حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(C.M.Farooq habib Basra, Karachi)
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت
محمد مصطفی ﷺ کے چھوٹے نواسے اور علی ابن طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور
حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چھوٹے بیٹے ہیں ۔ آپ کا نام
حسین اورکنیت ابو عبداللہ ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں رسول اللہ حضرت محمد مصطفی
ﷺ کا ارشاد ہے کہ ”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں“
ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان کے دن حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئی ۔اس خوشخبری کو سُن کر جناب رسالت ماب حضرت
محمد ﷺ تشریف لائے ۔نواسے کو گود میں لیا ۔داہنے کان میں اذان اور بائیں
میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دی ۔پیغمبر اسلام کا مقدسلعاب دہن
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی غذا بنا۔ساتویں دن عقیقہ کیا
گیا۔سر کے بال اتروائے گئے اور رسول اللہ ﷺ نے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ
کی اور دو مینڈھے ذبح فرمائے-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پرورش آغوشِ رسالت ﷺ میں ہوئی ۔حضرت سیّدنا امام
حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بھائی حضرت سیّدناامام حسن رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے عمر میں تقریباً گیارہ ماہ چھوٹے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ اپنے دونوں
نواسوں سے یکساں محبت کرتے تھے ۔سینے پر بٹھاتے ۔کندھوں پر چڑھاتے اور
مسلمانوں کو تاکیدفرماتے کہ ان سے محبت رکھو۔مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ ﷺ
کی محبت کے انداز کچھ امتیازِ خاص رکھتے تھے ۔ سجدے کی حالت میں دورانِ
نماز حسینؓ پشت مبارک پر آگئے تو سجدے کو طول دیا یہاں تک کہ آپؓ خوشی سے
خود پشت سے اتر نہ آئے ۔دوران خطبہ آپ ؓ کو آتے دیکھا تو خطبہ ادھورا چھوڑ
کر جا کر اٹھالیا کہ کہیں گر نہ جائیں۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سر سے سینہ تک اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سینے سے قدم تک اپنے
نانا کے ہم شکل تھے ۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاکیزہ صفات
میں اس حدیث مبارکہ سے بڑھ کر کسی مو رخ یا سوانح نگار کا بیان نہیں ہوسکتا
جس میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ۔”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔جو
حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے ۔حسین میری اولاد کی اولاد ہے “
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ عصمت و طہارت کا مجسمہ ہیں ۔ آپ کی عبادت ،
زہد ،سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کے دوست و دشمن سب ہے قائل تھے-
پچیس حج آپؓ نے باپیادہ کئے ۔ آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول
اللہ ﷺ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا ”حسین میں میری سخاوت اور
میری جرات ہے“ ۔چناچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ
برابر قائم رہتا اور کوئی سائل محروم واپس نہ ہوتا۔ اس وجہ سے آپ ؓ کا لقب
ابوالمساکین ہوگیا تھا ۔راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے بورے اپنی پیٹھ پر
اٹھا کر لے جاتے اور غریب محتاج بیواﺅں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے ۔ جن کے
نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے ۔غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا
برتاﺅ کرتے ۔ذرا ذرا سی بات پر اُن کو آزاد کردیا کرتے ۔آپ کے علمی کمالات
کے آگے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا۔مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپ ؓ کی
طرف رجوع کی جاتی۔
واقعہ کربلا تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا اس واقعہ کی خبر اللہ
نے حضور ﷺ کو کردی تھی ۔روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی زوجہ حضرت
اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا کہ یہ
اوس جگہ کی مٹی ہے جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا ۔جب وہ شہید ہوگا
تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہوجائے گی ۔واقعہ کربلا کے وقت حضرت اُمِ سلمہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیات تھیں اور جس وقت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
شہید ہوئے۔یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہوگئی تھی۔
آنحضور ﷺ اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی
حاکمیت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی تھی -
یزید کی حکومت چونکہ اس اصول کے برخلاف شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی
گئی تھی ۔اس لئے امام حسین اس اسلامی اصول اور قدروں کی بقا و بحالی کے لئے
میدانِ عمل میں اترے۔آپ ؓ نے اسلامی اصولوں کو پامال کرنے والوں کے خلاف
کلمہ حق بیان کیا اور آپ کی شہادت نے اسلام کو دوبارہ سے تقویت اور ایک نئی
روح بخش دی ۔باطل کے سامنے نہ جھکنے کی روح
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد |
|