آٹھ اکتوبر کو ملکی تاریخ کا ایک افسوناک
ترین دن کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس روز قدرت کی آفت گری کے خلاف
انسانوں کی تمام تر کوششیں مٹی کا ڈھیر ثابت ہوئی تھیں اور یوں برسوں کی
محنت لمحوں میں بکھر گئی۔مٹی اور کنکریٹ کے ڈھیر بھی نوحہ کناں تھے،ٹنوں
ملبے کے تلے دبے ہوئے ہزاروں بچوں، عورتوں اور مردوں کو بچانے کی کوششیں
وقت کے خلاف ایسی دوڑ تھی جس میں ہارنا ہی تھا۔ والدین اپنے بچوں کو اور
عزیز اپنے پیاروں کو بے بسی سے موت کی وادی کی طرف بڑھتے دیکھتے رہے تھے ۔دنیا
بھر سے آنے والی رضاکار اور غیر سرکاری تنظیموں کا یہ کہنا تھا کہ اگر
ہلاکتوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سونامی کے بعد حالیہ برس کی دوسری
بڑی آفت ہے۔ مگر نوعیت کے لحاظ سے یہ سونامی سے کہیں زیادہ ہولناک ہے۔وہ
سال گزر گیا، کئی سال اور بیت گئے میری طرح لاکھوں ایسے ہیں جن کے ذہنوں
میں ،دلوں میں، اور آنکھوں میں 2005 ء ہمیشہ کے لیے ٹھہر چکا ہے۔
مجھے یاد ہے ، ہماری دھرتی کو ریڈ زون قرار دے کر شاہی فرمان جاری کیا گیا
تھاکہ آپ یہاں رہائش نہیں رکھ سکتے اور دو سال کے اندر اندر آپ کو یہاں سے
شفٹ کریں گے ۔ ارباب اقتدار نے زلزلے میں تہس نہس ہونے والے بالاکوٹ کے
شہریوں سے 15 کلومیٹر کی دوری پر ایک نیا شہر بسانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس
مقصد کے لیے 12 ارب روپے کی لاگت سے ’’نیو بالاکوٹ ‘‘نامی منصوبے کا آغاز
جولائی 2007ء میں کیا گیا ۔ اس منصوبے کے لیے ساڑھے گیارہ ہزار کنال زمین
حاصل کی گئی تھی۔اور یہ خواب آج بھی تعبیر ڈھونڈنے کے لئے سرگرداں ہے۔
مجھے یاد ہے،ماضی کو نہ دہرائیں تو بھی اور اگر روئیں تو بھی ’’ارباب
اقتدار‘‘ کے چہروں پر اداسی نہیں ہو گی۔ 2005 ء سے لیکر 2016 ء تک کا عرصہ
بھی متاثرین ’’ریڈ زون‘‘ احتجاج‘ ھکڑی‘ واویلا‘ ملاقاتوں‘ ذرائع ابلاغ کے
سہاروں گزارتے آئے ہیں اور اس بار بھی شاید نیو سٹی کی تکمیل کا لولی پاپ
دے دیا جائے۔ یقین جانیں بے حسی کی انتہا ہو چکی ہے۔ قیامت خیز زلزلہ کے
متاثرین سب کچھ کھو جانے کے باوجود بھی زندگی کی علامت ہیں۔ بس ایک حکومتی
عہد ہے کہ جو برسوں گزر گئے پورا نہیں ہو رہا‘ کیا عقدہ ہے‘ کیا راز پوشیدہ
ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔
مجھے یاد ہے ،میں 8 اکتوبر 2005 ء کے بعد سے سنتا آیا ہوں۔ ووٹ کے بھوکے ہر
امیدوار نے نیو سٹی بالاکوٹ کا ہتھیار اٹھائے‘ گلی گلی‘ چوک چوک اپنا اپنا
چورن بیچا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک خان صاحب نے تو ہمارے حق کے لئے
عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا کہہ کر سادہ لوح ووٹروں کا استحصال کیا۔ اس
وقت بھی یقین پختہ نہ تھا آج بھی یقین کا مل نہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ، ایک کمانڈر (ر) صاحب سیاست کے میدان میں آئے تو یہی
ہتھیار ان کے ہاتھ میں بھی دیکھا۔ اس کے حامی بس ’’بکریال سٹی‘‘ تعمیر ہونے
کا پے در پے ورد کرتے نہیں تھکتے تھے‘ وہ بھی آئے اور گئے مگر متاثرین کا
رونا ختم نہ ہوا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک اچھی ساکھ والے بزرگ سیاسی
شخصیت کے خانوادے نے بھی نیو یالاکوٹ سٹی کی آواز بن جانے کا عندیہ دیتے
ہوئے متاثرین ریڈ زون کے دروازوں پر دستک دی تو جھولیاں بھر بھر کے ووٹ ملے
اور پھر یہ ہوا کے ممبر اسمبلی بن جانے کے بعد انکی آواز ریڈ زون سے باہر
نہ جا سکی۔ متاثرین زلزلہ طویل مسافت طے کر کے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر سراپا
احتجاج بنے جہاں سے طفل تسلی‘ دلاسہ کی دستاویزات تھما دی گئیں، پھر تبدیلی
اور انصاف کا علم بلند کرنے والوں کی جاگیر بنی گالہ میں بھی رات گئے اپنی
بے بسی کا رونا رویا مگر بالکونیوں سے چھن چھن کر باہر آنے والی ہلکی روشنی
کے سوا متاثرین کچھ نہ پا سکے۔
مجھے یاد ہے ،شاہراہ کاغان کی بندش سے انتظامیہ ہل کر رہ گئی تھی اور
انتظامی سربراہ کی بات چیت ‘ مذاکرات اور یقین دہانی کے باعث اہل ریڈ زون
پھر ایک بار مجبور کر کے لوٹ جانے پر راضی کئے گئے۔ اور یوں یہ سفر آج 8
اکتوبر 2016 ء تک آن پہنچا۔
سفر رکا نہیں‘ نہ قلمی‘ نہ عملی ۔ چئیرمین ریاض احمد مغل ،کونسلر صفدر حسین
،میاں اشرف کی بے لوثی رنگ لائے گی۔ ہمت بھی ہارے نہیں حق کے لئے صدائیں
بلند ہو رہی ہیں اور آخری امید تک یہ نقارے بجتے رہیں گے۔ عہد و پیمان کرنے
والے دوبارہ نہ لوٹے نہ انہیں پذیرائی مل سکی۔ جواب تخت نشین ہیں ایک دو
برس کی بات ہے یہ بھی منہ چھپاتے پھریں گے۔ کیونکہ اہل ریڈ زون کے دلوں کے
رستے کہیں اور نہیں جاتے۔ انکی منزل نیوسٹی ہے، اپنے حق کا حصول ہے۔ اور اس
حصول کے لئے وہ اصولی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قانونی جنگ بھی لڑیں گے۔
مجھے یاد ہے، نہ سکول بنے نہ ہسپتال نہ ہی ریڈ زون کے منحوس سائے دور
ہوئے۔متاثرین کے ساتھ مذاح اب بھی جاری ہے۔بار بار بے وقوف بنائے جانے والے
اب ایک دوسرے کو حیرت و یاس سے تکتے ہیں۔انہیں کامیابی کا یقین ہے یا
ناکامی کاخوف یہ تو میں نہیں جان سکتا پر اتنا ضرور ہے کہ عوامی نمائندگان
کے لئے لوگوں کے دلوں میں اب وہ مقا م نہیں رہا۔گزشتہ گیارہ سالوں میں تو
نیو سٹی نہیں بن سکا پھر بھی خان صاحب، میاں صاحب ، شاہ صاحب ، سردار صاحب
ان کے چیلے اور مالشیے اہل ریڈ زون کو بے وقوف بنانے کی ہمت نہیں ہارے۔میں
بھی زنجیر ہلاتا رہوں گا جب تک سانس چلتی ہے۔ |