تقریبا چودہ سو سال قبل کی بات ہے۔ایک شخص
تجارت کی غرض سے اپنے شہر سے دور گیا ہوا تھا۔جب گھر واپس آیا تو اس نے
دیکھا کہ گھر کے افراد میں اضافہ ہو چکا ہے۔اس نے دیکھا کہ ایک معصوم سی
جان اس کے گھر کے آنگن میں چہل قدمی کر رہی ہے۔بیگم سے دریافت کیا تو معلوم
ہوا کہ خدا نے اس کو بیٹی سے نواز ہے۔اس شخص کی بیٹی بہت معصوم اور پیاری
تھی۔اپنی پیاری پیاری معصومانہ باتوں سے اپنے والدین کو خوش رکھتی تھی۔لیکن
اس جہالت کے دور میں شیطان لوگوں کے دماغ پر حاوی تھا۔جب وہ شخص اپنے
دوستوں ،بزرگوں اور رشتہ داروں سے ملا تو ان سب سے اس شخص کو لعن طعن سننے
کو ملی تھی۔اس کی وجہ تھی کہ تیرے گھر ایک حقیر مخلوق پیدا ہوئی ہے اور تو
نے ابھی تک اسے مارا کیوں نہیں؟خاندان والوں کی باتیں سن کر وہ بہت پریشان
تھا ۔اسی پریشان حالت میں جب وہ گھر پہنچا تو بیگم نے دیکھا کہ میرے سر کا
تاج آج کافی غمگین اور پریشان ہے۔پوچھا کہ میرے سر تاج کیا بات ہے آج آپ
کافی پریشان لگ رہے ہیں؟اس نے بیگم کو بتایا کہ خاندان والے اس پہ لعن طعن
کر رہے ہیں کہ تو کیسا باپ ہے کہ ابھی تک بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہے؟لیکن مجھے
میری بیٹی بوجھ نہیں لگتی ،یہ تو بہت پیاری اور بہت معصوم ہے۔خیر اس نے سب
کی باتیں بھلا کر بیٹی کی پرورش کی۔جب وہ اپنے بابا کے ساتھ بازار سے گزرتی
اور تو لوگ اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے۔خاندا ن میں اسے اکیلا کر دیا
گیا۔اس طرح اس کی برداشت کی حد جواب دے گئی اور شیطان اس کے دل و دماغ پر
حاوی ہو گیا۔اس نے فیصلہ کیا کہ اب اس کے گھر میں بیٹی کا وجود نہیں رہے
گا۔اس کے ذہن میں ایک شیطانی منصوبے نے جنم لیا۔اس نے بیگم سے کہا کہ ہماری
بیٹی کو تیار کرو میں اسے بازار لے کے جانا چاہتا ہوں ۔بیگم اپنے خاوند کی
شیطانی سوچ سے ناواقف تھی۔اس نے اپنی بیٹی کو تیار کیا اور باپ کے ساتھ
روانہ کر دیا۔اسے کیا پتہ تھا کہ آج آخری دفعہ اپنی معصوم سی بیٹی کو تیار
کر رہی ہے۔آخری دفعہ اپنی دختر کی پیشانی چوم رہی ہے ۔وہ نہیں جانتی تھی کہ
اس کے سر کا تاج آج اِس کی لخت ِجگر کو ہمیشہ کے لیے اس کی آنکھوں سے دور
کرنے لیجا رہا ہے۔بیٹی بھی بہت خوش تھی کہ اس کا بابا آج اس کو بازار لے کے
جا رہا ہے۔آج اس کا بابا اس کے لیے چوڑیاں خریدے گا۔اس کو طرح طرح کے کھانے
کھلائے گا۔مگر وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ آج وہ اپنے باپ کے ساتھ آخری
دفعہ انگلی پکڑ کے چل رہی ہے ۔وہ اس بات سے انجان تھی کہ آج وہ آخری دفعہ
اپنی توتلی زبان سے بابا ،بابا پکار رہی ہے۔وہ نہیں جانتی تھی کہ آج اس کی
میٹھی میٹھی باتیں کرنے والی زبان ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے گی۔لیکن جب
اس نے دیکھا کہ اس کا بابا شہر کے بازار سے جنگل کی طرف جا رہا ہے۔اس نے
پوچھا کہ بابا ہم کہاں جا رہے ہیں ۔تو بابا نے حیلوں بہانوں سے اسے سمجھایا
کہ ہم جہاں جا رہے ہیں بلکل ٹھیک جا رہیں ۔وہ اپنے بابا کی ساتھ لی ہوئی
کدال کو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے کھینچتی ہوئی اپنے بابا کے شانہ بشانہ چل
رہی ہے۔آخر کار ان کے سفر کا اختتام ایک گھنے میں جنگل میں ہوا۔جہاں ہر طرف
سناٹا ہی سناٹا تھا ۔جہاں پہ باپ بیٹی کے سوا کوئی تیسری ذی روح موجود نہ
تھی۔بابا نے اپنی بیٹی کو ایک طرف بیٹھا دیا۔خود کدال لے کے قبر خودنا شروع
ہو گیا۔اُس نے اپنے بے رحم منصوبے پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا۔وہ کدال سے
زمین کا سینہ چاک کر رہا ہے اور بابا کی بیٹی اپنے بابا کی مٹی دور پھینکنے
میں مدد کر رہی ہے۔اس بات سے انجان کہ اس کا باباقبر کو صرف اس لیے کھود
رہا ہے تاکہ اپنی بیٹی کو اس میں زندہ درگور کر سکے اور اپنے اوپر لگے
حقارت کے داغ کو مٹا سکے ۔اپنے خاندان میں سرخرو ہو سکے ۔اپنے تعلقات بحال
کرا سکے۔جب قبر کی کھدائی مکمل ہو گئی تو اس نے اپنے شیطانی منصوبہ کو عملی
جامہ پہناتے ہوئے اپنی معصوم بیٹی کو قبر میں اتر جانے کا حکم دیا۔ننھی سی
جان ابھی بھی اس بات سے بے خبر ہے کہ وہ مٹی جو وہ نکال نکال کے باہر پھینک
رہی ہے ،کچھ لمحوں بعد اس جان لینے کا سبب بن جائے گی۔وہ تو بابا کی پیاری
بیٹی تھی اس نے بابا کے حکم تعمیل کی اور اپنے معصومانہ انداز میں قبر میں
اتر گئی ۔وہ سمجھی تھی کہ شاید بابا نے اس کے لیے مٹی سے کھیلنے کا بندوبست
کیا ہے۔مگر بابا نے تو اسے مٹی میں ملانے کا بندوبست کیا تھا۔جب اس نے اپنی
بیٹی کے اوپر مٹی پھینکنا شروع کردی تو تب اس نے اپنے بابا سے پوچھا کہ
بابا ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟بابا نے کہا کہ اے بیٹی تو مجھے بہت پیاری ہے
مگر خاندان ،قبیلہ ،شہر والے سب مجھے تیری وجہ سے لعن طعن کرتے ہیں ۔لہذا
اب میں تجھے زندہ درگور کرکے اپنے خاندان میں سرخرو ہونا چاہتا ہوں۔ننھی سی
جان اپنے اوپر بابا کی جانب سے مسلط کی جانے افتاد سے گھبرا کر رونا شروع
کر دیا ہے۔کہا کہ بابا میرا کیا قصور ہے ؟میں خود آپ کے گھر میں تھوڑا پیدا
ہوئی ،مجھے تو خدا نے آپ کے گھر پیدا کر دیا۔بابا آپ مجھے مت مارو !میں آپ
سے کبھی کھلونے نہیں مانگو گی۔میں آپ سے کبھی چوڑیا ں نہیں مانگوں گی۔کبھی
گود میں اٹھانے کا تقاضا نہیں کرو گی۔میں آپ کو بابا بھی نہیں پکارو گی۔وہ
اپنے کی ٹانگوں کو پکڑے اپنی جان کی بھیگ مانگ رہی تھی۔لیکن بے رحم بابا کے
ذہن پر شیطان پوری طرح حاوی تھا۔اسے شاید اپنی بیٹی کی پکار سنائی نہیں دے
رہی تھی۔وہ تو تیزی تیزی سے ننھی سی جان پر مٹی ڈالنے میں مصروف تھا۔بیٹی
کی چیخیں اتنی دل ہلا دینے والی تھی کہ اﷲ رب العزت کا فرش ہل گیا تھا۔لیکن
اس دن بیٹی کی چیخ و پکار کا اس کے بابا پر کوئی اثر نہ ہوا۔جب بیٹی نے
دیکھا کہ اس کا بابا آج اسے زندہ دفنا کے ہی چھوڑے گا تو کہا ’’بابا جان!
کل قیامت کا دن ہو گا ،میرے ننھے ہاتھ آپ کا گریبان پکڑ کے سوال کریں گے کہ
میرا کیا قصور تھا جو آپ نے مجھے زندہ درگور کر دیا ‘‘تو بابا جان آپ کیا
جواب دو گے؟
یہ سارا ماجرا وہ شخص آقائے دو جہاں رحمت اللعالمین ﷺ کو سنا رہا تھا۔آپﷺ
کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔کہاکہ آقا جی ! کیا میری بھی بخشش ہو سکتی ہے؟
فرمایا کہ اے شخص تو اسلام قبول کر لے۔اﷲ تعالی ستر ماؤں سے زیادہ پیار
کرنے والا ہے اگر تو صدق ِ دل سے توبہ کرے گا تو اس خدائے بزرگ و برتر
تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔
اسلام نے عورت کو بہت اونچا مقام دیا ہے۔اسلام کی آمد سے قبل عورتوں کے
ساتھ جو سلوک کیا جاتا تھا اس کی ایک جھلک مندرجہ بالا عبارت میں دیکھانے
کی کوشش کی ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’کسی عورت کے لیے یہ بہت ہی مبارک بات ہے اس
کی پہلی اولاد بیٹی ہو۔مزید ارشاد فرمایا کہ ’’جس شخص کی بیٹیاں ہو اس شخص
کو برا نہ سمجھو کیونکہ میں خود بیٹی کا باپ ہو۔
جب کوئی بیٹی پیدا ہوتی ہے کہ تو اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں ’’اے لڑکی تو
زمین پر اتر میں تیرے باپ کی مدد کرو گا‘‘۔حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص
تین بیٹیوں یا ان ہی کی طرح تین بہنوں کی پرورش کرے گا اور پھر ان کی تربیت
کرے گا اور ان کے ساتھ پیار و شفقت کا برتاؤ کرے گا یہاں تک کہ ان کی
شادیاں ہو جائیں تو اﷲ تعالی اس شخص کو جنت کا مستحق بنا دیتاہے۔
اگر ہم اپنے معاشرے کے حالات پر نظر دوڑائیں تو ہمارا بیٹی کے ساتھ سلوک
اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے۔بیٹی کو پرایا دھن سمجھا جاتا ہے۔جہاں بیٹے کے
لیے بچپن میں کھلونے ،کپڑے اور دیگر اشیاء لائی جاتی ہیں تو بیٹی کو ان
تمام مراعات سے محروم رکھا جاتا ہے۔بیٹے کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے
مگر جب بیٹی کی تعلیم کی باری آتی ہے تو ہمارے خیالات کچھ اس طرح ہوتے ہیں
’’چلو پانچ دس جماعتیں پڑھا لیتے ہیں ‘‘اس نے جانا تو پرائے گھر ہے نا۔بیٹا
توبڑا کہ ہمارا سہارا بنے گا ۔مگر جب ماں باپ کو سہارے کی ضرورت ہوتی ہے تو
والدین کا لاڈلا بیٹا بیوی کے احکامات کی تعمیل میں مصروف ہوتا ہے۔اس کے
لیے والدین کے لیے وقت نکالنا دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے۔اس کے پاس بس
ایک ہی حل ہوتا ہے کہ والدین کو اولڈ ہاؤ س میں جمع کروادیا جائے۔وہ اس بات
کو بھول جاتا ہے کہ قدرت کا قانون ہے کہ جیسا کرو گے ویسے بھرو گے یعنی کل
کو اس کی اولاد اس کو اولڈ ہاؤس میں داخل کروائے گی تو اس کے دل پہ کیا
گزرے گی۔
اس کے بر عکس وہ بیٹی جس کو والدین پرایا دھن سمجھتے ہیں وہ پرائے گھر میں
جا کے اپنے والدین کی عزت کو اپنے بہترین کردار سے چار چاند لگا دیتی ہے ۔وہ
ماں باپ جو بیٹے کے ساتھ لاڈ پیار کرکے اسے آسمان پر بٹھا دیتے ہیں اور
بیٹیوں کے غیر مناسب رویہ اختیار کرتے ہیں ۔مگر بیٹا اپنے ماں باپ کی
امیدوں پہ پانی پھیر دیتا ہے لیکن بیٹی پھر بھی والدین کی خدمت میں کوئی
کسر نہیں چھوڑتی۔حالانکہ اس کو اپنے گھر کو سنبھالنا ہوتا ہے۔لیکن با وجود
اس کے اپنے والدین کا پرایا دھن اپنی ماں باپ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں
چھوڑتا۔
ابا جان حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جب گھر لوٹے تو ان کو فالج نے آن
گھیرا تھا۔سعد (ان کا بیٹا)جس کی پچھلے سال بہت دھوم دھام سے شادی کی
تھی۔فالج کے حملے کے بعد انور صاحب(اباجان ) چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے
تھے۔جب انہوں نے اپنے بیٹے سے بات کی کہ بیٹے مجھے کسی اچھے ہسپتال لے چلو
،سائنس نے بہت ترقی کی ہے،فالج کا علاج بھی ممکن ہو گا۔ان کے بیٹے نے
کہاابا جان اتنا خرچہ کہا سے اٹھائیں گے۔ویسے میرے خود حالات خراب ہیں لیکن
پھر بھی میں آپ کو سرکاری ہسپتال میں لے چلو گا۔میرے آفس میں کام بہت زیادہ
ہوتا ہے۔میرے لیے وقت نکالنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔انور صاحب اپنے بیٹے کا یہ
جواب سن کر سکتے میں آ گئے۔وہ بیٹا جس کے بچپن سے وہ لاڈ اٹھا رہے تھے ۔اپنی
بیٹی کے حصے کی محبت بھی اپنے بیٹے پر نچھاور کر رہے تھے۔مگر آج جب بیٹے کے
کندھے کی ضرورت پڑی تو بیٹے نے ثابت کر دیا کہ اس کو باپ کی ضرورت نہیں ۔
ادھر بیٹی کو جب پتہ چلا کہ اس کا پیارے ابا جان فالج جیسی موزی بیماری کا
شکار ہو گئے ہیں تو بھاگی بھاگی اپنے گھرپہنچی اور ماں کو 5000روپے دیا اور
کہا کہ ابا جان کو میرا مت بتایے گا کیونکہ وہ میری شکل نہیں دیکھنا
چاہتے۔میرے اباجان کے علاج میں کوئی کسر مت چھوڑیے گا۔میں نے کچھ پیسے جمع
کرکے رکھے ہیں تو وہ میں جلد ہی آپ کو منی آرڈر کر دو گی۔
صوبہ سندھ حالات دیکھیں تو بڑے بڑے جاگیر دار(وڈے سائیں )اپنی بیٹیوں کو
جائیداد سے محروم رکھنے کی خاطر اُن کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ایسا
گھناؤنے رسم و رواج ہیں کہ شیطان بھی شرما جاتا ہوگا۔وڈے سائیں اپنی بیٹی
کو وراثت کے حق سے محروم رکھنے کی خاطر اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کی
بجائے اس کا نکاح قران مجید سے کر دیتے ہیں ۔
جب ہمارے معاشرے کے بیٹے اپنی پسند کی شادیاں کرکے ہمارے سر شرم سے جھکا
دیتے ہیں مگر شرم و حیا کی پیکر ،نازک دل کی مالک بیٹیاں اپنے باپ کی داڑھی
اور پگڑی کی لاج رکھتے ہوئے چپ چاپ اپنے سسرال گھر چلی جاتی ہیں ۔
یہ بیٹیاں جب بہو بن کر پرائے گھر جاتی ہیں تو خدارا ان کا خیال رکھیے۔وہ
اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر ایک بیش قیمتی قربانی دیتی ہیں ۔مگراکثر گھر
والے(شوہر) اپنی بیوی کے ساتھ نوکرانی جیسا سلوک کرتے ہیں ۔انہیں یہ بات
یاد رکھنی چاہیے کہ کل اس کی بہن ،اس کے باپ کی بیٹی بھی کسی پرائے گھر
جائے گی تو اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائیگا؟ |