اخبار میں ہر روز ایسی کوئی نہ کوئی خبر
ضرور ملتی ہے کہ ملازم پر مالک کی طرف سے اتنا تشدد کیا گا کہ ہاتھ توڑ دیا
یا پھر ساس نے بہو کو چولہے میں جھونک دیا یا پھر استاد نے اپنے سٹوڈنٹ کو
اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔یا پھر شوہر نے بیوی کے ناک اور بال کاٹ
ڈالے یا پھر ماں نے اپنے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو زہر دے کر موت کی نیند
سُلا دیا۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے آخری تاکیدی
الفاظ کا مفہوم دیکھا جائے تو وہ یہ تھے کہ کبھی نمازنہ چھوڑنا اور ماتحتوں
کے ساتھ نرمی اختیار کرنا۔
ان دو نصیحتوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ ایک مکمل فلاسفی نظر آئیں گی۔
ماتحت اور نماز کا لفظ ایک استعارہ کی طرح لگے گا اور ایک مکمل نظریہ انکے
پیچھے ملے گا۔ نماز اگر دیکھا جائے تو قرآن میں نماز صرف پڑھنے کا نہیں
قائم کرنے کا حکم نظر آئے گا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ انسان نماز تو پڑھے مگر
مشکل کے حالات میں اگر اللہ پر یقین نہ رکھے اور کسی کے سامنے سر کو جھکا
دے تو اسکے عقیدے کی کمزوری ہی سمجھی جائے گی۔ انسان جب نماز پڑھتا ہو تو
اسکے عقیدے اور امید کا لیول ہی اور ہوتا ہے۔
اگر بات کی جائے ماتحتوں کی تو اس میں صرف ایک ہوٹل پر کام کرنے والا
"چھوٹے " کے نام سے پکارا جانے والا ملازم، مکینک کی ورکشاپ پر کام کرنے
والا "چھوٹا"، گھروں میں کام کرنے والی "اے لڑکی" کے نام سے بلائے جانے
والی ٹین ایج بچیاں، گلی میں جھاڑو لگانےوالے درمیانی ععمر کے لوگ، سڑکوں
پر کُوڑا چُننے والے لوگ ہی نہیں آئیں گے۔
ہر انسان جسکی ذمہ داری آپ اٹھا رہے ہیں اور جو آپ پر منحصر کر رہا ہے
ماتحت میں آئے گا۔
سارا مسئلہ اس وقت متحتوں کے ساتھ اختیارات کو استعمال کرنے کا ہے۔
ماتحتوں کے ساتھ اختیارات استعمال کرتے ہوئے اللہ کو یاد رکھنا اور
اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرنا ہی اصل خدا خوفی ہے۔
اگر ہم سیاسی سطح پر بھی دیکھ لیں تو سینیٹرز وزیر، مشیر، کاؤنسلرز، ایم
پی ایز، سب کا یہی مسئلہ ہے کہ جسکے پاس اختیارات ذیادہ ہیں وہ نیچے والے
کو اپنے اختیارات کی طاقت دکھائے بغیر نہیں رہتے۔ اپنے اختیارات بڑھانا
چاہتے ہیں اور نیچے والے کو مزید دبانا اور اپنے سے ذیادہ اختیارات والے کو
رام کرکے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ انکے دن پھرے رہیں۔
اسی طرح آفس والوں کو دیکھا جائے سرکاری والے تو الامان ۔ بادشاہ ہیں مگر
جو پرائیوٹ والے ہیں وہان بھی آپکو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا اور کم
والے کو دبانے کا رجحان اور اختیارات کو بڑھانے کا لالچ ضرور نظر آئےگا۔
اسی طرح اگر ہمارے ہاں گھروں کی سیاست میں دیکھا جائے تو جس بہن بھائی ساس
یا بہو کا اختیار یا زور چل جائے بس باقیوں کو وہ حتی الامکان دباتا ہی نظر
آئے گا۔ جتنا عرصہ وہ یہ کام کرسکے وہ جاری رکھنے کی کوشش ضرور کرے گا۔
ہم ہمیشہ دوسروں کو برا کہنے اپنا مالی اور جزباتی نقصان کرنے پر فیس بک
پوسٹس لکھ لکھ کر دل کی بھڑاس نکالنے میں ضرور مصروف رہتے ہیں مگر کیا ہم
کبھی یہ سوچتے ہیں کہ ہم خود اپنا جتنا اختیار کا ڈائرہ رکھتے ہیں جو ہمارے
ماتحت ہیں کیا ہم انکے ساتھ اچھی طرح سے پیش آرہے ہیں-
انکے ساتھ بھلائی کررہے ہیں یا ایک باس اور وزیر کی طرح انسے جتنا پیسہ
چھین سکیں چھین لیا جتنی تنخواہ روک سکے روک لی جتنا کھانا کم دے سکے کم
دیا۔
ماتحت میں آنے والے انسان کے ساتھ اگر صرف زبان استعمال کرنے کا بھی اختیار
ہے تو کیا ہم اسکو دیکح بھال کر استعمال کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ایک استاد اور
شاگرد کا رشتہ کیونکہ اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مارنہیں
پیار'۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے ہاتھ کو روک کر ہاتھ کا اثر زبان پر منتقل کر دیا ہے
تاکہ بچہ اندر سے سسک کر مر جائے۔
ایک بات یاد رکھئے گا ہر انسان اپنی ذمہ داری اپنے اختیار کے لئے ہی جواب
دہ ہے۔ یہ نہیں کہ آپکے پاس اختیارات تو ایک عام شہری والے ہوں مگر آپ سے
باز پرس ایک وزیر والے اختیارات کی ہو۔
ہم اتنے نعرے لگاتے ہیں اتنے جلسے جلوس جلاؤ گھیراؤ احتجاج دھرنا سوشل
میڈیا وار میں مصروف رہتے ہیں تو کیا ہمارے دائرہ اختیار میں چیزوں کو بہتر
کرنا آتا ہے یا خراب کرنا اگر ہم چیزوں کو خراب کرنے میں لگے رہیں گے تو
کبھی بھی ٹھیک نہیں کر سکیں گے۔ پھر لاکھ ہم بہانے بنائیں کہ فلاں فلاں
ٹھیک نہیں اسلئے ہم نہیں کچھ بھی کر سکتے یہ ایک بہانہ ہی ہوگا۔
غلط چیز کو ہوتے ہوئے دیکھ کر زبان سے روک سکو تو زبان سے روکنے کا ہاتھ سے
روک سکو تو ہاتھ سے روکنے کا ورنہ دل میں برا سمجھنے کا حکم ہے ہم لوگ اس
حکم کو صرف بے حیائی یا عریانی تک محدود سمجھتے ہیں
جبکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان اگر دوسرے کی مدد خواہ وہ کتنی ہی
چھوٹی ہو جیسا کہ سودا سلف لا دینا یا پانی پلا دینا ۔۔۔ وہ بھی کر سکے تو
نیکی ہے کسی کو غلط اور غلیظ زبان استعمال کرنے سے روکے تو نیکی ہے۔
کسی استاد کو شاگردوں کے ساتھ میٹھی زبان استعمال کرنے کا کہے نیکی ہے۔ وہ
اپنا اختیار جتنا استعمال ر سکت اہے وہ کرے جتنا نہیں کر سکتا وہ ان پر
چھوڑ دے جو اتنے بااختیار ہیں
آُپ اپنے ہاتھ سے کوا پھینکتے ہوئے ای ملازم کو مارت ہوئے رک جائیں یا کسی
دوسرے کو پھینکتا دیکھ کر روک لیں۔ سرے بازار پٹنے والی عورت کا تماشا
دیکھنے کی بجائے لڑائی رکوا سکیں اور اپنی زبان اور ہاتھ سے خاص طور پر ان
لوگوں کو جنکو تکلیف دینا آپکے لئے ایک دم آسان ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تکلیف نہ
دیں تو آپ ماتحت کے ساتھ نرمی اختیار کرہے ہیں۔
ہم جب ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تو زبان کا غلط استعمال کرکے دوسروں سے بدلہ
لینے کی کوشش کے اپنے اختیار کو اتنا اور اسطرح استعمال کرتے ہیں کہ اپنا
اختیار بھی برے انداز میں استعمال کر کے ہی دم لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کسی کا دم
نکلنے یا اپنا نکل جانے پر ہی چھوڑتے ہیں۔ |