اب وقت شہادت ہے آیا ........ اﷲ اکبر

بھارت نے کشمیر کو ہاتھوں سے پھسلتا ہوا دیکھ کر ایک بار پھر جنگ کے بادل برصغیر پاک و ہند کے آسمان پر منڈلا دیئے ہیں ۔ بھارت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹر پر حملہ آور ہونے والے مجاہدین کے کیمپ کامیابی سے تباہ کردیئے ہیں جبکہ پاکستان اوربین الاقوامی میڈیا بھارت سے یہ سوال کررہا ہے کہ جہاں اس نے خود ساختہ سرجیکل اسٹرئیک کیا ہے آخر وہ ہے کہاں ۔ بی بی سی کا یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ جب ہر پانچ سو میٹر کے فاصلے پر دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے بیٹھی موقعہ کی تلاش میں ہیں پھر بھارتی فوج کاپاکستانی علاقے میں گھس آنا اور من پسند کاروائی کرکے واپس لوٹ جانا کیسے ممکن ہے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ 1965ء کی جنگ میں بھی بھارت نے جھوٹ بولنے کے عالمی ریکارڈ قائم کیے تھے ۔باٹا پور سے ڈبل ڈیکر بس پکڑ کر امرتسرکے عوام کو یہ تاثر دیا تھا کہ لاہور پر بھارت کا قبضہ ہوچکا ہے لیکن جب بھارتی فوج کو منہ کی کھانی پڑی کہ خود تاشقند پہنچ کر جنگ بندی کی اپیل کی تھی ۔ اس کے باوجود کہ وہ حملہ اچانک تھا لیکن اس وقت صورت حال یکسر مختلف ہے دونوں ملکوں کی افواج ہائی الرٹ ہیں ۔ براہ راست جنگ تو ہوسکتی ہے لیکن سرجیکل اسٹرئیک کا امکان ناممکن ہے ۔ پاکستان کو بھی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف کنٹرول لائن پر وقفے وقفے سے ایسی کاروائیاں کرناہوں گی جس سے بھارتی فوج کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچے اوراس کے ساتھ ساتھ اپنی بین الاقوامی سرحد پر دفاعی تیاریوں کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانا ہوگا کیونکہ بھارت کنٹرول لائن پر شکست کھانے کے بعد لاہور پر حملہ آور ہونے کا ضرور سوچے گا۔ اگر ہم نے خوش فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی سرحد کو کھلا چھوڑے رکھا تو اس بار حالات مختلف بھی ہوسکتے ہیں ۔ دفاعی تیاریوں کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم پاکستان کو سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے سربراہان سے خود ٹیلی فون پر یا بذات خود جاکر وادی کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے دستاویزی ثبوت پیش کریں اورانہیں قائل کرنے کی کوشش کریں کہ اگر حالات مزید خراب ہوئے تو برصغیر پاک و ہند ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے اور یہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے ۔کشمیریوں کو بھی اب یہ بات سمجھ جانی چاہیئے کہ بھارت اتنی آسانی سے آزادی نہیں دے گا جب تک کہ وہ خود مسلح ہوکر بھارتی فوج کی چھاؤنیوں پر حملہ آور نہیں ہوں گے اورچھاپہ مار کاروائیاں کرکے کشمیر میں بھارتی فوج کی نقل و حرکت نہیں روکیں گے۔اب جلسے اور جلسوں کا وقت گزر چکا ہے ۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔ اس طرح کشمیری اور پاک فوج دونوں مل کر بھارتی فوج کو سینڈوچ بنا سکتے ہیں جس طرح مشرقی پاکستان میں بھارت نے اپنی مکتی باہنی تنظیم کے سہارے پاکستانی فوج پر چھاپہ مار کاروائیاں کرکے نقل و حرکت مشکل بنا دی تھی ۔ پاکستان تو کشمیر کی آزادی کے لیے آخری حدتک پہنچ چکا ہے اب کشمیریوں کو مسلح جدوجہد کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئے ۔ شاید یہی راستہ ان کی آزادی کی طرف جاتاہے ۔ پاکستانی عوام زبانی کلامی دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن اب اپنی احتجاجی تحریکوں کو ختم کرتے ہوئے قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی قائدین اپنی سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اندرونی محاذ پر عوام کو کچھ اس طرح متحرک کریں کہ پاک فوج کے وہ افسر اور جوان جو اس وقت شہروں میں سیکورٹی ڈیوٹی پر مامور ہیں وہ ڈیوٹی 1965ء کی جنگ کی طرح نوجوان سنبھال لیں تاکہ فوج مکمل یکسوئی کے ساتھ دفاع وطن کے تقاضے پورے کرسکے ۔ افسوس کہ حالیہ بھارتی یلغار کے بعد نہ تو عمران خان نے اپنے احتجاجی جلسہ منسوخ کرنا ضروری سمجھا اورنہ ہی ڈاکٹر طاہر القادری کی زبان سے پاکستان کے حق میں اچھے الفاظ نکلے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری فرماتے ہیں کہ بھارتی حملہ خود حکومت کا رچایا ہوا ڈرامہ ہے۔ اس بیان سے ان کی ذہنی سطح کا اندازا لگایا جا سکتاہے ۔ان غیر ذمہ دار سیاسی قائدین کی جانب سے کبھی پاکستان کے بارے میں کلمہ حق نہیں نکلا بلکہ ان کی زبانیں ایسے الفاظ اگلتی ہیں جس سے قومی یکجہتی کی فضاکو ناقابل تلافی نقصان پہنچتاہو۔تاریخ گواہ ہے کہ منتشر مزاج قومیں میدان جنگ میں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں ۔اس کے باوجود کہ پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اور افسر اور جوان جرات اور بہادری میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہے لیکن اس وقت فوج کو قوم ٗ سیاسی قائدین ٗ پولیس اور بطور خاص نوجوان نسل کی مدد کی اشدضرورت ہے ۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو اپنی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے دہشت گردوں ٗ تخریب کاروں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کے لیے فوج کے سہارے کے بغیر کارکردگی دکھانا ہوگی ۔ زمانہ جنگ میں سول ڈیفنس کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے اس شعبے کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر جنگ ہوتی ہے تو وہ عوام کو بروقت اور صحیح معلومات و رہنمائی فراہم کرے۔موت کا مزہ تو ہر جاندار نے چکھنا ہے بھر موت کا کیا ڈر۔اب تو دو ہی راستے ہمارے پیش نظر ہونے چاہیئں پہلا شہادت اس کے بعد زندگی۔ حضرت خالد بن ولید ؓ عمر کے آخری حصے میں تھے ٗ مزاجی پرسی کے لیے جو بھی آتا وہ آپ کی فتوحات اور بہادری کی تعریف کرتا۔ آپ ؓ نے فرمایا میری تمام فتوحات لے لیں لیکن شہادت کی موت دے دیں کیونکہ ایک مسلمان کے لیے شہادت کی موت ہی سب سے بڑا انعام ہے ۔ جونہی شہید کے خون کا ایک قطرہ زمین پر گرتا ہے تو وہ خو د کو جنت میں دیکھتا ہے ۔قرآن پاک کی سورہ انفال کی 49 میں اﷲ تعالی فرماتاہے کہ اگر دشمن تم پر چڑھ ددڑے تو اپنی قلت اور دشمن کی کثرت نہ دیکھو ۔قلیل فوجیں کثیر افواج پر غالب آتی ہیں ۔ایک بار پھر میدان جنگ میں جنگ بدر کا معرکہ برپا ہونے کو ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 661648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.