روشنی

دونوں مریضوں کو ایمرجنسی وارڈ میں ایک ہی وقت میں منتقل کیاگیا۔ خوش قسمتی سے جگہ تھی، دونوں کوالگ الگ بیڈ بھی مل گئے۔ دونوں خطرناک حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے۔ باریش مریض کو بیڈ نمبر 19اور نوجوان کو اس کے عقبی جانب چھوٹی سی دیوار کے ساتھ موجود بیڈ پر لٹادیا گیا جہاں قریب ہی نرسنگ آفس تھا۔ بیڈ نمبر 19کھڑکی کے ساتھ تھا جو باہر کی جانب کھلتی تھی جسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ مریض دوران علاج کم از کم باہر کے نظاروں اور تازہ ہواسے تو لطف اندوز ہو سکتا ہے۔

نوجوان مریض ایک فیکٹری میں کرتا تھا۔وہ ایک خوبصورت اور پڑھا لکھا جوان تھا۔ ایک روز کسی کام سے فیکٹری کی تیسری منزل پر جارہا تھا کہ اچانک لفٹ ٹوٹ کر زمین پر آرہی ، نوجوان کی ایک ٹانگ ایک جگہ سے اور دوسری دو جگہ سے ٹوٹ گئی، پورے جسم پر زخم بھی گہرے آئے اندرونی چوٹیں اس کے علاوہ تھیں۔

شدید زخمی حالت میں اُسے فیکٹری کے مالکان نے ہسپتال منتقل کیا تھا۔ نوجوانی میں اتنے بڑے حادثے پروہ مریض خاصا پریشان اور زندگی سے مایوس تھا۔ درد کی شدت سے جب وہ کراہتا تو دیکھنے والی ہر آنکھ اشک بار ہو جایا کرتی ۔ بیڈ نمبر 19پر لیٹے مریض کے بارے میں کسی کو کچھ زیادہ معلوم نہ تھا۔ بس نرس آکر دوا دارو کر دیا کرتی۔ تین وقت کھانا اسے ہسپتال کی طرف سے مل جایا کرتا ، جو حالت خاصی خراب ہونے کی وجہ سے نرس ہی اسے کھلایا کرتی تھی۔

وارڈ میں منتقل ہوئے دونوں کا پہلا روز تھا۔ شام ہونے کو تھی ، آسمان پر پھیلی زردی ہلکی ہلکی سرخی میں تبدیل ہورہی تھیں ، دھیرے دھیرے اندھیرا پھیل گیا۔ زخم ٹھنڈے ہوئے تو نوجوان مریض نے کراہنا شروع کردیا۔ اس کی آواز میں بلا کر درد تھا۔ جب و ہ درد سے چلایا، وارڈ میں موجود سبھی لوگ افسردہ ہوگئے۔ مریض کی حالت دیکھ کر نرس اپنی سیٹ سے اٹھی اور اسے درد کش ٹیکہ لگا دیا، کچھ دیر بعد درد کی شدت میں کمی ہونے پر نوجوان نیند کی آغوش میں چلاگیا۔ نوجوان مریض کی رات قدرے سکون سے گزر گئی۔

صبح ہونے کو تھی، نوجوان نے آنکھیں کھولتے ہی کراہنا شروع کردیا۔ ساری رات مریضوں کی خدمت کرتی نرسوں پر اب نیند کا غلبہ تھا۔ سو کوئی بھی نرس اٹھ کر اس کے پاس نہ آئی۔

باریش مریض نے اپنا منہ کھڑکی کی طرف کیا، خاموشی کو توڑتے ہوئے گویا ہوا۔’’واہ مولا! کتنا رحیم ہے، اتنی جلدی، اتنی جلدی، ایسا تو کبھی نہیں ہوا۔ یہ مریض کل شام میں ہسپتال آتے اسی کھڑکی سے دیکھا تھا، اسے دو تین لوگوں نے سہارا دے رکھا تھا، آج اپنے پاؤں پر چل کر واپس جارہا ہے۔ واہ مولا ! تو کتنا کریم ہے۔ ‘‘نوجوان مریض اپنی تکلیف کو بھول کر اس باریش مریض کی طرف متوجہ ہوگیا۔ وہ کچھ دیر کو اپنا درد بھول گیا۔ باریش مریض نے دیکھا کہ نوجوان خاموش ہو کر اس کی جانب متوجہ ہے تو اس نے اسی طرح کے دو تین جملے خدا کی تعریف میں بیان کرتے ہوئے بات ختم کردی۔
 
صبح سینئر ڈاکٹروں کے راؤنڈ کے وقت اسے ایک درد کش ٹیکہ اور لگا دیا گیا۔ جس سے نوجوان مریض کو کچھ کچھ تشفی ہوئی۔ دوا دارو جاری تھا کہ دوپہر کے وقت نوجوان مریض نے پھر سے کراہنا شروع کر دیا ۔

باریش مریض ایک بار پھر کھڑی کی طرف منہ کیا:’’ بولا! باہر موسم کتنا سہانا ہے، وہ سامنے درختوں کی چھاؤں میں کینٹین کے سامنے بیٹھے لوگ کتنے خوش ہیں۔ کل اسی وقت یہ لوگ خاصے پریشان تھے۔ محسوس ہوتا تھا کہ ان کا مریض بھی خاصا بیمار ہوگا۔ وہ ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کررہے تھے‘‘ نوجوان مریض اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔ باریش نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ بولا:مولا! تو بڑا رحیم ہے، کتنے خوش ہیں یہ لوگ ، موسم کی طرح ان کے چہرے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے رات بارش ہوئی ہے، گیلی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو کس قدر لطف دے رہی ہے۔ پھر ان کا مریض بھی تو ٹھیک ہو گیا ہوگا نا۔ خوشگوار موسم اور مریض کے ٹھیک ہونے کی خوشی دو دو خوشیاں ایک ساتھ۔ واہ مولا! تو کتنا رحیم ہے۔ ‘‘
نوجوان مریض ایک بار پھر اپنی تکلیف بھول کر خاموش ہوگیا۔ اسے درد میں کمی ہوتی محسوس ہوئی۔ چند لمحے بعد ہو خاموشی سے سوگیا۔ ذہن میں تکلیف کے بجائے باریش مریض کی باتیں گردش کرنے لگیں۔

شام ہونے کو تھی ، نوجوان مریض نے وارڈ میں موجود ہر شخص کو ایک بار پھر اپنی تکلیف کا احساس دلایا۔ باریش مریض نے ایک بار پھر کھڑی کی جانب دیکھا اور بولا:’’کتنی اچھی اور خوشی کے بات ہے کہ شکاریوں کی موجودگی کے باوجود یہ پرنے خیریت سے واپس لوٹ آئے ہیں۔آخر کوئی تو ہے جو ان کی حفاظت بھی کرتا ہے، انہیں مرنے نہیں دیتا۔ وگرنہ اب تک دنیا پرندوں سے خالی ہو جاتی۔ کتنے خوش ہیں یہ پرندے ایک دوسرے سے شرارتیں کر رہے ہیں ، اپنے بچوں سے کھیل رہے ہیں ، ان کے بچے بھی اٹکھیلیاں کر رہے ہیں ۔ جو خدا ان کا ہے وہی خدا ہمارا بھی کارساز ہے۔ ‘‘نوجوان مریض نے اپنی گردن 19نمبر بیڈ کی جانب گھمائی اور غور سے باتیں سننے لگا۔

اس باریش نے حسب معمول اپنی گفتگو جاری رکھی: ’’تاروں بھری شام کتنی سہانی شام ہے، چاند کے سامنے سے گزرتے بادلوں کے ٹکڑے کتنا شاندار منظر پیش کررہے ہیں۔ہوا کتنی پیاری چل رہی ہے۔آسمان پر پھیلے تارے بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے ہیں ، چاند کی سفید روشنی جو کھڑکی کی جالیوں سے چھن چھن کر آرہی ہے، اس میں کتنی ٹھنڈک ہے، چاند کی روشنی میں چلتے پھرتے یہ لوگ کتنے اچھے لگ رہے ہیں۔ واہ! باہر کا موسم کتنا سہانا ہے۔ ‘‘ دونوں طر ف خاموشی ہو گئی۔ نوجوان مریض اور باریش دونوں نیند کی آغوش میں چلے گئے۔

اگلی صبح نوجوان مریض کا آپریشن تھا۔ اسے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔ تین چار گھنٹے کے آپریشن کے بعد جب واپس آیا تو باریش مریض بیڈ نمبر 19پر موجود نہ تھا۔ نوجوان کو اس کے متعلقہ بیڈ پر لٹادیا گیا۔ چند گھنٹے گزرنے کے بعد جب 19نمبر بیڈ پر باریش مریض نہ آیااور معلوم ہوا کہ بیڈ خالی ہو گیا ہے تو نوجوان مریض کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ باریش مریض جب کھڑکی سے باہر کی باتیں بتایاکرتا تھا تو نوجوان مریض کے دل میں حسرت پیدا ہوتی کہ کاش! کھڑکی کے ساتھ 19نمبر بیڈ میرا ہوتا۔ اس باریش مریض کے بجائے میں کھڑکی کے باہر کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتا۔ بیماری کا احساس بھی کم ہوتا، چاند کو دیکھتا، ستاروں کو جگمگاتے دیکھتا، صبح کی تازہ ہو ا بھی مجھے مزے دیتی، اب بیڈ خالی ہے۔ میری خواہش پوری ہو گئی، نوجوان مریض کی خواہش پر اس کا بیڈ تبدیل کر دیا گیا، اسے 19نمبر بیڈ الاٹ کردیا گیا۔

بیڈ پر لیٹتے ہی اس نے کھڑکی کے باہر کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا۔ نوجوان مریض نے کھڑکی کھولی تو باہر کچھ نہ تھا ایک خالی پلاٹ میں ہسپتال کا کچرا تھا جسے ہوا چلنے پر ہلکی سی بدبو محسوس ہوتی تھی۔کوئی درخت نہیں تھا، باہر لوگوں کے بیٹھنے کی کوئی جگہ بھی نہ تھی، کسی کو آتے جاتے دیکھنے کا بھی نہیں سوچا جاسکتا تھا۔ نوجوان مریض تلمیلایا، وہ سخت مایوس ہوا۔ نرس روٹین کا چیک اپ کرنے آئی تو نوجوان مریض نے پوچھا: ’’ اس بیڈ پر مجھ سے پہلے جو مریض تھا وہ کہاں گیا؟وہ کتنا جھوٹا شخص تھا‘‘ پھر ساری گفتگو بھی اسے سنائی۔

نرس بولی: ’’ اُس کی گفتگو تمہارے اندر زندہ رہنے اور تکلیف کا مقابلہ کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے تھی حالانکہ وہ خود تکلیف میں تھا۔ جو کام ہماری دوانہیں کرتی تھی نا وہ کا م اس شخص کی اچھی گفتگو کر دیتی تھی۔ وہ تمہارے اندر درد کا احساس کم کرنا چاہتا تھا۔ تمہارے اندار جینے کی امنگ پیدا کرنا چاہتا تھا، تمہیں اپنے الفاظ سے زندگی کی طرف لوٹانا چاہتا تھا، دیکھنے کی صلاحیت سے محروم تھا۔ تم آپریشن تھیٹر میں تھے جب اس کا انتقال ہوگیا۔
Qazi Naveed Mumtaz
About the Author: Qazi Naveed Mumtaz Read More Articles by Qazi Naveed Mumtaz: 28 Articles with 21697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.