زندگی گھوم کے پھر تیری گلی میں پہنچی ؛تحریر: احسان سیلانی

زندگی گھوم کے پھر تیری گلی میں پہنچی احسان سیلانی (فکری ،عسکری اور انقلابی ارتقاءکا جائزہ )

جنگ اور امن

(فکری ،عسکری اور انقلابی ارتقاءکا جائزہ )
قُلْ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرْضِ ثُمَّ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عٰقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیۡنَ ﴿نمل﴾
: تم فرمادو زمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا ۔
اس آیت میں لفظ ''جھٹلانے والوں''سے جو Senseمیری سمجھ میں آرہی ہے وہ ہے ''خود پرست لوگ ''وحی کو چھوڑ کر اپنے تجربے کرنے والے ۔وحی کو جھٹلانے والے ۔وہ شخص کتنا احمق ہوگا جسے عرقِ گلاب مل جائے لیکن وہ اُسے نظرانداز کر کے خود گلاب اُگائے اور پھر ان گلابوں سے عرق کشید کرنے کی محنت اور زحمت اُٹھائے ۔ہوسکتاہے کہ وہ اتنی محنت کے باوجود عرق تک نہ پہنچ سکے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ۔زمین پر بطور ِ امتحان ایک محدود مدت کیلئے بھیجا۔مالک نے کرم کیا اورانسان کو راستہ دکھانے کیلئے اپنی رہنمائی نازل کی ۔جنہوں نے اس رہنمائی کو قبول کیا وہ کامیاب ہوگئے اور جنہوں نے اس سے منہ موڑا ،ہلاک ہوگئے ۔انسان کے اندر نرگسیت narcissism،انائیت igoismاور خبط ِ عظمت نے وہ غرور بھر دیا کہ الامان ۔انسان نے خود ہر کام کے حل نکالنے شروع کردیے اور خدا کی ہدایات کو نظرانداز کردیا ۔اس نظراندازی کے پیچھے ہلاکت کی حد تک اُس کی خود اعتمادی کارفرماتھی۔جو آخر کار سُراب ثابت ہوئی ۔ ہماری موجودہ تہذیب کاحال ایساہی ہے ،اس تہذیب نے درستگی کی نیت سے غلطیاں کیں اور پھر غلطیوں کا ایک سلسلہ چل نکلا ۔پھر ان نام نہاد دانشوروں اور عسکریوں نے سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی ۔آخر کار گدھے کی طرح چکر کاٹ کے وہیں اپنے اصطبل تک پہنچے ۔اور اعتراف کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی ۔اسی لیے اللہ رب العزت نے ان منکرین ِ خدا کو احمق ،بیوقوف اور جانوروں سے بدتر کہا ہے ۔گدھے کی دم میں کانٹا لگ جائے تو اُس سے نجات حاصل کرنے کیلئے اچھلتاکودتاہے ،اسی اچھل کود میں کانٹا اور گہرا چلا جاتاہے۔مجھے سب سے زیادہ تعجب اس بات پرہے کہ ہر بات کی جستجو کی جاتی ہے ،چیونٹیوں کے علم سے لیکر ستاروں کے علم تک سب کچھ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن خدا کے بارے میں کوئی جستجو نہیں ۔گویا خدا کے وجود کا انکار نفس ِ امارہ کی گھُٹی میں شامل ہے ۔
فساد فی الارض کے میکانزم پر غور کرنے سے انسان اس نتیجے پرپہنچتا ہے کہ اس کا سبب ''انکارِوجود ِخدا'' ہے ۔انسان خدا پرست ہوجائے تو فساد فی الارض ختم ہوجائے گا ۔فساد کیا چیز ہے ؟ انصاف کو پامال کرنا ۔انصاف قائم کرنے کیلئے جنگ بھی کرنا پڑتی ہے ۔اسلام کا نظریہ ءجہاد انصاف قائم کرنے کا نام ہے کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے ۔جبکہ اس کے برعکس مادیت اور جہالت کی جنگوں کے نتائج ہمیشہ انصاف کے قتل پر ختم ہوئے اور انصاف کے قتل نے نہ ختم ہونے والے فتنات کو جنم دیا ۔فتح مکہ اگر نفسی اور مادی جنگ ہوتی تو سارے دشمن ختم کردیئے جاتے ۔پیغمبر نےایسا نہیں کیا بلکہ فتح کے بعد معافی ،امن اور انصاف کا اعلان کیا ۔اسلام کا عسکری نظریہ ''جنگ برائے امن وانصاف''ہے جبکہ دنیا کی اکثر جنگیں جو امن اور انصاف کا علم بلند کرکے لڑی گئیں ۔بددیانتی کی وجہ سے انتقام در انتقام میں تبد یل ہوتی چلی گئیں ۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ( 11 ) أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ( 12 )
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔یقناًیہی مفسد ہیں لیکن نہیں جانتے
کلاسیوٹزکا جنگی نظریہ
کارل کلاسیوٹز(1780جرمنی ) مغربی عسکری تاریخ کا بہت بڑا نام ہے ۔وہ اپنی کتاب on war ‘’''میں اپنا نظریہ جنگ رقم کرتاہے ''جنگ تشدد کا ایسا عمل ہے جس سے ہم اپنے مخالف پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔تشدد ایک ذریعہ ہے اور دشمن کی جبری شکست آخری مقصود ہے ۔تشدد کو آخری حدوں تک لے جانا چاہیے اور دشمن کو غیر مسلح کرنا یا اسے قو ت سے محروم کردینا جنگ وجدل کا مقصد ہونا چاہیے ''۔۔۔عسکری نظریات کے ضمن میں کلاسیوٹز کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے جنگ اور سیاست کے باہمی تعلق کو نمایاں کرنے پر زور دیا ۔وہ کہتاہے ۔جنگ ۔۔سیاسی پالیسی کی ایک انسٹرومنٹ ہے ''۔
(ترجمہ :لیفٹیننٹ کرنل غلام جیلانی )
کلاسیوٹز کہیں بھی جنگ کے عالی مقاصد کا ذکر نہیں کرتا۔مغربی جنگوں کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔یہاں انسانی عقل نے عسکری مقاصد طے کرنے میں وحی کی بجائے اپنی عقل کو استعمال کیا تو فساد فی الارض کا باعث بن گئی ۔کلاسیوٹز پر بات آگے چل کر ہوگی ۔
کارل مارکس ،لینن اور انقلاب ِ روس
وحی انسان کو فطرت سکھاتی ہے ۔کارل مارکس نے سوشل سائنسزمیں اپنی عقل کو استعمال کیا ۔سوشیالوجی میں وحی کے نور سے مددلیے بغیر عقل کی بنا پر نظریہ دیا کہ وسائل میں سب کوبرابرکردیاجائے تو معاشرتی استحکام قائم ہوسکتاہے۔اُس کا یہ نظریہ دولتمندوں کے مظالم کا ردِ عمل تھا ۔اسلا م کا معاشرتی نظریہ یکسر مختلف ہے ۔اسلام کسی طاقتور کو استحصال کی اجازت نہیں دیتا ۔دوسری طرف دولت اور طاقت کے حصول کو محدود اور مشروط بھی نہیں کرتا۔اسلامی معاشرے میں رزق ِ حلال سے کوئی شخص جتنا چاہے امیر ہوجائے لیکن اس امیر کو حق نہیں کہ وہ غریبوں کا استحصال کرے ۔اسلامک سوشیالوجی عربی گھوڑے کو پابند نہیں کرتی کہ وہ گدھے کیساتھ مساوات کیلئے گدھے کی رفتار سے لازمی چلے ۔اس غلط معاشرتی نظریہ کے نتیجہ میں لینن جیسے لوگ پیدا ہوئے ۔جنہوں نے اپنے فسادی نظریہ کو جنگ کے ساتھ جوڑ دیا اور یوں ''اصلاح کا پرچم ''بلند کرنے والوں نے ''بلیک بک آف کمیونزم ''کے مطابق سو ملین لوگوں کو صفحہ ءہستی سے مٹا دیا ۔آپ سائنسی طورپربھی یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کے مطابق یہی لوگ فساد کرنے والے تھے ۔
1918 ء میں جنگ عظیم اول ختم ہوئی ۔عارضی وقفہ بیس سال کا تھا ۔لینن نے وقفہ امن کو تخریب کاری کیلئے استعمال کیااور لینن پر ہی منحصر نہیں اس جنگ کے فاتحین نے بھی امن کو دھونس اور دھاندلی کی انسٹرومنٹ کے طور پر استعمال کیا ۔
لینن کی فکری قلابازیاں
لینن کے ''انقلاب اکتوبر'' کے بعد نجی املاک ختم کردی گئیں ۔تمام زمینیں عوام کی ملکیت قرار پائیں ۔کارکنوں نے فیکٹریوں پر قبضہ کرلیا ۔تمام بینکوں کو قومیا لیا گیا ۔سٹاک مارکیٹیں توڑدی گئیں ۔ریاستی قرضے منسوخ تصور کیے گئے ۔مزدوریاں اور تنخواہیں500روبل ماہانہ تک بڑھا دی گئیں ۔فوجداری کی جگہ کارکنوں اور مزدوروں کے ٹریبونل قائم کیے گئے ۔کارکنوں کو مسلح کردیا گیا ۔یوں لینن نے مارکسزم کے نعرے بعد کامیابی حاصل کرلی ۔اب ذرا دلچسپی کی بات ملاحظہ فرمائیں ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وی ۔ایل بورین کہتاہے ''یہ جو لینن نے طبقہ مزدوراں کوطبقہ حکمراناں میں تبدیل کرنے کی بات کی تھی تویہ ایک غیر ذمہ دارانہ بات تھی''۔پہلی فکری قلازی۔کسانوں کو زمینیں ملیں کہ محنت کرکے منافع بھی کمائیں ۔لیکن یہ منافع کہاں سے ملتا؟ فیکٹریاں چلانے والے مالک ہی نہ رہے ۔چنانچہ بجائے اس کے پیداوار تیزی سے بڑھتی ،یہ تیزی سے گھٹنے لگی بلکہ بالکل ختم ہوکے رہ گئی ۔جب فیکٹریوں کی پیداوار گری اور فیکٹری مزدوروں کے پاس کسانوں کو دینے کیلئے کچھ نہ رہا تواناج اور غذا کون دیتا اور کیسے دیتا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ شہروں میں قحط پڑگیا اور کارکن فیکٹریوں سے بھاگنے اور دووقت کی روٹی پید ا کرنے کیلئے کھیتوں کا رخ کرنے لگے ۔لینن نے فکری قلابازی کھائی اور ایک پمفلٹ لکھا جس کا عنوان تھا ''مقابلے کی فضا کیسے پیدا کی جائے ''؟اس میں کسانوں کو مشورہ دیا کہ فیکٹریوں کی پروڈکشن اور تقسیم کا نظام خود سنھبالیں اور کنڑول اور اکا و ء نٹنگ کے نظام کو خود سنھبالیں۔لینن کی دوسری فکری قلابازی ۔ ''چارماہ بعد ہی لینن کی لے بدلنے لگی ۔28 اپریل 1918ء کو اس نے اعلان کیا :معلومات ،علم و آگہی اور ٹیکنالوجی اور دوسرے تجربات کے بہت سے شعبوں میں ماہرین کے بغیر سوشلز م کی طرف سفر کرنا ممکن نہیں ہوگا۔یہ ماہرین امیر طبقہ میں موجود ہیں چنانچہ ہمیں ان کی مدد لینا پڑے گی ''۔ آخر کار 1921ءکے موسم ِ بہار میں لینن کو ہوش آیا ۔8 مارچ 1921ء کو اس نے پارٹی کی دسویں کانگریس طلب کی جس میں دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کی خاطر زرعی شعبے میں اب تک جاری کئے جانے والے سارے کے سارے فرمان کالعد م قراردئیے ۔کسانوں کو اجازت دی کہ وہ نجی کاروبارکرسکتے ہیں اور جس قیمت پر چاہیں اپنی پیداوار فروخت کرسکتے ہیں ۔اس پالیسی کو لینن نے نیواکنامک پالیسی نام دیا ۔۔یہ پالیسی گویا سوشلزم سے پسپائی کی پالیسی تھی ۔تیسری قلابازی ۔لینن نے اپنی نیو اکنامک پالیسی کو ریاستی سرمایہ کاری کے مساوی قرار دیا ۔لینن نے کہا''اگرچہ یہ سوشلزم کی ایک صورت نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی سرمایہ کاری کی صورت ہے لیکن روس کیلئے یہ صورت حال زیادہ سازگار اور زیادہ پسندیدہ ہوگی ۔۔بھاری صنعتوں کی صورت ِ حال بہت سنگین رہی یہ ریاست کی اجارہ داری monopolyمیں رہیں ۔اس نے اپنا آخری آرٹیکل جو 2 مارچ 1923ء کو تحریر کیاگیا اور جس کا عنوان اس نے better fewer but better رکھا ،وہ بہت آزردہ خاطر نظر آیا ۔بے وقوفی اور حرام زدگی کی انتہا دیکھئے سو ملین لوگوں کو مروا کر دوبارہ گدھے کی طرح اُسی مرکز کی طرف دوبارہ پلٹ رہاہے ۔اس کے بعد سٹالن 1879ء تا1953ء ) نے نظام کو دوبارہ آمریت کی طرف موڑنے کیلئے لینن کے پرانے ساتھیوں کی ایک پوری کھیپ ختم کرنا پڑی ۔اور کام یہاں سے شروع ہوا تھا دس کروڑ لوگ صفحہ ء ہستی سے مٹا کر وہیں کا وہیں آگیا ۔گویا ان نام نہاد دانشوروں نے اپنے فکری تجربوں کیلئے دس کروڑ لوگوں کی زندگیاں ختم کردیں ۔قرآن کی آیت پھر یہاں نقل کرتاہوں
قُلْ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرْضِ ثُمَّ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عٰقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیۡنَ ﴿نمل﴾
: تم فرمادو زمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا ۔
یورپ کی جنگیں اور فکری و نظریاتی غلطیاں
یورپی عسکری مورخ کلاسیوٹز نے جنگ کو ایک Political instrument کانام دیا ۔یورپ کی جنگوں کا بغور جائزہ لیاجائے تو جنگ کو سیاسی انسٹرومنٹ کے طور پر ہی استعمال کیا گیا ۔یہاں بھی انسان نے وحی کے نور سے منہ موڑ کر ہلاکت اور تباہی کے ناقابلِ بیان مناظر دیکھے ۔اور قرآنی آیت کے مطابق ان جھٹلانے والوں کا برا انجام ہوا ۔ترقی کی کوئی نئی راہ نہ نکلی ۔انسان تباہ ہوکر پھر اُسی نکتے پر آیا یہاںسے اس نے سفر شروع کیاتھا ۔انسان نے انصاف اور امن کے مقصد کو چھوڑ کر جنگ کو محض انتقام اور ملک گیری کی ہوس کا ذریعہ بنالیا ۔یور پ میں پہلے مطلق العنا ن بادشاہ اپنی ہوس ِ اقتدار کیلئے اپنی اقوام کو جنگ کا ایندھن بناتے رہے ۔یہ عسکری تاریخ اور قتل و غارت گری کا ایک طویل باب ہے ۔یورپ میں یہ آگ فرانس کے انقلاب سے شروع ہوئی ۔اس آگ کے پیچھے بھی فکری و نظریاتی قوت موجود ہے ۔جان جیکوس روسوRousseau(1712ء تا 1778ء) نے اپنی تصنیف Social Contract میں یہ لکھا کہ تمام انسان برابر ہیں ۔دراصل عیسائیت کی بنیاد بھی یہی مقولہ ہے ۔اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں جن روسونے یہ کہا کہ ''انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن آج وہ ہر جگہ پابہ زنجیر ہے تو اس فقرے نے گویا آگ لگادی اور '' عقل ودانش کا ایک آتش فشاں پھٹ پڑا۔انقلاب ِ فرانس اسی عقل و دانش کا نتیجہ تھا اور اس کے نتیجے میں یورپ میں نہ ختم ہونے والی جنگوں کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا ۔لاکھوں افراد لقمہ ء اجل بن گئے ۔
٭ 14 جولائی 1789ء کو پیر س کے بے لگام عوام نے بسٹائل کے قلعہ پر دھاوا بول دیا اور محافظوں کو قتل کردیا
٭ 20 اپریل 1792ء کو فرانس نے آسٹریا کے خلاف اعلان ِ جنگ کردیا ۔
٭ محدود جنگ کے قدیم اور لامحدود جنگ کے جدید طریقہ جنگ کا پہلا ٹاکرا 20 ستمبر 1792ء کو والمی Valmyکے مقام پر اس وقت ہوا جب جرمنی کے چارلس ولیم فریڈرک اور فرانس کے ڈوموریز آمنے سامنے ہوئے ۔
٭ اگست 1793ء کے بعد جنگ کا دائرہ پھیلتا چلا گیا حتی کہ یہ ٹوٹل وار تک جاپہنچا ۔پوری کی پوری انسانی آبادیوں کو ذبح کردیا گیا ۔150 سالوں میں جبری بھرتی نے دنیا کو ایک بار پھر قبائلی بربریت کے عہد میں دھکیل دیا ۔
٭ نپولین بونا پارٹ (1769ء تا 1821ء)۔نپولین کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ پرلے درجے کا انا پرست تھا ۔یہ انقلاب ِ فرانس کی راکھ سے اٹھا تھا ۔پہل حملہ اٹلی پر کیا ۔نپولین کی تمام جنگوں کے دوران انگلینڈ اس کا سب سے بڑا حریف رہا ۔انگلینڈ نے یورپ کےتمام اتحادیوں کو نپولین کےخلاف متحد کیا اور ایک کے بعد دوسرا اتحاد قائم کیا ۔فرانس اور انگلینڈ کی چپقلش صنعتی انقلا ب کی شروعات کی ان اقدار کا مسئلہ تھا جو ایک کی زندگی اور دوسرے کی موت کا باعث بن سکتی تھیں ۔خوشحال اور طاقتور رہنے کیلئے انگلستان کو اپنا تیار شدہ مال بیرونِ ملک بھجوانا اور فروخت کرنا تھا ۔
٭ اُدھر امریکہ میں سول وار 1861ء تا 1865ء لڑی گئی جس کے عالمی جنگوں پر فیصلہ کن نتائخ مرتب ہوئے
ملک گیری کی ہوس اور جنگ ِ عظیم
جنگ عظیم یورپین ممالک کے توسیع پسندانہ عظیم سے جنم لیتی ہے ۔یورپ کے آٹھ ممالک برطانیہ ،جرمنی ،فرانس،اٹلی ،پرتگا ل،ہالینڈ ،سپین ،بیلجم جن کا کل رقبہ تقریبا ًدس لا کھ بنتا تھا انہوں نے دوسروں کی سرزمین چھین کر اپنے ممالک کا رقبہ ایک کروڑ نو لاکھ مربع کلو میٹر تک لے گئے ۔برطانیہ نے ہندوستان کیطرف سفر کو محفوظ بنانے کیلئے نہر سویز مصر سے لی اور آگے بڑھ کر سوڈان پر قبضہ کرلیا ۔روس اور جاپان نے چین کے علاقے ہتھیالیے ۔فرانس ،جرمنی افریقہ کی طرف چلے نکلے ۔ان توسیع پسندانہ عزائم کی آخری تین جنگیں
امریکہ اور سپین کے درمیان 1898ء
برطانیہ اور بوئیر کی جنگ 1899تا 1902ء
روس اور جاپان کی جنگ 1904ء تا 1905
پھر ان ممالک کے شکار کی تقسیم پر جھگڑے شروع ہوئے جس کے نتیجے میں دو بلاک بن گئے ۔
برطانیہ ،فرانس اور روس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرا بلاک ۔۔جرمنی ،آسٹریااور اٹلی
یہیں سے عالمی جنگ کی ابتداء ہوئی ۔1914ء میں جنگ اول کے دو معرکوں کو صرف دیکھ لیجئے ۔21جون 1916ءمعرکہ وردون ۔جرمنی کے دولاکھ اکاسی ہزار ،فرانس کے تین لاکھ پندرہ ہزار ۔دوسرے معرکہ ''سومے کی لڑائی ''برطانیہ کے چار لاکھ انیس ہزار چھ سو چون ،فرانس کے ایک لاکھ چورانوے ہزار چار سو اکاون اور جرمنی کی پانچ لاکھ سپاہ قتل ہوئیں ۔جرمنی اور اس کے اتحادی اقتصادی ناکہ بندی سے شکست خوردہ رہے ۔جنگ ِ عظیم دو م اسی کی توسیع تھی ۔جب اٹیم بم گرانے جیسا ہولنا ک واقعہ پیش آیا ۔اس کے نتیجے میں کچھ بھی حاصل نہ ہو ا سوائے ایک عظیم تباہی کے ۔پھر قرآن کی آیت نقل کررہا ہوں ۔
قُلْ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرْضِ ثُمَّ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عٰقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیۡنَ ﴿نمل﴾
: تم فرمادو زمین میں سیر کرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا ۔
٭٭٭٭
اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان نے وحی کے نور سے محروم ہوکر سوائے ہلاکت کے کچھ نہیں دیکھا ۔اگر اب بھی وحی کے نور سے عالمی معاملات کو نہیں دیکھے گا تو تیسری اور آخری عالمی جنگ کے تباہی سے دوچارہوگا ۔اسلام کا نظریہ جنگ کا مقصد امن کا حصول ہے جبکہ مادی اور سیاسی جنگوں کا مقصد حتمی تباہی ۔زندگی بار بار وہیں آتی ہے جہاں فطرت ہے ،فطرت سے دو رہوکر تباہی اُس کا مقدر ہے ۔انسانیت کا خیر خواہ وہ ہے جو انسانیت کو فطرت کی راہ کی طرف لے جائے اور یہ راہ خالق ِ کائنات کے در پر پہنچاتی ہے ۔
 
Ahsan Sailani
About the Author: Ahsan Sailani Read More Articles by Ahsan Sailani: 8 Articles with 16654 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.