-انگریزی کا ایک جملہ ہے: Look busy, do
nothing۔ یہ جملہ بلاشبہ ڈی سی او چکوال جناب محمود جاوید بھٹی پر 100 فیصد
درست نظر آتا ہے۔ اُن کی اگر دفتر میں بیٹھ کر پھرتیاں دیکھیں تو ایسے
محسوس ہوتا ہے جیسے چکوال کے سارے کام ٹھیک ہو رہے ہوں۔ چکوال کی عوام کو
کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔ عوام کو اُن سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ مگر حقیقت
میں دیکھا جائے تو ایسا قطعی نظر نہیں آتا۔ میرا چند دن قبل ایک لمبے عرصے
کے بعد چکوال کے مصروف ترین اور قدیم ترین بازار ’’چھپڑ بازار‘‘ سے گذر ہوا
تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بابِ چکوال کے ساتھ راہ داری میں بھی
لوگوں نے اپنی دکانوں کے سامنے پیسے لے کر ٹھیے لگوا لئے ہیں۔ چھپڑ بازار
سے پہلے ہی گذرنا بہت مشکل تھا اب تو جیسے ناممکن ہو گیا ہے۔ مجھے پورا
یقین ہے کہ ڈی سی او چکوال کا ابھی تک چھپڑ بازار کا چکر نہیں لگا ہو گا۔
اصل میں اُن کا بھی قصور نہیں ہے ائیر کنڈیشن والے کمرے سے اُٹھنے کو کس کا
دل کرتا ہے۔ چھپڑ بازار میں ویسے ہی لوگوں کی گرمی بہت زیادہ ہے اور ویسے
بھی اُن کو اس سے کیا لینا دینا، اگر مشکلات آتی ہیں تو لوگوں کو آتی ہوں
گی ان کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں اور اُنہوں نے چند دن پہلے DHQ
ہسپتال میں اچانک دورے کر کے جو فضول مہم شروع کی تھی اُس کے کون سے اچھے
نتائج نکلے ہیں جو وہ چھپڑ بازار کے چکر لگاتے رہیں۔ اگر وہاں مقرر کردہ
دکانوں سے زیادہ دکان کسی نے روڈ پر لگا رکھی ہے تو کسی سرکاری ادارے کے
کسی اہلکار کو کچھ نہ کچھ دے کر ہی ایسا کیا ہو گا۔ چھپڑ بازار کو پیرس
بنانے والے بھی خاموش ہیں؟ چھپڑ بازار میں ٹف ٹائلیں لگائیں گے، اس کو
ایشیاء کا بہترین بازار بنائیں گے اور نکاسی آب کے منصوبے شروع کریں گے اب
تو ایسے اخباری بیانات بھی پڑھنے کو نہیں ملتے۔ چلیں مرچنٹس الیکشن قریب
ہیں پھر نئے انداز میں نئے وعدے کئے جائیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی
شریف انسان چھپڑ بازار سے گذر نہیں سکتا۔ مستورات کے لئے تو انتہا کا طوفان
بدتمیزی دیکھنے کو ملتا ہے۔ خواتین پر آوازیں کسنا، ہلڑ بازی ایک معمول بن
چکا ہے مگر ڈی سی او چکوال نے کون سا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ تحصیل چوک سے
ریسکیو 15 چوک تک دائیں اور بائیں ایک بہت بڑا نالا گذرتا ہے۔ یہ نالہ پیدل
چلنے والوں کے لئے فٹ پاتھ کا کام کر سکتا تھا مگر کیسے کرتا؟ ناجائز
تجاوزات مافیا اس پر بھی قابض ہو چکا؟ ہر دکاندار نے اپنی دکان نالے تک
بڑھا دی ہے، آپ کو دونوں اطراف نالے پر قبضہ مافیا نظر آئے گا۔ ڈی سی او کی
گاڑی میں ہو سکتا ہے ائیر کنڈیشن کی وجہ سے کالی جالی لگی ہوں یا کالے شیشے
لگے ہو اس وجہ سے وہ شاید باہر غور سے نہ دیکھ پائیں ورنہ اُن کا روزانہ
اسی روڈ سے گذر تو ہوتا ہو گا۔ کئی بااثر اور بڑے دکانداروں اور بینکوں نے
اپنے اپنے جنریٹرز باہر لگا رکھے ہیں لیکن عوام کو اگر ان جنریٹروں کی وجہ
سے آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو ڈی سی او کیا کریں؟ اگر تازہ بریانی
اور مٹھائی گھر پر مل جائے تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے؟ جنریٹر باہر
لگتے ہیں لگے رہیں، غریب عوام کا کیا ہے یہ پیدل چلنے والی عوام اگر کسی
رکشے یا گاڑی کی زد میں آبھی جائے تو ملک کا فائدہ ہی ہو گا آبادی میں کچھ
کمی تو ہو گی نا؟ ویسے بھی پاکستان کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے، افسوس صد
افسوس ایسے لوگوں پر جو کہ عوام کی خدمت کے لئے آتے ہیں مگر عوام سے خدمت
کرانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر ڈی سی او چکوال ہفتے میں صرف ایک دن ائیر
کنڈیشن والے کمرے کو چھوڑ کر چکوال کا دورہ کریں تو ان کی آنکھیں کھل
جائیں۔ چکوال کا کوئی دکاندار مقرر کردہ ریٹ لسٹ پر کوئی چیز فروخت نہیں کر
رہا۔ سبزی اور فروٹ والا ریٹ لسٹ دکھانے کا مجاز نہیں سمجھتا، یہ ذمہ داری
کس کی ہے؟ مگر افسوس صد افسوس جنہوں نے ریٹ لسٹ دیکھنی ہے اُن کو تازہ
سبزی، فروٹ روزانہ اُن کے گھروں میں مل جاتا ہے، عوام کو وہ اگر بیس، پچیس
روپے فالتو لگا لیتے ہیں تو کون سا جرم ہو گیا؟ ان کو اس سے کیا لینا دینا
کہ غریب عوام کو آلو، پیاز کس بھاؤ سے مل رہے ہیں، آخر یہ سب کچھ کب تک
ہوتا رہے گا؟ ہمارے معاشرے سے کرپشن کب ختم ہو گی؟ کب تمام ذمہ داران اور
افسران اپنی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں احسن انداز میں پوری کریں گے؟ کب
عوام کو اُن کی بنیادی سہولیات زندگی میسر ہوں گی اور کب غریب عوام کو سستا
اور تیز انصاف فراہم ہو گا؟ اس وقت ڈی سی او چکوال، چکوال کے سربراہ کی
حیثیت رکھتے ہیں، تمام سرکاری ادارے اُن کے زیر کنٹرول ہیں اور میرے خیال
میں اگر کسی بھی ادارے کا سربراہ خود ٹھیک ہو تو پھر سارے کام ٹھیک ہو سکتے
ہیں لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ چکوال میں ایک اچھے کام کا آغاز
ہوتا ہے اور پھر اچانک وہ کام روک دیا جاتا ہے جیسے چند ماہ قبل چکوال میں
ناجائز تجاوزات مافیا کے خلاف آپریشن شروع ہوا، کئی بڑے بڑے پلازے اس کی زد
میں بھی آئے اور اُن کو مارک بھی کیا گیا مگر پھر کیا ہوا سب کی نظر میں
ہے، اس کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما تھے اور یہ آپریشن کس کے کہنے پر روکا
گیا؟ اسی طرح کروڑوں روپے کی ریلوے اراضی پر بھی قبضہ مافیا متحرک ہے، کیا
یہ سب باتیں بھی ڈی سی او کو بتانے کی ضرورت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے
ملک میں ایک بچہ جو اپنی بھوک مٹانے کے لئے ایک روٹی کسی تندور سے چرا لیتا
ہے تو اُس کو چور سمجھ کر تھانے پہنچا دیا جاتا ہے اور شہر بھر کی دیگر
چوریاں اُس پر ڈال دی جاتی ہیں لیکن سفید کاٹن کے سوٹ میں ملبوس پیشہ ور
’’ڈاکو‘‘ کسی کو نظر نہیں آتے۔ وہ بینکوں سے کروڑوں روپے قرض لیتے ہیں اور
پھر قرض معاف کرا لیتے ہیں، ان کا شمار اشرافیہ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح
کروڑوں کی اراضی پر قبضہ کرنا، ناجائز جگہوں پر بڑے بڑے پلازے کھڑے کرنا،
سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کرنا اور پھر
ایسے ہی لوگوں کو VIP پروٹوکول ملنا یہی ہمارے معاشرے کی بدبختی ہے۔ ہمیں
آج تک یہی نہیں پتہ چل سکا کہ اصل میں چور ہے کون؟ میرے خیال میں پاکستان
میں ایک مالی سے لے کر پی ایم تک سب کرپشن کی زد میں ہیں۔ کھایا صرف اُسی
نے نہیں جس کو ملا نہیں۔ سب لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق پاکستان کے ساتھ
دو دو ہاتھ کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان قائم ہے اور انشاء اﷲ
قائم رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس ملک کے ساتھ وفاداری
کا مظاہرہ کریں۔ جس جس کے پاس جو جو طاقت ہے وہ اس کا درست استعمال کرے اور
پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دے۔ ڈی سی او چکوال بھی اگر اپنے
کام کے ساتھ مخلص ہو جائیں تو چکوال کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ چکوال میں گندگی
کے جگہ جگہ ڈھیر نظر آرہے ہیں، ہو سکتا ہے ڈی سی او کو نظر نہ آتے ہوں، آخر
ان اداروں کو کون متحرک کرے گا؟ مجھے پورا یقین ہے کہ ڈی سی او چکوال میرا
کالم پڑھنے کے بعد ضرور مثبت سوچ کے ساتھ جن جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے
اُن کو حل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ میرے قلم کا مقصد تنقید برائے اصلاح
ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |