کرپشن ایک کینسر
(Mir Afsar Aman, Karachi)
جس طرح کینسر اندر ہی اندر انسانی جسم کو
کھا جاتا ہے اسی طرح ملکوں کے جسم کو بھی کرپشن اندر ہی اندر کھا جاتی ہے
اور ایک وقت آتا ہے کہ ملک کمزور ہو تاجاتا ہے۔ پھر قرض دینے والوں اداروں
سے قرض لیا جاتا ہے۔ اس میں کرپشن کی جاتی ہے۔ بیرونی قرضوں کی عدم ادائیگی
کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔کرپشن جب اوپر سے ،یعنی حکمرانوں میں
زیادہ ہو جائے تو حکمران طبقہ کے لوگ امیر سے امر ترین ہو جاتے ہیں اور
عوام غریب سے غریب ترین ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان کے ساتھ
بھی ہے۔ حکمرانوں نے اپنی پوزشن سے فاہدہ اُٹھاتے ہوئے کرپشن کے پیسے سے
اپنے لئے محل تعمیر کرائے۔ کہیں سرے محل اور کہیں جاتی امرا کے محل۔ کرپشن
کا پیسا ملک میں رکھنے کے بجائے بیرون ملکوں میں رکھا جاتا ہے۔ بیرون ملکوں
میں اپنے بچوں کو تعلیم دلائی جاتی ہے۔غریب عوام بغیر چھت کے اسکولوں میں
ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مرحوم بے نظیر صاحبہ نے ایک موقعہ پر
کہا تھا کہ ملک میں سرمایا محفوظ نہیں ہوتا اس لے لوگ بیرون ملک سرمایا
رکھتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ کون سا فارمولہ ہے کہ حکمران اپنا وہ بھی
کرپشن کا پیسا توباہر ملکوں میں رکھیں اور بیرون ملکوں کے سرمایا داروں سے
اپیلیں کرتے پھریں کہ وہ پاکستان میں سرمایا کاری کریں؟اگر پاکستان میں دو
حکمران پارٹیوں کے حکمرانوں کی کرپشن سے بنائے گئے محلوں اور بیرون ملک
سرمایا کی بات کی جائے تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کس طرح کرپشن کے
پیسے سے سرے محل تعمیر کیا گیا۔ سوئس بنکوں میں کرپشن کا پیسہ محفوظ کیا
گیا۔ اور ایک وقت آیا کہ ملک کا صدر مسٹر ٹین پرسنٹ سے مسٹر ہینڈرینڈ پرسنٹ
کے لقب سے نوازا گیا۔اقتدار میں رہ کر استثنیٰ کے قانون سے فاہدہ اُٹھایا
گیا۔ مگر کسی نے بھی پاکستان کی سپریم کورٹ میں یہ ریفرنس دائر نہیں کیا کہ
ملک کا سربراہ اگر ملک کا پیسہ کرپرپشن کے ذریعے لوٹ لے تو کیسا استثنیٰ؟اس
وقت کی اپوزیشن نے گلے پھاڑ پھاڑ کر عوام سے اس وعدے پر ووٹ لیے تھے کہ پیٹ
پھاڑ کر عوام کا لوٹا ہوا پیسا واپس ملکی خزانے میں داخل کرایا جائے گا۔
مگر جب ایسے وعدے کرنے والے اقتدار میں آئے تو اپنے وعددوں کو بھول گئے
بلکہ ایک دوسرے سے ایسی مفاہمت کا معاہدہ کیا کہ ایک دوسرے کو نہیں چھیڑیں
گے اور اپنی اپنی اقتدار کی ٹرم پوری کرتے رہیں گے۔ دوسری حکمران پارٹی کے
سربراہ نے جاتی امرا میں اپنا محل تعمیر کیا اور اسے وزیر اعظم ہاؤس کا
درجہ دے کر غریب عوام کے پیسے سے اس کی دیواریں اوراِرد گرد کی سڑکیں تعمیر
کروائیں۔ وزیر اعظم صاحب کا بھائی،پنجاب کا وزیر اعلیٰ کہتا ہے کہ میرا باپ
ایک غریب کسان تھا۔ پھر کیسے لوہے کی ایک بھٹی سے ترقی کرتے کرتے اسٹیل مل
بنی اور پھر ۲۹؍ فیکٹریاں وجود میں آ گئیں۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کی پاکستان
اسٹیل مل تو چل کے نہیں دے رہی اور ملک کے وزیر اعظم کی اسٹیل مل پہلے دبہی
اور پھر سعودی عرب میں کامیابی سے چلی اور اس کی فروخت سے لندن کے مہنگے
علاقے میں مہنگے فلیٹس خریدے گئے۔ ان حالات میں پاکستان کی کرپشن سے پاک
سیاسی پارٹی جماعت اسلامی نے ملک میں کرپشن کے خلاف عوام کو تیار کرنے اور
حکمرانوں سے لوٹا ہوا پیسا واپس عوام کے خزانے میں جمع کروانے کے وعدے پر
مہم شروع کی۔ حکمرانوں کے کی کرپشن کے خلاف شہروں شہر ریلیاں نکالی گئی۔
جلسے کیے گئے۔ سیمنارز منعقد کئے گئے جس میں ماہر معاشیات سے کرپشن پر
تجزیے پیش کیے گئے۔ عوام کی بیداری کے لیے کرپشن کے خلاف خیبر سے کراچی تک
ٹرین مارچ کیا گیا۔ پھر ووٹوں کے حساب سے ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان صاحب نے کرپشن کو بے نقاب کرنے اور
حکمرانوں کو احتساب کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کے لیے ملک گیر تحریک شروع
کی۔ اس دوران پاناما لیکس جو دنیا کے مشہور جرنلسٹوں نے محنت کر کے تیار کی
دنیا کے کئی لوگوں کی آف شورکمپنیوں میں انوسٹمنٹ کی تفصیل جاری کی۔بیرون
ملکوں کے حکمرانوں نے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا۔ مگر ہمارے
وزیراعظم صاحب نے بھی دو دفعہ ملکی ٹیلیویژن اور ایک مرتبہ قومی اسمبلی میں
اپنی صفائی پیش کی اور اپنے آپ اور اپنے بچوں کو احتساب کے لیے پیش ہونے کا
کہا ۔ سپریم کورٹ کو خط لکھا کہ وہ ملکی قانون کے مطابق ان کا احتساب کیا
جائے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ۱۹۶۵ء کے ملکی قانون کے تحت احتساب نہیں ہو سکتا۔
اس کے لیے پارلیمنٹ نیا قانون بنائے تا کہ شفاف احتساب ہو سکے۔ اپوزیشن سے
درجنوں میٹنگز ہوئی، چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا مگر حکومت سپریم کورٹ کے حکم
کے مطابق قانون نہ بنا سکی ۔۳۰؍ ستمبر کو فیصل آباد میں جماعت اسلامی اور
رائے ونڈ میں تحریک انصاف نے جلسے کیے۔تحریک انصاف نے ملک بھر سے لوگ جمع
کیے تھے جس وجہ سے ان کا ملکی تاریخ میں سب سے بڑا جلسہ ہوا۔ ادھر بھارت نے
کشمیر میں جاری نئی انتفادہ کو کچلنے کے لیے مظالم کی انتہا کر دی سوا سو
سے زائدکشمیریوں کو شہید کر دیا سیکڑوں کو چھرے والی بندوق سے اندھا کر دیا۔
آسیہ اندرا بی اور کشمیری لیڈر شپ کو گرفتار کر لیا گیا۔مظالم کے خلاف جب
اُڑی کیمپ پر حملہ ہوا تو اس کا الزام بغیر تحقیق کے حسب عادت پاکستان پر
لگا دیا گیا۔ اور بدلہ لیتے ہوئے لین آف کنٹرول پر چار جگہ نام نہاد سرجیکل
اسٹرائیک کی بات کی۔ جب کہ صرف لین آف کنٹرول پر فائرنگ کی گئی جس میں
پاکستان کے دو فوجی شہید ہوئے ۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی چار چوکیوں تباہ
کی گئیں اورآٹھ سے دس فوجی مار دیے گئے ۔یہ تفصیل بیان کرنے کی وجہ یہ ہے
کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے۔ ۳۰؍ اکتوبر کو اسلام آباد بند
کرنے کی عمران خان کی دھمکی ابھی بھی موجود ہے۔ تین ماہ سے بھارت نے
کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔ حکمرانوں پر الزام لگ رہے ہیں کہ وہ
کشمیر کے مظالم کی آڑ میں کرپشن سے بچنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کہتے کہ اسی
وجہ سے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ملک کو کرپشن کے بہران سے
نکالنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی سب سیاسی پارٹیاں کرپشن کے معاملے میں یک
جان ہیں۔ اس لیے وزیر اعظم صاحب سینیٹ میں پیش کر دہ اپوزیشن کے ٹی اور آرز
کو قومی اسمبلی میں پیش کر کے منظور کر لیے جائیں اور قانون سازی کر ے تاکہ
سپریم کورٹ نئے قانون کے تحت کرپشن کی تحقیق کر کے تحت اپنے آپ کو پیش
کردیں۔ اگر ایسانہیں ہوتا اور حکمران پہلے کی طرح ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں
تو سپریم کورٹ اس اہم قومی معاملے میں از خود نوٹس لے کر پاکستان کو کرپشن
کے کینسر سے نکالے تاکہ قوم یک جان ہو کر بھارت کو جنگ کی دھمکی کا مناسب
جواب دے سکے۔ اﷲ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
|
|