بجلی کے بحران کا امکانی حل

جب بجلی مسلسل بند رہتی ہے تو وہ ادویات جنھیں فریج میں مخصوص ٹمپریچر پررکھنا اشد ضروری ہوتا ہے وہ بالکل خراب ہو جاتی ہیں اور جو مریض ایسی ادویات خرید کر استعمال کریں گے وہ انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ حیوانوں کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں جیسے شوگر کے لیے انسولین اور مہلک امراض کے لیے ڈیکا ڈران ،سولیو کارٹف اوردیگر کئی اینٹی بائیوٹک ٹیکہ جات خراب ہو کر انکی ایفی کیسی ہی کم نہیں ہوجاتی بلکہ کئی تو فریج کے بغیر 12سے چودہ گھنٹے پڑے رہیں اور وہ بھی ہر طرف سے مکمل بند ریفریجریٹر میں بجلی بند ہونے کی صورت میں تو وہ قطعاً قابل استعمال نہیں رہتے۔دوائیاں بیماریوں پر اثرات کیوں مرتب نہیں کرتیں اور زہریلی ہوکرکیوں اموات کا باعث بن جاتی ہیں ان کی وجہ طویل لوڈ شیڈنگ ہی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جہاں مسلسل 12سے چودہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو گی وہاں کی اصولاً تمام فریجوں میں رکھی ادویات میڈیکل سٹورز اور میڈیکل کمپنیوں سے اٹھا کر ضائع کردینی چاہیں۔اسطرح بیچارے کاروباری میڈیکل سٹورز کی طرف سے ادویات ضائع کرڈالنا کروڑوں کا نقصان ہے اور یہ عمل ناممکن نظر آتا ہے۔

ادھر جو بیچارے گھریلو افراددو وقت کھانا نہیں پکا سکتے ان کا کھانا بھی چودہ گھنٹے فریج میں بجلی بند ہونے پر پڑا رہ کر خراب ہوجاتا ہے جسے کھانے سے پیٹ کی خرابی اور پیچش جیسے امراض کی بہتات ہے۔کئی کھانے زہریلے ہو کر موت کا سبب بھی بن جاتے ہیں ۔بچوں کے لیے رکھا ہوا دودھ تو اتنے عرصے بعد خراب ہی ہو جائے گا ور پھر ایمر جنسی میں دودھ کی عمومی شدید قلت کی وجہ سے کہیں سے خریدا بھی نہیں جاسکتا۔بجلی کئی بار جھٹکے لگاتی ہے یعنی آئی اور فوراً ہی گئی اس سے الیکٹرانکس اشیاء کام نہیں کر پاتیں بلکہ سٹارٹ ہو کرفوراً جھٹکے سے بند ہو جانے پر ان کے جلنے کا اندیشہ رہتا ہے پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ بجلی تو آتی ہے مگر وولٹیج انتہائی کم ہوتے ہیں اور الیکٹرانکس اشیاء کے مکمل جل جانے کا چانس بڑھ جاتاہے۔اور ادویات تو مکمل خراب ہو جاتی ہیں کہ پہلے ہی 12,14گھنٹے فریج بند رہا بجلی آ بھی گئی تو وہ سٹارٹ ہی نہ ہو سکا اسطرح سارا دن فریج بند رہا تو ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء کا کیا حشر ہو گا؟ بجلی والوں کو ان باتوں سے مکمل آگاہی ہے مگر چونکہ عوام بپھرے ہوئے اور موجودہ حکمرانوں سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں اس لیے انھیں خصوصاً تکلیف پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا جاتا ہے۔بجلی بحران نے عوام کی زندگی کو مکمل اجیرن بنا رکھا ہے کپاس کے سیزن میں تو کپاس جلد پراسس ہو کر اور بنولہ کھل وغیرہ نکال کر روئی کی گانٹھوں کی صورت اختیار نہ کرسکی تو بھی سراسر قومی نقصان ہو گا اور بجلی نہ آئے نہ کارخانے چلیں اور ان میں جو مزدور کام کرتے ہیں وہ حکومت کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دیتے ہیں جس دن دیہاڑی نہ ملے تو وہ کھائیں گے کہاں سے؟ حکومت کا بجلی بند کرڈالنے کا علاقائی شیڈول کہاں گیا ؟اب غیر اعلانیہ طور پر بلی چوہے کا کھیل تو سخت نقصان دہ ہے پانی کی شدید قلت ہوجانے کی وجہ سے پیاسے جانوروں اور انسانوں کے ریگزاروں میں مرنے پر مقدمہ قتل حکمرانوں پر ہی درج ہوجانا چاہیے۔آجکل تو کئی علاقے اور دور دراز اضلاع تو ایسے ہی ہیں جہاں بیس گھنٹے بجلی روزانہ بند رہتی ہے۔

جن میں اضلاع بہاولنگر،پاکپتن ،وہاڑی،لودھراں،بدین ،شکارپور شامل ہیں چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کرسکا تو میرا نام تبدیل کرڈالنا اب عوام انھیں کس نام سے یاد کریں شہباز شریف یا شوباز شریف۔بجلی بند ہونے سے مہنگائی نے بھی طوفان برپا کر رکھا ہے جب ملیں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے فنکشن ہی نہیں کریں گی توپیداوار زیرو ہو گی۔ایسی اشیاء کی مانگ بڑھے گی تو بلاشبہ ان اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی جیسے کپڑا، چینی،آٹا،چمڑے اور الیکٹرانکس کا سامان وغیرہ ۔

بجلی کی بندش سے مہنگائی کے علاوہ بیروزگاری کا عفریت بھی خوب تباہی پھیلا رہا ہے ادھر اس محکمہ میں اونچے گریڈ کے افسران کی بھرمار ہے ۔بھلا واپڈا ہاؤس میں مقیم افسران بیٹھے کونسی بجلی بنا یا تاریں بچھا رہے ہیں؟کیا کوئی حساب کتاب کر رہے ہیں؟آمدن رفتن والا سلسلہ ہے ذرا جا کر دیکھیں فائلیں گھوم رہی ہیں ویلے بیٹھے ملازم گپیں ہانک رہے ہوتے اور کسی آسامی کی تلاش میں آنکھیں مصروف کہ وہ آئے ڈھیروں مال لگائے اور اپنا جعلی کام کروائے ڈویژن اور ضلع سطح پر چیف ،ایس ای ،ایکس ای این ،ایس ڈی او ز انتہائی نکمی اور فضول پوسٹیں ہیں۔ان کا بجلی کی مرمتوں ،روبحال رکھنے بل بنانے جمع کروانے سے قطعاً کوئی تعلق نہ ہے تنخواہیں بٹورنا اس طرح خزانہ کو نقصان پہنچانااور غریب عوام سے روپے اینٹھنا ہی ان کا مطمع نظر ہے در اصل بجلی کے لیے اکاؤنٹس اور کھمبوں پر چڑھ کر درستگی کرنے والے ورکروں کی ضرورت ہے جنھیں افسران پورا سامان حتیٰ کہ دستانے تک بھی مہیا نہیں کرتے۔بجٹ کا زیادہ حصہ پیٹوں میں گھسیڑ لیتے ہیں اور بجلی درست کرنے والے بجلی کی ہی شاٹ لگنے سے زندگیوں سے محروم ہوتے رہتے ہیں ۔خزانہ پر بوجھ بنے ان سب "کاٹھ کے اُلو "افسران کی مکمل چھٹی یا چھانٹی ہو جائے لاکھوں یونٹ مفت بجلی کا استعمال جب ختم ہو گاتو لوڈ شیڈنگ بھی نہ کرنا پڑیگی خزانہ سے کتر بیونت بھی بند ہو گی رشوت ستانی ختم ہوئی تو بجلی اصل قیمت پر یعنی ڈیڑھ روپیہ یونٹ ملے گی کہ اس کی مکمل تیاری پر اتنا ہی خرچہ آتا ہے حرام مال ہڑپ کرنے والے افسران کی موجودگی سے ان کا خرچہ بھی عوام پر پڑتا ہے اور بجلی مہنگی سپلائی ہوتی ہے یہ سب ٹھگی کاروبار بند ہوں کہ اب ڈھیروں مال افسران وزارت اور پھر اوپر ہی اوپر پہنچتا رہتا ہے تو ہی بیچارے عوام کی حالت سدھرے گی مگر چونکہ یہ سبھی پی پی اورن لیگی بھرتیاں ہیں اس لیے ان کو نکالنا حکمرانوں کے لیے مشکل ترین ہے یہ تو تبھی ممکن ہو گا جب بوسیدہ کپڑے پہنے غلاظت بھری گلیوں چکوک سے غریب عوام اﷲ اکبر اﷲ اکبر کی صدائیں بلند کرتے تحریک کی صورت میں نکلیں گے اورحکمرانوں کا قلاوہ گردن سے بذریعہ ووٹ اتار پھینکیں گے جن افسران کو فارغ کیاجائے انھیں صرف اس " مہربانی "کی پاداش میں ہی کہ کیا کبھی ایوان صدر وزیر اعظم ہاؤس وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ یا وزراء سیکریٹریوں کی بجلی بھی بند کی، چوکوں پر لٹکا کربجلی کے جھٹکے دینا اشد ضروری ہے ۔کہ وہاں کیا ان کے پر جلتے تھے؟
Mian Ihsan Bari
About the Author: Mian Ihsan Bari Read More Articles by Mian Ihsan Bari: 278 Articles with 202805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.