آٹھ اکتوبر 2005پاکستان کی تاریخ کا
سب سے ہولناک زلزلہ آیاجس میں ہزاروں قیمتی انسانی جانیں لقمہء اجل بن گئیں
۔کشمیر سمیت مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ( شہر) مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔اس
قیامت خیز زلزلہ کی بھیانک یادیں اتنی لرزہ خیز ہیں کہ انہیں قلمبند کرتے
ہوئے یا بیان کرتے ہوئے بے اختیار آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ وہ
قیامت خیز گھڑیاں یقینا ہر کسی کے لیے نشان عبرت سے کم نہیں ہیں۔پورے
پاکستان سمیت دنیا بھر سے زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کے لیے دل کھول کر عطیات
دیئے گئے ۔قیامت خیز زلزلہ کے دوران میں ہانگ کانگ میں بسلسلہ روزگار قیام
پذیر تھا۔وہاں مجھ سمیت قیام پذیر پاکستانیوں کی جو حالت زار تھی وہ بیان
سے باہر ہے۔مسلمان اور پاکستانی تو ایک طرف ہانگ کانگ کے اپوزیشن لیڈر لانگ
ہیئر کو میں کبھی بھلا نہیں پاؤں گا جو زلزلہ کے تیسرے دن شہر کے وسط میں
لوگوں سے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے کیمپ لگائے بیٹھا تھا ۔اور وہاں کے بزنس
تائیکون لی کا شنگ کی یادیں بھی میرے لیے انمٹ ہیں کہ اس نے زلزلہ کے دوسرے
دن ہی پانچ لاکھ یو ایس ڈالرز زلزلہ متاثرین کے لیے بھجوا دئیے تھے ۔وہاں
کے لوگوں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا ۔اور یہی حال پوری دنیا کے لوگوں کا تھا
اور بلاشبہ اس وقت مذہب،قومیت ،رنگ و نسل سے ہٹ کر انسانیت کا درد ہر طرف
موجزن تھا ۔اس قیامت خیز زلزلہ کو گزرے 11برس بیت گئے ہیں۔ان گیارہ برسوں
میں متاثرین زلزلہ نے کیا کھویا کیا پایا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔متاثرین
زلزلہ آج بھی دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔امداد کے نام پہ آئے اربوں
ڈالرز کہاں گئے کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ری ہیبلی ٹیشن کے نام پر ادارے
بنائے گئے اب وہ ادارے بھی ختم ہوگئے مگر کام سارے ادھورے ہی رہ گئے۔صرف
مانسہرہ ہی کی مثال لے لیں ۔ گیارہ سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کنگ عبداﷲ
ٹیچنگ ہسپتال نہیں بن سکا ۔نیو بکریال سٹی کا پانچ فیصدی کام بھی مکمل نہیں
ہو سکا ۔سینکڑوں سکول مسمار ہوئے اور بچے آج بھی کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل
کرنے پر مجبور ہیں ۔ان اربوں ڈالرز سے نہ تو متاثرین زلزلہ کو گھر بنا کر
دئیے گئے اور نہ ہی ان کے لیے روزگار کا بندوبست کیا گیا نہ تو مانسہرہ میں
کوئی انڈسٹریل سٹیٹ بنائی گئی اور نہ ہی یہاں فیکٹریاں لگائی گئیں کہ جہاں
یہ لوگ باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔اس غفلت و کوتاہی کی کوئی ذمہ داری لینے
کو بھی تیار نہیں ہے ۔ہر کوئی ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرانے میں مصروف
کار نظر آتا ہے۔اس وقت کے منتخب عوامی نمائندے آج بھی بر سر اقتدار ہیں مگر
وہ بڑی ڈھٹائی سے خود پر کوئی الزام لینے سے انکاری ہیں۔ERRAبنائی گئی
PERRAبنائی گئی یہ ادارے اب ختم بھی کر دئیے گئے ہیں مگر ان کا بھی کوئی
کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔فائل ورک اور کاغذی جمع خرچ کے ماہر یہ
ادارے سب اچھا کی رپورٹ دیتے دیتے ختم ہو گئے ہیں مگر متاثرین زلزلہ آج بھی
اپنی وہ تلخ یادیں نہیں بھلا پائے ۔ان اداروں کی موجودگی میں ہر سال
متاثرین زلزلہ ان اداروں کے ہی خلاف احتجاج تو کر تے رہے ہیں مگر اب تو وہ
احتجاج کرنے سے بھی قاصر ہوگئے ہیں۔اس دور میں منتخب عوامی نمائندوں نے جو
لوٹ مار کی اور جس طرح اپنے بینک بیلنس بڑھائے اس کی تحقیقات اگر آج بھی
ٹھیک طریقے سے کی جائیں تو کئی بڑے بڑے سیاستدان جیل کی سلاخوں کے پیچھے
نظر آئیں گے مگر چیک اینڈ بیلنس کے فقدان کے باعث ایسا ہونا ممکن نظر نہیں
آتا۔ایم این ایز ،ایم پی ایز سمیت ناظمین سبھی اس بہتی گنگا میں اشنان کرتے
رہے ہیں زلزلے کی ہولناک تباہی سے جہاں ہر کوئی لرزاں تھا اور مغفرت کی
دعائیں مانگ رہا تھا وہاں ہمارے منتخب عوامی نمائندے متاثرین زلزلہ کی
امداد ہڑپ کرنے پہ جتے ہوئے تھے اب بھی کسی منتخب عوامی نمائندے کے گھر پہ
چھاپہ پڑتا ہے تو اس کے گھر سے زلزلہ کا ڈمپ کیا ہوا مال برآمد ہوتا ہے
کہیں سے چھت کی چادریں ملتی ہیں کہیں سے خیمے اور کہیں سے اشیائے خوردونوش
جو اب نہ وہ کسی کو دے سکتے ہیں اور نہ ہی استعمال کر سکتے ہیں ۔اور بجا
طور پر یہی چیزیں ان کے لیے باعث عذاب بنیں گی ۔ایرا ،پیرا اور ڈسٹرکٹ ری
ہیبلی ٹیشن ادارے بھی سارا فنڈ ہڑپ کرنے کے ہی چکروں میں رہے۔یہی حال ملکی
و غیر ملکی این جی اوز کا بھی رہا ہے۔دورے ،سمینار،نقشے ،بھاری بھرکم
تنخواہیں ،کاغذی فائلیں اور ٹائیں ٹائیں فش۔قدرتی وسائل اور حسن سے مالا
مال ان علاقوں کو اگر کوئی مخلص قیادت میسر آجائے تو بلاشبہ یہ علاقے ترقی
یافتہ ہوسکتے ہیں مگر دکھ و افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ قیادت کے نام پر
ایسی جونکیں عوام کو میسر آتی ہیں جو مسلسل عوام کا خون چوسنے کے درپے رہتی
ہیں ۔اگر ان اربوں ڈالرز کو دیانتداری سے استعمال کیا جاتا تو اس خطیر رقم
سے پورا ملک تبدیل ہو سکتا تھا اور متاثرین زلزلہ یوں دردر کی ٹھوکریں
کھانے پہ مجبور نہ ہوتے۔بالا کوٹ جائیں تو آج بھی لوگ شیلٹرز میں رہنے پہ
مجبور ہیں اور ضلع بھر میں تعمیر ہونے والے گھر اور پلازے آج بھی بغیر کسی
حفاظتی انتظامات کے بنائے جا رہے ہیں اور اگر خدانخواستہ اس علاقے میں
دوبارہ ایسا کوئی سانحہ ہوا تو جو تباہی مچے گی اس کی ذمہ داری بھی کوئی
لینے کو تیار نہیں ہو گا ۔ایسے سانحے قدرت کی طرف سے الارم ہوتے ہیں ایسے
سانحات کے بعد قومیں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں اور انتہائی دکھ و
افسوس سے کہنا پڑے گا کہ قدرتی الارم کے بعد ہماری قوم سدھرنے کی بجائے اس
میں مزید بگاڑ آیا ہے ۔اﷲ پاک ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ |