جب مساجد سے قرآن
ملتے تھے، نمازی ملتے تھے‘ اسلحہ و بارود نہ ملتا تھا یا یہ وقت اس وقت کی
گواہی دے جب داڑھی والے کو دیکھ کر ادب سے اس کے سامنے سر جھکایا جاتا تھا
اسے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا آج کی طرح ڈر کر منہ نہ چھپایا جاتا
تھا۔ آج کی طرح کسی دہشت گرد تنظیم کا کارکن سمجھ کر شک کی نگاہ سے نہ
دیکھا جاتا تھا۔
آج یہ وقت خود رو رہا ہے ماتم کدہ ہے اپنے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر اس
وقت کو یادکر کے جب طالب علم کے پاس علم‘ قلم ‘ کاغذ ‘ امنگ ‘ لگن ملتی تھی
، نہ ملتی تھی تو بس 9MM نہ ملتی تھی نہ ملتا تھا تو کسی دہشت گرد تنظیم سے
تعلق نہ ملتا تھا ۔ ہاں ہاں یہ وقت اس بات پر بھی گواہ ہے جب کوئی ماں اپنے
لخت جگر ، ٹکڑا دل و جان کو علم کی روشنی حاصل کرنے کے لیے روانہ کرتے تھی
تو وہ زندہ ہی لوٹ آتا تھا۔ اپنے دو قدموں پر ہی لوٹ آتا تھا۔ آج کی طرح
ٹکڑوں میں بٹا ہوا چار کندھوں میں نہ آتا تھا۔ یہ وقت اپنا گھناؤنا چہرہ
دیکھ کر دکھ سے سوگ منا رہا ہے اس وقت کریاد کر کے جب کوئی کمسن بچی سکھی
سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے جاتی تھی تو گھر ہستی مسکراتی لوٹ آتی تھی لیکن آج
لوٹ کر نہیں آتی، ڈھونڈی جاتی ہے، تلاش کی جاتی ہے اور وہ مل بھی جاتی ہے
پر ہستی مسکراتی نہیں‘ مردہ وجود کے ساتھ کسی ندی نالے سمندر میں سے کسی کی
وحشت و ہوس کا نشانہ بن کر یہ شرمندہ وقت اس بات پر بھی گواہ ہے جب بہن
بیٹی کی عزت گھر کی چار دیواری میں محفوظ رہتی تھی ‘ انٹر نیٹ ‘ ہوٹلوں ‘
کلبوں ‘ گلیوں میں رلتی نہ پھرتی تھی آزادی کے نام پر بیٹیاں رلتی نہیں تھی
عزت کا آنچل اتار نہیں پیھنکتی تھی ،،،، ہاں یہ وقت گواہ ہے لوگو! یہ وقت
گوا ه ہے، تاریخ گواہ ہے ، میں گواہ ہوں، اورشاید آپ بھی ایسے نہ تھے ،نہ
لوگ ایسے تھے نہ انسان ایسے تھے سب سے بڑی بات مسلمان بھی ایسے ۔۔۔ نہ پاک
زمین ایسی تھی نہ پاکستان ایسا تھا نہ سیاست ایسی تھی، نہ حکمران ایسے تھے
نہ لہو اتنا سستا تھا نہ روٹی اتنی مہنگی تھی، نہ عزت یوں تارتار تھی ، نہ
آنچل یوں بکھرا بکھرا تھا نہ حاکم اتنے گھٹیا تھے ، نہ حکومت اتنی خراب تھی،
نہ وقت ایسا تھا۔۔۔۔۔ نہ وقت ایسا تھا۔
آج یہ مسلمان مجسم سوال بنا کھڑا ہے اور جواب بھی موجود ہے لیکن اس جواب سے
نظریں ملانے کا حوصلہ ہے نہ اس جواب کے لیے سماعت میں اتنی ہمت ہے کہ اس
جواب کی تلخی اپنے کانوں میں اتارے ‘ لیکن میں امید کروں گی اللہ سے دعا
کروں گی ، یا اللہ ہمیں امن و امان والا وطن عطا فرما دے! انسانیت والا
انسان بنادے خلفا ے راشدین جیسے حاکم عطا فرمادے ۔۔۔صحابہ کرام جیسی رعایا
بنادے ۔۔۔۔ پھر میں دوبارہ سے کہہ سکوں گی اے وقت گواہی دے ہم لوگ نہ تھے
ایسے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |