خبیث

’’خبیث اوخبیث! اُٹھ جا مرجانے پتہ نہیں کیسے بے ہوش پڑا سوتا ہے‘‘۔اماں بی کی صبح صبح ان آوازوں سے ہماری آنکھ کھل جاتی ۔خبیث کا اصل نام ایازاحمد تھا لیکن اماں بی ہمیشہ اسکو خبیث کے نام سے پکارتی تھیں۔وہ تیرہ چودہ سال کا تھا ۔ابا میاں اسکو کہیں سے لائے تھے بس اتنا کہا کہ ’’یہ یتیم ہے اور یہیں رہے گا‘‘۔ میں اور میرا بھائی سکول میں آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔کیونکہ ہم جڑواں تھے۔ابا میاں صبح ناشتے کے بعد دکان پر چلے جاتے پھررات کو ہی آتے دوپہر کا کھانا خبیث پہنچاتا ۔ہم اس سے میل جول نہیں رکھتے تھے۔بس وہ اماں بی کے کام کرتا اور ان کی جھڑکیاں سنتا۔گھر کا سودا بھی اسکے ذمہ تھا۔ہم سوچتے کہ اماں بی اس سے برا سلوک کیوں کرتی ہیں۔اور امی وہ تو اﷲ میاں کی گائے تھیں۔صبح سے رات تک باورچی خانے اور گھر کے دوسرے کاموں میں مصروٖ ف رہتیں۔

اماں بی ہماری دادی تھیں۔خبیث سے آنے سے پہلے امی ان کے سب کام کرتی تھیں۔ساس بہو میں اتنا دوستانہ نہیں تھا بس واجبی سے تعلقات تھے۔ایک دن ہم ٹیسٹ سے بچنے کیلئے سکول سے گھربھاگ آئے ۔دیکھا تواماں خبیث کے سر میں تیل کی مالش کررہیں تھیں اور وہ آٹھویں جماعت کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ہم بہت حیران ہوئے۔

اب ہم نے دوسرے زاویے سے دیکھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ اس کے تمام مصارف اماں بی ہی برداشت کرتی ہیں اس نے آٹھویں کا امتحان پرائیویٹ ہمارے ساتھ دیا۔اسی طرح میٹر ک کا امتحان بھی دیا۔ہم تو فیل ہوگئے اور ابا میاں نے ہمیں دکان پر بٹھا دیا۔لیکن اس کے اچھے نمبر آئے۔اور پھرایف اے کیا ۔ایک دن اماں بی نے اخبار میں اشتہار دیکھا کہ فوج کو ایف اے پاس لڑکوں کی ضرورت ہے۔اماں بی نے اسکو بھیج دیا کہ ٹیسٹ پاس کرآئے وہ گیا اور تمام ٹیسٹ پاس کر کے پی ایم اے ٹریننگ کیلئے چلا گیا۔ اب اماں بی بہت کم بولتیں بس خلاؤں میں گھورتی رہتیں۔جب وہ چھٹی آتا تو گویا اماں بی کی عید ہوجاتی۔پھروہ دن آ گیا جب وہ کندھے پر سیکنڈ لفٹیننٹ کا پھول لگا کر آیا اماں بی خوشی سے نہال ہوتی جائیں۔تمام محلے میں مٹھائی بانٹی۔اماں بی غالباً اسی انتظار میں تھیں اگلے دن ہی اﷲ کو پیاری ہو گئیں۔اور اس نے ان کے پاؤں کو پکڑ کر آنسوؤں سے بھگو دیا۔میت کو کندھا دے کر دفناکر واپس آیا تو گم صم۔چھٹی ختم ہونے سے پہلے ہی وزیرستان محاذ پر چلا گیا۔اور پھر ایک ماہ بعد ہی قومی پرچم میں لپٹی ہوئی اس کی لاش فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ آئی۔اور انہوں نے ابا میاں کو سیلیوٹ کیا کیونکہ اس نے ولدیت کے خانے میں ابا میاں کا نام لکھوایا تھا۔ابا میاں کی آنکھوں میں آنسو پہلی بار دیکھے۔فوج کے جوانوں نے اعزاز کے ساتھ اماں بی کے پہلو میں دفنایا۔گویا وہ اماں بی کی جدائی برداشت نہ کر سکا۔اسکے ساتھی نے بتایا اس نے ایک خطرناک مہم کیلئے اپنے آپ کو پیش کیااور کامیابی سے اس مہم کو سر انجام دیکر شہادت کا رتبہ حاصل کرلیا۔اب گھر میں خبیث کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں بلکہ شہید ایاز احمد کا ذکرہوتا ہے۔
Mahid Manzoor Tahir
About the Author: Mahid Manzoor Tahir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.