عرف عام میں سُرور آمیز کیفیت کو نشہ کہا
جاتا ہے، طلب کو بھی کہا جاتا ہے۔ بہر حال نشہ جیسا بھی ہو جس چیز کا بھی
ہو وہ زہر کی طرح زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ زندگی کی
نسوں میں سرایت کرتا جاتا ہے۔ بالآخر زندگی ختم کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے دین
اسلام میں نشے کو گنجائش نہیں دی گئی اور ہر اُس چیز کو جو عقل زائل کر دے
یعنی ہوش و خرو سے بیگانہ کر دے حرام و ناجائز قرار دیاگیا۔ لیکن فی زمانہ
نسل نوجوانوں نے اس چیز کو الگ الگ صورتوں میں اپنانا فرض عین سمجھ لیا ہے
جو نا صرف اسکی ذات کو مسمار کر دیتا ہے بلکہ اس کے خاندان والوں کو بدنامی
کے ساتھ ساتھ دیگر کئی تحفے دے دیتا ہے ۔ اُس کے اپنے تڑپتے ہیں ، سلگتے
ہیں، اپنے لخت جگر ، نورِ نظر اور سکون قلب کی زندگی کو کھلونا بنتے دیکھ
کر پل پل لمحہ لمحہ کڑھتے ہیں۔ لیکن انتہائی افسوس ناک اور شرم کی بات ہے
کہ ایسی اولاد پر جو خود اپنے جنم دینے والوں کو اپنے پیاروں کو اپنے
ہاتھوں اذیت دیتے ہیں۔ تُف ہے ایسی اولاد پر ، ایسی جوانی پر جو جوانی کے
نشے میں سینکڑوں نشے اپنا لیتے ہیں اور خود نشے میں دھت ہوتے ہیں اور انکے
پیارے ان کو دیکھ دیکھ کر کڑھتے ہیں ، پریشان ہوتے ہیں اور روتے ہیں۔ نشہ
جس سے منع کیا گیا و ہ صرف دنیاوی طور پر نقصان دہ نہیں بلکہ اُخروی طور پر
بھی بربادی کا باعث ہے جو گناہ ہے۔ قرآن و حدیث میں شراب کی ممانعت اور
حدیث میں مطلق نشے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اہلِ عرب شراب کے عادی تھے اور
شراب انکے لیے لازم و ملزوم تھی لیکن وہ لوگ بعد ایمان اسلامی طور و طریقے
کے پیروکار ہو گئے۔ ابتداً اہل عرب کو صرف نماز کے اوقات میں شراب سے منع
فرمایا گیا۔
ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ (سورۃ
النساء)
بعد میں جب اہل عرب اسلامی شعار کے عادی ہونے لگے تو ’’ کل مسکر‘‘ سے مطلق
حرام کر دیا گیا۔ یہی نہیں عادت اہل عرب کی وجہ سے مطلق حرام کے بعد شراب
بنانے والے برتنوں کا استعمال تک حرام کر دیا گیا تھا۔ کہ برتن دیکھ کر ان
کو یاد نہ آئے اور وہ شراب کی طرف نہ لوٹ جائیں۔ اس دور میں شراب کے
استعمال کے لیے جنکے نام ’’د باء ، حلتم ، مزفت اور تقیر‘‘ تھا وباء اور
حلتم شراب رکھنے کے لیے اور مزفت اور نقیر پینے کے لیے مستعمل ہوتے تھے
لیکن بعد میں برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی گئی تھی کہ ’’ حدیث کریمہ
میں ہے کہ حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم
کو برتنوں سے منع کیا تھا مگر برتن نہ کسی چیز کو حلال کرتا ہے نہ حرام، ہر
نشے والی چیز حرام ہے۔‘‘ (صحیح مسلم شریف)
یہ تو طے ہے کہ نشہ حرام ہے یہ الگ بات ہے آج کے دور میں اس کو مختلف نام
دے دئیے گئے ہیں اور یہی بات علم غیب رسول اللہ ﷺ نے 1400 سال قبل دے دی
تھی ۔
حضرت ابو مالک شعریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے
سنا ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے اس کا نام کچھ دوسرا رکھ لیں
گے۔ (ابو داؤد ، ابن ماجہ)
یہ وہ علم غیب تھا جسکی اطلاع حضور اکرم ﷺ نے دی اور بے شک بالکل درست
ہوئی۔آج شراب حلال سمجھ کر پی بھی جاتی ہے اور مختلف ناموں سے بھی پکارا
جاتا ہے جیسا کہ وہسکی ، وائن، بیئر ، کچی شراب اور خشک شرابوں میں آج کل
کے نشے افیون ، براؤن پاؤڈر، پیپر ، ڈرگز ، شیشے ، اسپیشل سگریٹ اور سگریٹ
، بھنگ وغیرہ سب اس نشے میں آ گئے۔ شرعی طور پر انگوری شراب کا ایک قطرہ
بھی حرام ہے اسکے علاوہ خشک شراب جوار وغیرہ اگر نشہ دیں تو حرام ہیں۔ دورِ
جاہلیت میں اہل عرب اندھیروں سے اجالے کی طرف آئے تھے۔ کافر گھرانے میں
آنکھ کھولی پھر ایمانِ شریعت اپنائی۔ شریعت کے احکام کو اپنایا۔ اسلامی
شعار کو پہچانا اور گناہ ترک منکر ہوئے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کی
نسل مسلم گھرانے میں آنکھ کھولنے کے باوجود اسلام اور اسلامی شریعت سے رو
گردانی کر کے اپنے آپ کو تباہ کر رہی ہے جبکہ ہم لوگوں کے پاس تو قرآن و
حدیث کی صورت ہدایتِ مشعل موجود ہے تو پھر کیوں آج کی نوجوان نسل بھٹک گئی
ہے؟ والدین کی دی گئی بے جا آزادی سے یا میڈیا کی دکھائی بے راہ روی سے یا
پھر خود کا بنایا ہوا میڈیا اور اس کی تعلیم، کلام باری تعالیٰ اور قرآن کی
تعلیم پر حاوی ہو گیا۔ افیون، بھنگ ، چرس، شیشہ ، سگریٹ مستقبل کی بقاء کے
لیے کام کر رہی ہے یا بربادی ک لیے؟ لڑکے ہی نہیں لڑکیان تک اس نشے جیسی لت
میں مبتلا ہیں اور پھر اس ایک نشے میں ان کا کتنا کچھ برباد ہو جاتا ہے
جسکا اندازہ انہیں بہت دیر سے ہوتا ہے۔
کالجز سے یار کلب تک کے سفر ہو جاتے ہیں۔ انتظامیہ اور عملہ نا جانے کہاں
مصروف ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہی شیشہ ، سگریٹ ، اسپیشل سگریٹ سے لطف
انداز ہوا جا رہا ہوتا ہے اور وہی انتظامیہ جو فیسز لیتے وقت "Be Punctual,
Be Alert" کا نمونہ نظر آتی ہے۔ خدا جانے اس وقت جب طالب علم اپنے ہوش کو
دھوئیں کی نظر کر رہے ہوتے ہیں، اپنی فرض شناسی اور ذمہ داری کہاں رکھ کر
بھول جاتے ہیں اور ان کی فرض شناسی کو چھوڑیں کیا آج کی اولاد کا بھی یہی
فرض رہ گیا ہے کہ اپنے عارضی سکون و سُرور و لطف و خوشی کے لیے ماں باپ کو
دُکھ دیں؟ شریعت کی نافرمانی کریں؟
قرآن وحدیث کے فرمان کو فراموش کر دیں اپنی زندگی خود اپنے ہاتھوں ختم
کریں۔ خود بربادی کے دہانے پر چلے جائیں۔ آج کی نوجوان نسل کو یہ سوچنا
چاہیے اگر ماں باپ ٹھیک سے توجہ نہیں دے رہے ہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے
کہ وہ اپنی اولاد کی بربادی چاہتے ہیں اس با ت کا ادراک خود آج کی نسل کو
ہونا چاہیے اور ہماری حکومت ، حکمران ، پولیس ، ان سب کو بجائے کاروبار
کرنے والوں کو سپورٹ کرنے کے انکے خلاف اقدامات کرنا چاہیے تا کہ آج کی نسل
محفوظ ہو سکے اور غلط ہاتھوں میں دے کر خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی بربادنہ
کریں۔ لڑکیاں بھی شیشے کی عادی نہ بنیں۔ ابتداً جو کام صرف شوقیہ کیا جائے
وہ عادت بن جاتی ہے اور بعد میں اس کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔ مشہور کہاوت ہے
کہ انسان اپنی عادت خراب کرتا ہے، پھر عادت انسان کو خراب کرتی ہے۔ شیشے کے
نشے میں بھلے مختلف ذائقہ ہوتے ہیں لیکن نکوٹین کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے
جو کہ جسم کو نقصان پہنچاتی ہے ۔ اسی طرح دیگر چیزیں نقصان دیتی ہیں؛چرس ،
ڈرگز، سگریٹ وغیرہ ۔ شراب کا حکم تو قرآن سے بھی ثابت ہے اور افیون کے بارے
میں علماء فرماتے ہیں:
’’ فیون کے عادی کو کلمہ نصیب نہ ہو گا۔ ‘‘ (دکھ درد بیماریوں کا علاج،
صفحہ نمبر 128) ۔
اب یہ آج کی اس نسل کو خود سوچنا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے اپنے آپ کو بچا
کر دین و دنیا میں سر خرو ہونا ہے یا دنیا و آخرت دونوں تباہ کرنی ہے۔
رب کریم نسلِ شباب کو شعور عطا فرمائے!
آمین! |