عجیب لوگ ہیں دھوکہ اور فریب دینا انہیں برا محسوس نہیں
ہوتا۔ ان مُردہ ضمیروں کو احساس ہی نہیں کہ اپنے چھوٹے اور معمولی فائدے کے
لئے بھی کسی دوسرے کا کتنا نقصان کرتے ہیں، اسے کس کرب اور پریشانی میں
مبتلا کر جاتے ہیں۔ انہیں فقط اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ انجان لوگوں کو
لوٹنے میں انہیں شرم محسوس نہیں ہوتی۔ میں صبح گھر سے یونیورسٹی جانے کے
لئے نکلا، قریبی چوک میں دو بنک ہیں۔ میں رُکا اور ایک بنک کے اے ٹی ایم
(ATM) سے جیب میں رکھنے کے لئے کچھ رقم نکالی۔ واپس گاڑی تک آیا تو ایک
درمیانی عمر کی خاتون گاڑی کے پاس کھڑی تھی۔ بھائی جوہر ٹاؤن یہاں سے کتنی
دور ہے اور کس طرف ہے؟ اس نے مجھ سے سوال کیا۔
میں نے جواب دیا کوئی سات آٹھ کلو میٹر اور اس طرف۔ کہنے لگی، نہیں اس طرف
سے تو میں آئی ہوں۔ میں نے سوال کیا بی بی آپ کہاں رہتی ہیں؟ جواب ملا
اسلام آباد۔ رات بھر کا سفر کر کے تھوڑی دیر پہلے ڈائیوو پر لاہور آئی ہوں۔
رکشہ ڈرائیور کو کہا تھا کہ جوہر ٹاؤن جانا ہے۔ وہ یہاں اُتار گیا ہے کہ
یہاں بہت سے لوکل سواریوں والے رکشہ گزرتے ہیں۔ آپ کو اس رکشہ پر جانا خاصہ
مہنگا پڑے گا۔ آپ بہتر ہے لوکل سواریوں والا رکشہ لے لیں فقط چند روپے خرچ
کر کے آسانی کے سا تھ آپ جوہر ٹاؤن پہنچ جائیں گی ۔ اس نے چھ سو روپے وصول
کئے ہیں اور مجھے یہاں کھڑا کر کے چلا گیا ہے۔یہ ایک سیدھی سادی ڈکیتی ہے ۔
ہر روز ائیر پورٹ، ریلوے سٹیشن اور بسوں کے اڈوں پر لوگ لٹتے ہیں مگر
حکومتی سطح پر کسی کان پر جوں نہیں رینگتی۔
کس قدر زیادتی ہے۔ ایک انجان کو جوہر ٹاؤن کے راستے سے رائے ونڈ روڈ پر
ڈیفنس چوک کے قریب لا کر چھوڑ جانا اور چھ سو روپے بٹور کر حالات کے رحم و
کرم پر چھوڑ دینا اس سے گھٹیا حرکت کیا ہو سکتی ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ بی
بی راستے میں آپ نے چار پانچ کلو میٹر کا فاصلہ جوہر ٹاؤن کے علاقے میں طے
کیا ہے اور اب آپ کو واپس کس طرف اور کدھر جانا ہے؟ مگر مجھے افسوس ہو رہا
تھا، آپ کسی انجان جگہ پر ہوں اور کوئی آپ کے انجان پن کا فائدہ اٹھائے۔
مگر یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ پوری دنیا میں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جو
معمولی لالچ کی خاطر مسافروں کے انجان پن کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
میں چائنہ کے ایک چھوٹے سے شہر میں جہاز کے ذریعے پہنچا۔ ائرپورٹ سے باہر
نکل کر میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی چائنیز میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کو کسی تین یا
چار تارہ ہوٹل میں جانے کا کہا۔ ٹیکسی چل پڑی۔ میں دائیں بائیں دیکھ رہا
تھا۔ کئی ہوٹل گزرے، چلیں کوئی بات نہیں شاید تین یا چار تارہ نہیں ہونگے
یا ڈرائیور کو پسند نہ ہونگے۔ ٹیکسی ڈرائیور عام طور پر اس ہوٹل میں
مسافروں کو لے کر جاتے ہیں جہاں ان کی کچھ انڈرسٹینڈنگ ہوتی ہے، کچھ معاوضہ
مل جاتا ہے۔ چھوٹا سا شہر تھا، ایک سڑک پر گزرتے مجھے محسوس ہوا کہ یہاں سے
پہلے بھی گزرے ہیں۔ ایک ہوٹل نظر آیا اچھا ہوٹل تھا مجھے لگا کہ اس کا نام
میں نے پہلے بھی پڑھا ہے۔ مگر میں چپ رہا کہ ہو سکتا ہے غلط فہمی ہوئی ہو۔
غیر چینی کو چین کی ساری چیزیں ایک جیسی لگتی ہیں۔ پانچ منٹ گزرے تو ہم
گھوم کر پھر اسی سڑک پر تھے۔ میں نے غور کیا، پیسے زیادہ بنانے کے چکر میں
وہ تیسری دفعہ اسی سڑک پر موجود تھا۔ جب وہی ہوٹل جو میں دو دفعہ دیکھے چکا
تھا، سامنے آیا تو میں نے شور مچا کر ٹیکسی کو روکا کہ بس مجھے یہیں رکنا
ہے اور اسے ہوٹل کے اندر لے گیا۔ سامان اٹھایا اور ہوٹل کے چوکیدار کو
اشارے سے کہا کہ اسے لابی میں ریسیپشن کاؤنٹر (Reception) پر لے آئے۔
چائنہ میں انگریزی بہت کم لوگوں کو آتی ہے، مگر تمام ہوٹل جہاں غیر ملکی
ٹھہر سکتے ہیں ان کے ریسیپشن کاؤنٹر پر ایک بندہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو
انگریزی جانتا ہے۔ میں نے اس انگریزی بولنے والے کو اپنا پاسپورٹ دیا کہ
مجھے ایک کمرہ دے اور دوسرا پولیس کو بلائے۔ اس نے پریشان ہو کر پوچھا کہ
کیا ہوا؟ میں نے ساری بات بتائی۔ اس نے چیخ چیخ کر ڈرائیور کو گالیاں
نکالنی شروع کر دیں۔ دو تین چوکیدار آگئے انہوں نے اسے پکڑ کر ایک طرف بٹھا
لیا اور مجھے پوچھا کہ کہاں سے کہاں تک آپ نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے۔ میں
نے بتایا کہ ائرپورٹ سے یہاں تک۔ انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں تو پولیس کے
سپرد کر دیتے ہیں اور اگر معاف کر دیتے ہیں تو فقط اتنا کرایہ جو اصل میں
بنتا ہے وہ دے دیں۔ میں نے وہ کرایہ دیا اور کمرے کو چلا گیا،مگر چوکیداروں
نے اسے چھوڑنے سے پہلے کافی رُسوا کیا۔
ایک اور واقعہ چین کے مشہور شہر شین ژن میں پیش آیا۔چین میں ٹیکسی کا کرایہ
شہروں کے حساب سے ہے۔ جتنا بڑا شہر، کلومیٹرکا کرایہ اتنا زیادہ۔ چھوٹے
شہروں میں کرایہ چار یا پانچ یوان فی کلومیٹر ہے۔ جب کہ شنگھائی، بیجنگ ،
گوانگ ژو اور شین ژن میں دس یوان فی کلومیٹر ہے۔ میں شین ژن کے ایک شاندار
ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ہوٹل والے روڈ پر بڑی بڑی اونچی بلڈنگز تھیں جن
میں کاروباری دفاتر تھے۔ میں ساتھ میری بیگم بھی تھی۔ ہم ایک کاروباری دفتر
جانے کے لئے ہوٹل سے نیچے اُترے۔ میرے پاس اس فرم کا کارڈ تھا جس کے دفتر
ہمیں جانا تھا۔ ہوٹل کے احاطے میں چند ٹیکسیاں کھڑی تھیں۔ میں نے ایک ٹیکسی
والے کو وہ کارڈ دکھایا۔ اس نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ ہم دونوں ٹیکسی میں
بیٹھے تو اس نے میٹر آن کیا اور ہمیں باقاعدہ دکھایا۔ میں نے ٹھیک ہے کا
اشارہ کیا۔ ٹیکسی چل پڑی، مگر یہ کیا کہ ہوٹل سے باہر نکل کر وہ بجائے
ٹریفک کی روانی کے ساتھ چلنے کے فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے مخالف چلنے
لگا۔ ہوٹل کی بیرونی دیوار ختم ہوئی تو ساتھ ایک اونچی سی خوبصورت بلڈنگ کی
باؤنڈری وال شروع ہو گئی۔ ایک دم گاڑی اس بلڈنگ کے گیٹ میں داخل ہو گئی۔
ٹیکسی ڈرائیور نے اشارہ کیا کہ بھائی اُترو آپ کی منزل آگئی۔ میں اور میری
بیگم مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے پرس سے دس یوان نکالے
اور ڈرائیور کو پیش کر دئیے، اس لئے کہ جو بھی تھا وہ بیس پچیس قدم کا
فاصلہ ہم انجان لوگوں نے ٹیکسی میں طے تو کیا تھا۔ |