عیدقرباں کے بارے ہم میں سے کون نہیں
جانتا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی نہ صرف ہم اس کے ذائقوں سے لطف اندوز ہوئے ہیں
بلکہ اپنے فریزر میں جھانکنے پر آپکو اس عید کے ثمرات بھی نظر آجائیں گے۔
جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے سپوت حضرت اسماعیل علیہ السلام
کو راہِ خدا میں قربان کرنے کی جوحامی بھری ، مشیت ایزدی میں نیت قبولیت کا
درجہ پا کر ذبیحہ بدل کر دنبہ ہو گئی ۔ ورن? شاید آج اہل اسلام کو اپنے لخت
جگر ہی قربان کرنا پڑتے۔
لیکن لخت جگر تو مائیں آج بھی قربان کر رہی ہیں۔ کبھی ملک ، تو کبھی دہشت
گردی کے نام پر۔ ہمارے فوجی جوان صعوبتیں سہہ کرہمیں چین کی سانسیں فراہم
کرتے ہیں۔ سخت ملکی حالات کا سامنا کرتے دنبے بکرے اونٹ سے بھی بڑی قربانی
فوجی اور پولیس ہی دیتے آئے ہیں۔ اپنی خوشیوں کی قربانی، مادر وطن کی خاطر
اپنی ماں کی گود سے دور اپنے جذبات ، اپنی ہنسی، اپنی خوشی کی قربانی، اپنے
آنسوؤں کو اپنی کڑی تربیت اور جاں گسل لمحات میں گزارتے ڈیوٹی کی نذر کرنے
کی قربانی،۔ دل تو ان کے سینے میں بھی ہے۔ عید پر اپنے بیوی بچوں کو فقط
چند روپے بھیج کردلاسہ دے کر بیٹی کی ہنسی نہ دیکھنے کی قربانی دینے والے
فوجی سپاہی دنیا کی عظیم ترین قربانی کرتے ہیں۔ جن کا ظرف پیغمبری ہے۔ جو
حضرت ابراہیم دینے والے تھے وہی قربانی ۔
عید نام ہے خوشیاں بانٹنے کامگر عید قربان نام ہے خوشیاں ریفریجریٹ کرنے
کا۔غلاظتیں بکھیرنے کا-میں جانوروں کی آلائشوں کی بات نہیں کر رہی ہوں۔ میں
اندر کی ہوس، گھٹیا پن اور غلاظت کی بات کر رہی ہوں۔ من پسند لوگوں کو
نوازنے اور حقداروں کو محروم کرنے والوں کا۔ ہم لوگ کچے مسلمان ہیں۔ احادیث
قرآن اور تعلیم کو حسب منشا استعمال کرنے والے ، خلاف ورزیاں کرکے ملبہ
دوسروں پر ڈالنے والے ، اپنی کوتاہیوں کا موردالزام تقدیرکو ٹھہرانے والے ۔
پہلے پکے مسلمان تو بن جاو پھر قربانی دینا ۔ اﷲ کو تمھارے مال کی نہیں،
تمھاری نیت ، تمھارے نفس ، تمھاری ناجائز غیر شرعی حرکات کی قربانی چاہییے
۔ اور وہ عزیز از جان چیز پانچ لاکھ کا بیل نہیں، تمھاری انا ، تمھاری نیت
ہے، تمھارا نفس ہے۔ اگر بات نمودونمائش کی ہے تو اس ذات سے مقابلہ ہو ہی
نہیں سکتاجن طاقتوں کا مظہر ذات باری تعالیٰ ہے۔ ہم اس کا کچھ بھی نہیں ۔
اس کی نمود نمائش کا پہلا نمونہ ہم ہی ہیں۔ انسان نے روبوٹ بنایا مگر قدرت
نے مینڈک ، بندر اور انسان کے جسمانی نظام کو ایک جیسا بنا کرہمیں حقیر بھی
کر دیا کہ اے بندے اتنا غرور کیوں ؟ جن چیزوں کا تو مالک بن کر اکڑتا ہے وہ
تو ایک کیڑے کے پاس بھی ہے۔ واقعی وہ سچ کہتا ہے۔ اور تم اپنے رب کی کون
کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے.؟
بحیثیت قوم پچھلے پینسٹھ برسوں سے ہم قربانی ہی تو دیتے آئے ہیں ، اپنی
خوشیوں ، ضرورتوں ، اپنے پیسے ، اپنی جان ، اپنی عصمتوں کی قربانی ۔ کیاکیا
قربان نہیں کیاہم نے۔ ارض وطن کے لیے ہم آج تک اپنے ملک کو اچھے حکمران
تودے نہیں پائے ۔ جو بھی آیا اس نے ملک کو قربان کیا ۔ کبھی جنگ کی صورت ،
کبھی اپنے مفاد کے لیے اور کبھی دہشت گردی کا نشانہ بنا کر۔ کبھی کسی نے
کوئی اچھی پالیسی نہیں بنائی۔ اس ملک کو بہتی گنگا سمجھا گیا۔ سب نے ہاتھ
دھوئے۔ معذرت کے ساتھ، اس حمام میں سب ننگے ہیں، چور ہیں۔ہمارا اعتبار
ہ،مارا تحفظ چوری کرتے ہیں۔ دن دیہاڑے ہم اپنی جانیں گنواتے ہیں اور وہ قتل
محض ردی کا ٹکڑا بن کر رہ جاتاہے۔ ساری غلطی حکمرانوں کے ذمہ منڈھ کر بری
الذمہ ہونا بھی نا انصافی ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ اﷲ نے اس قوم کی حالت نہیں
بدلی جسے خود اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو۔ہم بحیثیت فرد کہاں تک اپنا
فرض نبھا رہے ہیں؟ ہم میں سے جس کو طاقت ملتی ہے وہ فرعون بن جاتا ہے، غاصب
بن جاتا ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا قول ہے کہ طاقت اوراقتدار ملنے پر لوگ
بدلتے نہیں بلکہ اصلیت دکھاتے ہیں۔
ہم نے اپنے ملک کوکیا دیا سوائے کرپشن کے۔ کرپشن کڑوروں روپے لوٹنے اور کھا
جانے کو نہیں کہا جاتا۔ سگنل توڑنا ، ٹریفک کی خلاف ورزی کرنا ، چالان سے
بچنے کیلیے رشوت دینا ، گاڑی کے کاغذ پورے نہ رکھنا سے لیکر روزمرہ کے بہت
سے کام کرپشن کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ یہ حکمران اور آفیسرز ہم میں سے ہی
تو بنتے ہیں، تو کیاہم بحیثیت فرد اپنا فرض پوری ایمانداری سے نبھا رہے
ہیں؟ کون ہے جو حلفاً بیان دے کہ اس نے زندگی بھر کوئی بے ایمانی نہیں کی۔
جھوٹ نہیں بولا، رشوت لے یادے کر اپنا کام نہیں نکلوایا۔ ک وئی نہیں۔کون ہے
جو کہہ سکے کہ بیرون ملک جا کر اس نے پاکستانیوں کے بارے اچھی رائے سنی۔
وہاں ہم فرد نہیں بلکہ وطن کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہم پر دہری ذمہ
داری عائد ہوتی ہے ، اپنی تربیت اور اپنے ملک کی ذمہ داری۔کرکٹ میچ سے
سیاست، مزدور سے زمیندار عام آدمی سے حکمران ، ہر شخص پاکستان کے لیے اپنے
فرض سے کوتاہی کا جرم دارہے اور وہ لوگ جو ابھی تک اس ملک کے لیے قربان
ہورہے ہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رھا ہے کہ ان کی قربانی بھی رائیگاں جا
رہی ہے۔ چند لوگوں کی بے ایمانی یا غلط سوچ کی وجہ سے ہم اپنی اصل سے، اپنے
ایمان سے دور جا چکے ہیں۔ کیا ہم آج مل کر یہ عہد کر سکتے کہ ہم اگلی
عیدقرباں پراپنے نفس کا شیطان قربان کر دیں گے۔ ہم اپنی خوشیوں میں دوسروں
کی حق تلفی نہیں کریں گے ۔دوسروں کو ساتھ شریک کریں گے کیونکہ خوشی بانٹنے
سے زیادہ ہو جاتی ہے اور غم بانٹنے سے کم ہو جاتا ہے۔ .نفرت کو مٹاؤ محبت
اپنے آپ پھیل جائیگی۔ محبت اپنا اشتہار خود ہوتی ہے تو اگلی بار ایک قربانی
نفرت کی بھی سہی، انا کی بھی سہی۔ |