اسلامی معاشرہ

انسان اپنی پیدائش سے ہی ایسا پیدا کیا گیا کہ وہ معاشرے کو تشکیل دیئے بنا اپنی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر رہا ۔انسانی معاشرے کی تشکیل و تنظیم کا دور انسان کے ابتدائی شعوری دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔مختلف معاشروں کی تشکیل عمل میں آتی گئی ۔وقت کے گزرتے اُن معاشروں میں جب انسانی نفس کے ہاتھوں کچھ برائیاں پروان چڑھیں جنہوں نے معاشرے کے حسن کو خراب کرنا شروع کیا تو اُن برائیوں کے سدِ باب اور معاشرے کو راہِ راست پر لانے کے لئے ہر دور میں انبیاءکرام کی ایک بڑی تعداد بنی نوع انسان کو میسر رہی ۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے کی عمدہ تخلیق کے لئے رہنمائی فراہم کی ۔انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اسی دور میں انسانی تہذیب اور معاشرہ انتہائی پستی اور بداخلاقی کی انتہاتک پہنچا جب اُس معاشرہ میں کوئی نبی موجود نہیں تھا۔جب نبی کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد انسانوں نے اُن کی تعلیمات سے رُو گردانی کی اور ابلیس کے بہکاوے میں آکر اللہ تعالیٰ کی نافذ کردہ حدود سے تجاوزکرنے لگے۔پھر اللہ نے اُن کی بھلائی کے لئے انہیں سیدھی راہ متعین کروانے کے لئے نبی بھیجا ۔

اسلام سے قبل اہلِ عرب بھی معاشرتی طور پر انتہائی پستی کا شکار تھے ۔عرب میں کئی قبائل آباد تھے ۔جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر دست و گریباں رہتے تھے دو آدمیوں کا جھگڑا قبیلوں کی جنگ میں تبدیل ہوجاتا تھا جو برسہابرس جاری رہتی تھیں ۔عورتوں کا کوئی مقام نہ تھا ۔بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔غرض انسانی معاشرے کی تمام تر برائیاں اُس معاشرے میں موجود تھیں کہ اللہ تعالیٰ کو اُن کی حالت ِ زار پر رحم آگیا اور اللہ تعالیٰ نے محض اُن کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی فلاح کے لئے ہادی برحق سیّدنا حضرت محمد مصطفیﷺ کو مبعوث فرمایا۔آپ ﷺ کی پُر اثر شخصیت اور آپ ﷺ کی تعلیمات نے وہ اثر کیا کہ جو کل تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ۔وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئے ۔بھائی بھی ایسے کہ اخوت اور بھائی چارے کی ایسی نظیر کسی معاشرے نے پہلے کبھی دیکھی نہ سنی اسلام نے عورتوں کو عزت دی ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی ۔

ایک سے زیادہ بہنوں اور بیٹیوں کی کفالت کرنے والے کو جنت میں حضور ﷺ نے اپنے ساتھ ہونے کا اعزازبخشا۔غلاموں کے ساتھ نرمی کا حکم دیا۔بڑوں کی تعظیم اور بچوں سے شفقت کے ساتھ پیش آنا سکھایا۔

غرض اسلام نے ہر انسان کو حقوق دیئے اور معاشرے میں اُس کے باعزت کردار کی وضاحت کی اور اُس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔بعدازاں یہ معاشرہ ترقی کرتے ہوئے آج اس مقام پرآگیاہے جہاں اسے ترقی یافتہ معاشرہ کہا جاتا ہے لیکن ہمارا طرز عمل معاشرے کا جز ہونے کے باوجود رہبانیت کا ہے ہم اس معاشرے کاحصہ تو ہیں لیکن ہمیں اس بات کی کوئی خبر نہیں کہ ہمارا پڑوسی کس حال میں ہے ۔جب کہ اسلام پڑوسیوں کے اس قدر حقوق بیان کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کو یوں لگنے لگا تھا کہ شاید وراثت میں بھی پڑوسیوں کاحصہ مقرر کردیا جائے ۔لیکن ہمارا حال تو یہ ہے کہ ایک گھر میں اگر آٹھ دس افراد ہیں تواُن کو آپس میں بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ہے کوئی موبائل میں مصروف ہے تو کوئی لیپ ٹاپ میں ، کوئی ٹی وی دیکھ رہا ہے تو کوئی ویڈیوگیم کھیلنے میں مصروف ہے ۔دوستوں کے ساتھ ہوں تو بھی یہ ہی صورتحال ۔جب کہ ہمیں پانچ نمازوں کا تحفہ دیا گیا کہ دن بھر میں پانچ مرتبہ ایک دوسرے سے ملاقات ہو ایک دوسرے کے حالات و واقعات کا علم ہو ۔ اپنے معاشرے میں پھیلے مسائل سے آگاہی ہو ۔اُن مسائل کے سدِباب کے لئے باہم مشورہ ہو۔ تاکہ ایک مثبت اور اصلاحی معاشرہ تشکیل پاسکے ۔ لیکن ہم اوّل تو مسجد کا رُخ ہی محض جمعة المبارک یا عیدین کی نمازوں کے لئے کرتے ہیں اور جو جاتے ہیں وہ کاروبارِ دنیا اور اپنی ذاتی پریشانیوں میں اس قدر الجھے ہوئے جاتے ہیں کہ یہ ہوش تک نہیں ہوتا کہ کس کے حضور حاضری دینے پہنچے ہیں ۔ تو لوگوں کی پرواہ کیا ہوگی ۔ سو جلد ازجلد نماز کو ایک بوجھ یا روٹین ورک کی طرح ادا کرکے لوٹ آتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ِ عظیم کے ہمیں مسلم گھرانے میں اپنے محبوب ﷺ کا امتی بناکر بھیجا ۔اس نعمت عظیم کے شکرانے کے طور پر اسلام میں پورے پورے داخل ہوجائےے آخرت کی بے حساب نعمتیں تو مقدر بنیں گی ہی ۔یہ دنیا بھی کسی جنت سے کم نہیں ہوگی۔
C.M.Farooq habib Basra
About the Author: C.M.Farooq habib Basra Read More Articles by C.M.Farooq habib Basra: 3 Articles with 2662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.