جس طرح چکوال میں رکشوں کی بھرمار ہے اُسی
طرح چکوال میں صحافیوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہر دُوسرا شخص خود کو
صحافی سمجھتا ہے بلکہ اپنے نام کے ساتھ سینئر صحافی لکھنا لازم ہو چکا ہے۔
میں گذشتہ 16 سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہوں، اب تک سینکڑوں کالم
لکھ چکا ہوں۔ چکوال میں تین سے چار نام میری نظر میں ایسے ہیں جن کو سینئر
صحافی کہا جا سکتا ہے لیکن چکوال کے صحافیوں میں اتفاق و اتحاد اتنا مضبوط
ہے کہ اگر میں ان تین، چار صحافیوں کے نام یہاں لکھ دوں تو پھر میرا کالم
ایک ادھ اخبار میں ہی شائع ہو گا باقی سب اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں
گے۔ چکوال میں صحافیوں کے اندرونی اختلافات اور گروپنگ کوئی نئی بات نہیں
ہے۔ جب سے میں صحافت میں آیا ہوں، اپنی آنکھوں سے ایسے ہی دیکھ رہا ہوں۔
چکوال کے صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لئے چند سال قبل
تجاویز سے بھرپور ایک کالم بھی تحریر کیا تھا مگر کوئی خاص پیش رفت نہ ہوئی
لیکن چند دن پہلے کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ صوبائی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات
ملک تنویر اسلم اعوان سیتھی نے چکوال کے صحافیوں کے لئے رہائشی کالونی
بنانے کا اعلان کیا تو ایسے محسوس ہوا جیسے یہ تازہ ہوا کا یہ ایک جھونکا
ہو اور یہاں تک کہ مردہ صحافی بھی کھمبوں کی طرح نکل آئے اور اپنی موجودگی
کا احساس دلایا۔ مقامی اخبارات سے ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے چند دن میں
تمام صحافی رہائشی کالونی میں شفٹ ہو جائیں گے۔ چکوال میں صحافیوں کی مختلف
درجہ بندی ہے۔ کچھ صحافی ایسے ہیں جو کہ چیف ایڈیٹر ہیں یعنی اپنے اپنے
اخبارات نکالتے ہیں۔ اُن کے ساتھ ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر بھی موجود ہیں۔ اس
وقت چکوال میں کم و بیش 40 کے قریب چیف ایڈیٹر موجود ہیں۔ پھر کچھ کی
نمائندگی قومی اخبارات کی بھی ہے۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ وابستہ
صحافی بھی موجود ہیں۔ مختلف اخبارات میں کالم لکھنے والوں کی بھی اچھی خاصی
تعداد موجود ہے۔ اس کے علاوہ کیمرہ مینوں کے بغیر صحافت کیسے مکمل ہو سکتی
ہے یعنی سادہ سی بات یہ ہوئی کہ صحافیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بن جاتی
ہے۔ حکومت اگر انصاف کے تقاضے پورے کرے تو اس کے لئے دُنیا کا کوئی کام
مشکل نہیں۔ ایسے تمام صحافی جو باقاعدہ اس شعبے سے وابستہ ہیں اور اُن کا
کام نظر آتا ہے تو اُن کو ضرور اس لسٹ میں شامل ہونا چاہئے اور ایسے لوگوں
کو اس لسٹ میں قطعی نہیں ہونا چاہئے جو باقاعدہ صحافی نہیں۔ صحافی کا صرف
صحافی ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اُس کا کیا ہوا کام اُس کی چیخ چیخ کر
گواہی دے رہا ہوتا ہے۔ میں دادِ تحسین پیش کروں گا ملک تنویر اسلم سیتھی کو
جنہوں نے کم از کم چکوال کے ناراض صحافیوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا۔ ابھی
بھی چند صحافی ایسے ہیں جن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اگر اُن کو بھی بلا
لیا جاتا تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چکوال کے
صحافی ایک پلاٹ یا چھوٹے سے مکان کی خاطر اکٹھے ہو گئے ہیں مگر چکوال کی
عوام کے مسائل کی خاطر اکٹھے نہیں ہوئے۔ چکوال میں یونیورسٹی کا قیام ایک
خواب بن چکا ہے۔ چکوال کی سینکڑوں بچیاں اور بچے دُوسرے شہروں میں اعلیٰ
تعلیم کے لئے جاتے ہیں، اس کے لئے اُن کے والدین کو سخت مالی خسارے کا بھی
سامنا کرنا پڑتا ہے اور ذہنی کوفت بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ چکوال میں پینے
کے صاف پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ DHQ ہسپتال راولپنڈی کے لئے بکنگ پوائنٹ
بن چکا ہے۔ چکوال سے مندرہ روڈ اور سوہاوہ روڈ ایک عذاب سے کم نہیں۔ ہر
گذرنے والے دن کے ساتھ یہی سنتے ہیں کہ اگلے ماہ مکمل ہو جائے گا لیکن یہ
اگلا ماہ کب آئے گا کسی کو معلوم نہیں۔ ہمیں عوام کے مسائل کی طرف توجہ
دینی چاہئے۔ میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ قلم کے اندر تلوار سے زیادہ طاقت
ہوتی ہے۔ اگر قلم کو تلوار کی طرح استعمال کیا جائے تو پھر ظالموں کے لئے
جینا مشکل ہو جائے گا۔ عوام کو اُن کے جائز مطالبات سے کوئی نہیں روک سکتا۔
صحافت کا شعبہ پیغمبرانہ شعبہ ہے اور لفظ صحیفہ سے نکلا ہے۔ میرے خیال میں
ہمیں اسی انداز میں ہی صحافت کو لے کر چلنا چاہئے۔ میرے خیال میں صحافتی
کالونی کو چکوال کے صحافیوں کے لئے ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کو تحصیل
تلہ گنگ، تحصیل چوآسیدن شاہ اور تحصیل کلرکہار تک پھیلنا چاہئے۔ اگر چکوال
کے تمام صحافی ایک مقصد کے لئے اکٹھے ہو جائیں تو پھر کوئی کام مشکل نہیں
ہے۔ سچ بات کہوں صحافیوں کا کام انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اگر ایک صحافی ساری
زندگی کسی کے حق میں لکھتا رہے اور صرف چند لائنیں اُس کے خلاف لکھ دے اُس
کی ساری زندگی کی اچھائی رائیگاں کر دی جاتی ہے اور کچھ لوگ صحافت میں ایسے
بھی ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اخبار نہیں پڑھتے مگر چند الفاظ کی ایسی
خبر جو کہ اُن کے خلاف ہو فوراً فون کال آجاتی ہے۔ صحافیوں کے لئے سب کو
راضی رکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ صحافی کا کام حقائق بیان کرنا ہوتا ہے۔
صحافی معاشرے کی آنکھ ہوتے ہیں۔ صحافی نے عوام کے ساتھ تصویر کے دونوں رُخ
رکھنے ہوتے ہیں اور عوام کو تصویر کا اصل چہرہ دکھانا ہوتا ہے۔ تنقید برائے
تنقید صحافت میں ٹھیک نہیں ہے۔ صحافیوں کے آپس کے اندرونی مسائل یا
اختلافات کو مذاکرات سے حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو اپنے اپنے اخبارات
کی زینت بنانا باعث شرمندگی بنتا ہے خصوصاً ایسی صحافت جو کچھ عرصہ پہلے
ہوتی رہی ہے اس سے حتیٰ الامکان اجتناب کرنا چاہئے۔ صحافت ریاست میں ایک
ستون کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر ہم ریاست کے ایک ستون کو کمزور کریں گے تو پھر
ہم ملک و ملت کے وفادار نہ ہوئے۔ ہمیں ان کالونیوں کے لالچ کے علاوہ بھی
ایک دُوسرے کے ساتھ اتفاق و اتحاد کے ساتھ رہنا چاہئے میرا پورا یقین ہے کہ
اگر چکوال کے تمام صحافی اگر بغض، کینہ، عناد دل سے نکال کر ایک پلیٹ فارم
پر اکٹھے ہو جائیں تو پھر وہ حکومت وقت سے ہر مسئلہ حل کرا سکتے ہیں۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ سینئر صحافی جونیئر صحافیوں کی صلاحیتوں کے معترف ہوں اور
جونیئر صحافیوں کو اپنے سینئر صحافیوں پر ناز ہو۔ اگر ہم ایک دُوسرے کو
نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہے تو پھر ہمارے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ یہ نام
نہاد سیاستدان بھی ہمیں استعمال کرتے رہیں گے۔ بیورو کریسی بھی چائے بسکٹ
پر ہمیں راضی کرتی رہے گی اور ضرورت پڑنے پر ہمیں آنکھیں بھی دکھاتے رہیں
گے لیکن اگر صحافی یکجان ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں تو پھر
دُنیا کی کوئی طاقت ان کو گرا نہیں سکتی۔ میرا کامل یقین ہے کہ قلم میں
اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اگر ایک صحافی تھڑے پر بھی بیٹھا ہے تو پھر اعلیٰ سے
اعلیٰ سیاستدان اور افسر اُس کے قدموں میں موجود ہو گا لیکن اس کے لئے سب
سے پہلے تو صحافی کا اپنا دامن صاف ہونا ضروری ہے۔ اس دُعا کے ساتھ کہ
چکوال کے صحافیوں کو صحافتی کالونی بنا کر دی جائے گی یہ بھی دُوسرے
اعلانات کی طرح صرف اعلان ہی ثابت نہیں ہو گا بلکہ اس کو حقیقی معنوں میں
عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |