سماجی و معاشی گرداب اور جنگ کے سائے
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
حالیہ دنوں میں پاک بھارت تعلقات میں جو
تلخیاں نمودار ہوئی ہیں۔ اِن سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ کشمیر کی آزادی
تک نہ تو اِس خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اِس خطے کے لوگ سماجی
و معاشی طور ہر بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔بہت زیادہ تمہید کی
ضرورت نہیں۔جب سے مودی سرکار آئی ہے کشمیر کے آزادی کا معاملے پوائنٹ آف نو
رٹرن پر پہنچ چکا ہے۔اِس معاملے میں بھارت کو پا کستان کی دُشمنی نہیں بلکہ
مودی کی عقل و دانش پر ماتم کرنا چاہیے کہ جو کام پاکستانی حکمرانوں سے
نہیں بن پا رہا تھا۔ وہ کام ریندری مودی کے کوڑھ دماغ نے کر دیا اور
کشمیریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ پر خود چین کی نیند کیسے سوئی جاسکتی ہے۔
اِس لیے کشمیر کی وادی میں جو ظلم و ستم بھارتی فوج نے روا رکھا ہے اُس کا
حتمی نتیجہ کشمیر کی آزادی پر ہی نکل پائے گا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے
سی پیک منصوبے کی مخالفت اور امریکہ کے ساتھ مل کر اِس منصوبے کو ختم کرنے
کی کوششیں دم توڑ چُکی ہیں ا ور پاک چین معاشی روابط ایک نہی جہت میں داخل
ہو چُکے ہیں۔ اب کشمیر کا پاکستان کے کسی بھی معاملے میں لا تعلق رہنا عبث
ہے۔گوادر تک پہنچنے کی امریی بھارتی خواہش کا گلہ کاٹنے والے پاک فوج کے
عظیم جرنیل جناب راحیل شریف نے پاکستانی قوم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ سی
پیک کے لیے ہر طرح کی دہشت گردی کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ یوں بھارت کی
تقسیم کو پاپ سمجھنے والا متعصب ہندو اب اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہے کہ چین
پاکستان اور ترکی کی جانب سے امر یکہ اور بھارت کو سرد رویوں کا سامنا
ہے۔پاکستان کی سیاسی و فوجی تاریخ نے وہ کارنامے انجام نہیں دئیے جو کہ
قابل تحسین ہوں لیکن مشرقی پاکستان کی علحیدگی کے بعد پوری قوم کے ذہن میں
یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ بھارت کی یاری غداری ہے۔ اِس لیے پاکستان کی خارجہ
پالیسی کا مرکز و محور پاک بھارت تعلقات پر منحصر ہے۔اقوام متحدہ کے معیار
کے مطابق اگر کوئی ملک مسلسل بیس سال تک فی کس آمدنی کی شرح میں اضافہ کرتا
چلا جاتا ہے تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔ پاکستان میں فی
کس آمدنی کے حوالے سے بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔افراط زر کی شرح میں
اضافہ اور بچتوں کا نہ ہونا یہ دو ایسے معاشی اشارئیے ہیں کہ اِن کی بدولت
پاکستانی معیشت کو زبوں حالی کا سامنا ہے۔ پاکستانی معیشت کا بہت زیادہ
نقصان عوام کا رویہ ہے ۔ عوام اپنی کمائی کو موبائل فون کی مد میں اُڑا
جاتے ہیں۔ اگر پاکستان میں 12 کروڑ سے زائد صارفین موبائل فون کے ہیں تو
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی ساٹھ فی صد آبادی کو صاف پانی پینے کے
لیے میسر نہیں لیکن موبائل فون وہ استعمال کرتی ہے۔ موبائل فون کمپنیوں کا
تعلق بیرون ملک سے ہے یون خالص منافع کی مد میں اربوں ڈالر سالانہ ملک سے
باہر جارہے ہیں۔ یوں وہ طبقہ جو کہ دوو وقت کی روتی کو ترستا ہے وہ بھی
موبائل فون کا رسیا بنا ہوا۔ ساوتھ ایشاء کے ممالک کی ایک رپورٹ کے مطابق
روٹی سے عاجز اور جن کے پاؤں میں جوتے بھی نہیں ہیں اُن کی جیب میں موبائل
فون ہے۔ ماضی میں انتہائی ایمرجنسی میں استعمال ہوناے والا فون اب نوجوانوں
کے لیے وبال بنا ہوا ہے۔ نفسیات کے ماہرین کی ایک بین الاقومی رپورٹ جس کی
سٹڈی پاکستان کے حوالے سے ہے کے مطابق پاکستان میں گھر سے بھاگ کر یا پسند
کی شادی کے رحجان کے وجہ موبائل فون کا کثرت سے استعمال ہے۔یوں عورت اور
مرد کے درمیاں جو ایک حجاب تھا وہ اِس موبائل کے بہت زیادہ استعمال کی وجہ
سے مفقود ہو کر رہ گیا ہے۔وہ معاشری اقدار جو کہ اسلامی معاشرئے کا جھومر
ہو ا کرتی تھیں۔ جن پر اہل مشرق نازاں تھے اُس کا وجود گم ہو گیا ہے۔
والدین دوستوں کے لیے وقت نکالنا تو دور کی بات انسان کے خود کے لیے وقت
نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ سو شل میڈیا ، انٹرنیٹ، موبائل، کمپیوٹر جو کہ
نہایت ہی اعلیٰ ایجادات ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں وہ مثال صادق آتی ہے کہ
بندر کے ہاتھ میں ماچس۔ پاکستانی معیشت کو زہر آلود کرنے وا لی کرپشن ہر
شعبہ ہائے زندگی میں سرایت کر چکی ہے۔ اِ ن تمام باتوں کے باوجود کے
پاکستانی معیشت نے نواز حکومت میں نمو اختیار نہیں کی لیکن سی پیک کے
منصوبے کی تکمیل کے بعد امید واثق ہے کہ عام آدمی کی معاشی و سماجی زندگی
میں بہتری آئے گی۔نوکر شاہی کی وجہ سے نواز حکومت کو کسی بھی شعبے میں نیک
نامی نہیں مل سکی۔ شہباز شریف کی محنت پر کوئی سوال نہیں لیکن شہباز شریف
کی گڈ گورنس کی قلعی تو اِس بات سے کھل جاتی ہے کہ شہباز شریف نے کام کرنے
کے لیے بہتر ٹیم نہیں بنائی۔کسی تامل کے بغیر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر
شہباز شریف بیوروکریسی کے گھوڑئے کو لگام دئے لیں تو صوبہ پنجاب میں حالات
بہتر صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
|
|