بازار سے کچھ ضروری سامان خریدنے کے بعد
میں فرید گیٹ پہنچا ہی تھا کہ ایک خاتون نے راستہ روک لیا۔جدید فیشن کے
مطابق لباس پہنے ،چہرے پر میک اپ کی دبیز تہ چڑھائے وہ مجھے پنجابی فلموں
کی ہیروئن معلوم ہورہی تھی۔اس کے سراپے میں الجھا میں تب چونکا جب اس نے
اللہ کے نام پر خیرات مانگی۔یہ شاید اسکی شخصیت کا ہی اثر تھا کہ میں نے
بلاچون و چراں جیب سے دس روپے نکال کر اسے تھما دیے۔ایسی کم ظرف کہ دعا دیے
بغیر ہی چلتی بنی۔اس دوران میں نے آٹو رکشہ والے سے چوک فوارہ تک کا کرایہ
پوچھا تو اس نے معمولی سفر کے اسی روپے مانگے۔میں نے کفایت شعاری اپناتے
ہوئے اپنے پیروں کی قوت پر بھروسہ کیا اور پیدل جانے کی ٹھانی۔ذرا آگے گیا
تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسی گداگر خاتون نے اک ادائے بے نیازی سے ہاتھ کا
اشارہ کرتے ہوئے رکشہ رکوایا اور کرایہ پوچھے بغیر ہی اس میں سوار ہوکر یہ
جا وہ جا۔تمام سفر میں بھکاری مافیا کے ہتھکنڈوں پر کڑھنے کے بعد جب چوک
فوارہ پہنچا تو وہی گداگر خاتون وہاں موجود لوگوں سے خدا کے نام پر پیسے
بٹورنے میں مصروف تھی۔
اس نوعیت کایہ واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ ہم میں سے ہر شخص کو شہر بھر کے
مختلف چوراہوں، مساجد، بسوں اور دیگر عوامی مقامات پر لاتعداد گداگروں سے
واسطہ پڑتا ہے۔ جہاں ان ہزاروں گداگروں میں اکثر معاشی تنگدستی کے ستائے
ہوئے ہوتے ہیں وہیں کئی افرادگداگری کو آسان اور منافع بخش کاروبار سمجھ کر
اپناتے ہیں۔گداگروں کے اس ٹولے میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو
اپنی معصومیت اور نسوانیت کی آڑ میں لوگوں کی جیبیں خالی کرتے ہیں۔تشویشناک
بات یہ ہے کہ گداگروں کے روپ میں کئی جرائم پیشہ افراد بھی موجود ہوتے ہیں
جو معلومات حاصل کر کے اپنے ’’گینگز‘‘ کے ذریعے چوری اور ڈکیتیاں کراتے
ہیں۔اسی طرح اغوا برائے تاوان اور مخبری کے علاوہ گداگر عورتوں اور بچوں کو
منشیات فروشی اور سمگلنگ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔گداگر عورتیں
عموماً جسم فروشی جیسے قبیح فعل میں بھی ملوث ہوتی ہیں۔
میرا مشاہدہ ہے کہ ایک کامیاب گداگر ہونے کے لیے اچھا اداکار ہونا ضروری
ہے۔یہ لوگ اس کمال اداکاری سے اپنی لاچاری کی داستان بیان کرتے ہیں کہ پتھر
دل آدمی بھی پسیج جاتا ہے۔جسمانی معذوری بھی اسی مکاری ایک صورت ہے۔اس مقصد
کے لیے بڑے بڑے گینگ ہیں جنہیں مضبوط شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔
ایسے لوگ اپنے خاندان کے ہمراہ صبح مختلف علاقوں میں ٹولیوں کی صورت میں
نکلتے ہیں اور شام کو مخصوص جگہ پر جمع ہوکر تمام دن کی کمائی کا حساب اپنے
سربراہ کو دینے کے پابند ہوتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے آمدن
کے لحاظ سے مختلف علاقے گداگروں میں بانٹ دیے جاتے ہیں۔مثلاً ہسپتالوں ،
تعلیمی اداروں ، چوراہوں اورعوامی مقاما ت کا کرایہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان کے سات بڑے شہروں میں کل آبادی کا 0.3 فیصد جبکہ
کراچی شہر میں ہر 100 میں سے ایک فرد نے رضاکارانہ طور پر تسلیم کیا کہ وہ
باقاعدہ گداگری کے پیشے سے منسلک ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق رضاکارانہ طور
پر تسلیم کرنے والے افراد میں سے 65 فیصد ایسے افراد کی ہے جو کام کاج
کرسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے گداگری کو پیشہ بنایا ہوا ہے ۔
غربت کا ڈھونگ رچائے یہ گداگر دو ہزار روپے دیہاڑی آرام سے کما لیتے
ہیں۔کچھ گداگر نہ صرف گاڑیوں بلکہ اچھے گھروں کے بھی مالک ہوتے ہیں۔ اگر
دکھانے کو جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں تو انکی جھونپڑیوں میں بھی ڈش کیبل اور
دوسری سہولیات موجود ہوتی ہیں۔چولستان انسٹی ٹیوٹ کے قریب میں نے ایک ایسے
گداگر کی جھونپڑی کا وزٹ کیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس میں ڈش ٹی وی
کے علاو ہ امپورٹڈ روم کولر لگا ہوا تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں
اکثر بیمار رہتا ہوں اور گرمی برداشت نہیں کر پاتا اس لیے ٹکا ٹکا جوڑ کر
یہ روم کولر لیا ہے۔
کچھ لوگ گداگروں کو بھیک دینے کے حوالہ سے دلیل دیتے ہیں کہ یہ ہم پر خدا
کی رحمت ہے کہ کوئی ہم سے مانگتا ہے۔لیکن اس حوالہ سے اگر قران و حدیث کا
جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ پاک کے فرمان کا مفہوم ہے کہ تم
محتاجوں کو ان کی شکلوں سے پہچان لو گے کیوں کہ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال
نہیں کرتے۔حدیث شریف کے مطابق "لعنت ہے اس شخص پر جس نے اللہ کے نام پرسوال
کیا"۔
اسی طرح ایک شخص کا واقعہ مشہور ہے جس نے بارگاہ اقدس میں مدد کے لیے سوال
کیا تو نبی پاک ﷺنےاسسےپوچھاکہتیرےپاسگھرمیںکچھہے؟تواسنے بتایا کہ ایک کمبل
اور پیالہ ہے۔نبی پاک ﷺنےاسکا پیالہ اور کمبل اسی وقت حاضرین مجلس میں دو
درہم کے عوض فروخت کر کے اسے رقم دی اور بازار سے کلہاڑا خرید کر لانے کو
کہا۔جب وہ شخص کلہاڑا لے آیا تو آپ ﷺنےاپنےدست مبارک سے کلہاڑے میں دستہ
ڈالا اور اسے حکم دیا کہ جنگل میں جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر بیچو۔مزید فرمایا
کہ یہ سوال کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ قیامت کے روز تیرے ماتھے پر بھیک کا
نشان ہو۔
ہمارے ملکی نظام کا المیہ ہے کہ یہ بھکاریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کر
رہا ہے۔ مختلف امدادی سکیموں کے بجائے کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت گداگری کے
انسداد کے لئے غریبوں کے ہاتھ میں کلہاڑا (ہنر) تھما دے تاکہ وہ بھی روزگار
کما سکیں۔ آغا خان فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان میں سالانہ 70 ارب زکوٰۃ اور
خیرات تقسیم ہوتی ہے(یہ اس کے علاوہ ہے جو بینکوں میں ہر سال کاٹی جاتی
ہے)۔ اگر یہ رقم حکومت خزانے میں شامل کرنے کے بجائے کسی ادارے کے ذریعے
گداگری کے انسداد اور انہیں کلہاڑا (ہنر) فراہم کرنے پر لگا دی جائے تو
یقین کیجئے کہ اس ملک میں آواز لگانے پر بھی کوئی مانگنے والا نہیں ملے گا۔
دوسری جانب ہماری سادہ لوحی کا یہ عالم ہے کہ مستقبل کی بے یقینی سے پریشان
اور اپنی بد اعمالیوں کے ازالے کی خاطر ان پیشہ ور بھکاریوں کی جھولیاں
بھرنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ ادھر کسی گداگر بابو نے صدا بلند کی
اورادھر بغیر کچھ سوچے سمجھے ہمارے ہاتھ اپنی جیبوں اور تھیلوں کی طرف
بڑھتے ہیں۔ ہاتھ میں جو آتا ہے وہ سامنے والے کی نذرگزارا جاتا ہے۔ پھر
نگاہ اٹھتی ہے تو بھکاری بابو ثواب تقسیم کر نے کے بعد نیا شکار پھانسنے کے
لیے آگے بڑھ چکا ہوتا ہے۔
میری التماس ہے کہ ان پیشہ ور گداگروں کی حوصلہ شکنی کی جائے کیوں کہ اگر
ان گداگروں اور بھکاریوں کے خلاف بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو ڈر ہے کہ بے
روزگاری کے اس زمانے اور مہنگائی کے اس طوفان میں ہر چوراہے میں کاسہ لیے
مانگنے والوں کی لائنیں لگی ہوں گی۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ درد بنے درد لا دوا
کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو۔۔ |