بے دردوں نے تماشا بنادیا
(Mufti Muhammad Waqas Rafi, )
وطن عزیز ملک پاکستان کی آزادی کے وقت کچھ
ایسے لوگ بھی تھے جو جنونِ وطن اور جوش ایمان میں پاکستان کی طرف ہجرت کرکے
نکل توآئے ،لیکن یہاں ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ہوکر رہ گئی
تھی۔ چوں کہ وہ معزز خاندانوں کے لوگ تھے اس لئے افسروں کے دروازوں کی
جھڑکیاں اور ان کی ملامتیں ان کی قوت برداشت سے باہر تھیں۔اس وقت کئی لوگوں
نے بچشم خود بیگمات کی شادیوں کے جوڑے اور کنواری لڑکیوں کے جہیز گلی کوچوں
کی خاموشی میں اونے پونے بکتے دیکھے تھے اور وہ اپنا کلیجا پکڑ کر رہ گئے
تھے ۔
اس ہجوم افلاس میں کسی قصبے کا ایک شخص جو گھر کا سامان بیچ کر افلاس سے
ہار مان چکا تھا ، اپنی علمی قابلیت کے بھروسے پر مصائب کے جبڑوں میں دبا
دبایا کسی طرح ریڈیو اسٹیشن پہنچ گیا کہ شاید یہاں کوئی گنجائش نکل
آئے۔لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ شرافت اور قابلیت دونوں اس ادارے میں کھوٹے
سکے قرار پاتے ہیں؟ یہ انسان تو بھیڑیوں کی طرح غول کی زندگی بسر کرنے کے
عادی ہیں ۔ ان کے یہاں رجسٹروں میں رحم و انصاف کے خانے نہیں ہیں۔ یہ شعورِ
انسانی سے عاری اور حب انسانی سے نابلدہیں ۔
مگر بھوک اور عزت نفس کا تحفظ انسان کو ایسے ایسے مقامات پر لے جاتا ہے
جہاں کے چند لمحے بھی عقبیٰ کے راستے کا بوجھ بن جاتے ہیں ۔ چنانچہ اس غریب
پر کچھ ایسا ہی وقت پڑا ہوا تھا ۔ ریڈیو کے ماحول میں بھلا اس مصیبت زدہ کی
ڈوبتی ہوئی نبضوں اور بے نور ہوتی ہوئی آنکھوں کو کون دیکھنے والا تھا ؟
وہاں تو نغمہ وسازاور کاجل و رخسار کا کاروبار تھا ۔
اس نے دفتر میں قدم رکھا ہی تھا کہ دو تین چہروں نے بلند آواز اور طنزیہ
انداز میں کہا : ’’ با ادب ، با ملاحظہ ، ہوشیار ! ‘‘ وہ غریب یہ سمجھا کہ
یہ حکم میرے لئے ہے ۔ چنانچہ اس نے نمازیوں کی طرح دونوں ہاتھ باندھ لئے
اور بے گناہ مجرم کی طرح کھڑا ہوگیا ۔ ایک ادھیڑ عمر کرسی نشین بولا : ’’
کیا بات ہے بڑے میاں ؟ ‘‘ اجنبی نے کہا : ’’میاں میں پڑھا لکھا انسان ہوں
اورفاقوں تک میری نوبت پہنچ چکی ہے مجھے کوئی لکھنے پڑھنے کاکام مل جائے تو
خدا تمہیں اس کا اجر دے گا۔ ‘‘ ایک چپڑاسی اشارہ پاکر بولا : ’’ آپ زرا
باہر تشریف رکھیں۔ ‘‘
اتنے میں ادارہ کے ایک مزاح نگار نے ایک کاغذ پر اُلٹی سیدھی لکیریں کھینچ
کر کاغذ کو دیوار کی انگیٹھی کے خلاء میں ٹھونس دیا اور ایک اسٹول انگیٹھی
کے سامنے بچھواکر کہا :’’بڑے میاں ! آئیے ، دیکھئے اسٹول پر بیٹھ کر۔ اس
درمیانی خلاء کے قریب منہ کر کے کوئی غزل پڑھیے ۔ہم آپ کی آواز ٹیسٹ کر رہے
ہیں ۔ پھر پروگرام کے متعلق بات ہوجائے گی۔ ‘‘ اجنبی غریب اسٹول پر انگیٹھی
کے خلاء کے قریب منہ کر کے بیٹھ گیا اور ان میں سے ایک نے اسے ایک غزلوں کی
کتاب تھمادی اور کہا : ’’اس میں سے کوئی غزل پڑھیے! ‘‘ اجنبی نے پہلے صفحے
سے ایک غزل پڑھی اور پورا عملہ ہنس ہنس کر دوہرا ہوگیا ۔ جب مقطع آیا تو اس
مزاح نگار نے انگیٹھی میں سے وہ کاغذ نکال کر غور سے دیکھا اور کہا : ’’
بڑے میاں ! یہ لکیریں باقاعدہ ہونی چاہئیں ،لیکن ایسا نہیں ہے ۔ ہمیں افسوس
ہے نہ تو آپ جوان ہیں کہ آپ کو جوانوں کے پروگرام میں لے لیں اورنہ ابھی اس
قدر بوڑھے ہیں کہ پوپلے منہ سے بوڑھوں کی صف میں آجائیں ۔ ہاں ! اگر دانت
نہ ہوتے تو ہمارے یہاں اچھے پروگرام ملتے رہتے ۔ ہمیں آج کل ایسے فنکاروں
کی ضرورت ہے۔ ‘‘ اجنبی کے چہرے پر ایک سایہ سا کانپا اور وہ مایوسی میں
پیشانی پر پسینہ اور چہرے پر آنسوؤں کی لہراتی ہوئی روشن لکیریں لئے ریڈیو
اسٹیشن سے باہر نکل آیا ۔ حالانکہ ایسے موقعوں پر شقاوتوں کے بڑے بڑے تودے
پگھل کربہہ جاتے ہیں ۔لیکن اس ادارے کے اراکین میں سے کسی کاقہقہہ نہ
مرجھایا ۔
اجنبی کے سامنے بیوی ، بچوں کی نمناتی صورتیں اور ان کا انجام تھا ۔چنانچہ
اس نے گھر کی کوئی چیز فروخت کر کے اچھے خاصے دانت نکلوادئیے اور کئی روز
بعد پھر ریڈیو اسٹیشن پہنچ گیا اور کہنے لگا : ’’ میں نے آپ کی مرضی کے
مطابق اپنے دانت نکلوادیئے ہیں اب تو آپ مجھے پروگرام دیں گے نا ؟‘‘ اراکین
ریڈیو سناٹے میں آگئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ کئی نے مسکراہٹ
روکی ، کئی نے آنسو اور اسے ایک پندرہ روپے کا پروگرام دے دیا۔ وہ اس طرح
گھر لوٹا جیسے کسی کے زخم پر پھاہا لگادیا گیا ہو ۔نہ معلوم بعد میں ریڈیو
والوں نے کب تک اسے قابل توجہ گردانا ہوگا اور اس کے اس ایثار کی کیا قیمت
لگائی ہوگی ؟ میرے ذہنمیں ریڈیو کے اراکین اور ان کے سیہ گوش حواریوں کے نہ
جانے کتنے واقعات ہیں ،لیکن کیا فائدہ ؟۔ |
|