سرزمین حرمین شریفین کا سفر

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے میں اپنے محترم استاذ مولاناابوذرکے پاس بیٹھا تھاکہ باتوں باتوں میں سرزمین حجاز کا ذکر خیر چل نکلا۔ وہ چند دن قبل ہی عمرہ کی سعادت حاصل کر کے واپس تشریف لائے تھے۔میں ان سے بیت اﷲ اور مسجد نبوی ﷺ کے متعلق کچھ سننا چاہتا تھا اور وہ بھی دعوت دین کا فریضہ ادا کرتے ہوئے مجھے کچھ سمجھانا چاہتے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ انسان کی نیت خالص ہو تو اﷲ تعالیٰ اپنے گھر کی حاضری کی سعادت ضرور عطا فرماتا ہے۔ مجھے عمرہ کرنے کی بہت خواہش تھی اور اس سلسلہ میں دعائیں بھی بہت کرتا تھالیکن پھر سوچتا کہ میرے پاس وسائل تو ہیں نہیں نہ جانے کون سی گھڑی ہو گی جب بیت اﷲ شریف جا کر نمازیں ادا کر سکوں گا جہاں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے‘ بہرحال میں انہی خیالات میں مگن رہتاکہ ایک دن میرے ایک دوست تشریف لائے اور کہنے لگے کہ اپنا پاسپورٹ مجھے دے دیں ‘ چند دن بعد آپ نے عمرہ کیلئے جانا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ مجھے اچانک اس کی بات سن کربہت حیرانگی اور خوشی ہوئی کہ لگتا ہے اﷲ تعالیٰ نے میری دعائیں سن لی ہیں۔چند دن میں ہی سب انتظامات مکمل ہوئے اور اب میں عمرہ کی سعادت حاصل کر کے واپس بھی آچکا ہوں۔اس دوران جہاں انہوں نے اور بہت سی باتیں بتائیں وہاں خاص طور پر یہ نصیحت کی کہ حج و عمرہ کی خواہش اور اپنی نیت خالص رکھواﷲ تعالیٰ اس طرح سے اسباب پیدا کرتا ہے کہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔مجھے ان کی یہ بات دل کو بہت لگی۔ ارادہ اور خواہش تو پہلے بھی تھی لیکن اس کے بعدمیں نے اپنی نیت پر اور زیادہ پہرہ دیا۔ اس ملاقات کے بعد پتہ نہیں کیوں مجھے یقین کی حد تک گمان تھا کہ امسال اﷲ تعالیٰ میرے لئے بھی حج کے اسباب اور وسائل ضرور پیدا کرے گا۔ استاد محترم سے ملاقات کے بعد وقت تیزی سے گزرتا رہا اور حج کا موسم قریب آتا گیا۔ جوں جوں حج کے دن قریب آرہے تھے میری بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ یونہی وقت گزر رہا تھا کہ ایک دن میری بہت ہی ہمدرد شخصیت کی ٹیلیفون کال آئی۔سلام دعا کے بعد کہنے لگے کہ کیا آپ حج پر جانا پسند کریں گے؟ان کی یہ بات سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی‘ میں نے کہاکہ بیت اﷲ کی زیادت کیلئے تو ہرمسلمان جانا چاہتا ہے‘ میں بھلا کیسے انکار کر سکتا ہوں؟ جس پر وہ کہنے لگے کہ جلدی سے اپنا پاسپورٹ مجھے بھیج دیں اس مرتبہ آپ بھی ان شاء اﷲ حج کیلئے جائیں گے۔ میں نے اس خوشخبری پر نفل اداکئے اور پھر اپنی ضعیف والدہ محترمہ کو آگاہ کیا جن کی دعاؤں سے اﷲ تعالیٰ میری زندگی میں یہ مبارک موقع لیکر آرہا تھا۔اس دن کے بعد سے مجھے تین برس قبل وفات پانے والے اپنے والد محترم بھی بہت یاد آئے جو اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہم بہن بھائیوں کیلئے بہت زیادہ دعائیں کیا کرتے تھے۔اﷲ تعالیٰ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطافرمائے۔ آمین۔ 29ستمبر کو میں لاہور سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہوا۔ رات وہاں گزارنے کے بعد اگلے دن صبح ایئرپورٹ پہنچا تو کچھ دیر بعد نوائے وقت کے سینئر ایڈیٹر محترم سعیداحمد آسی صاحب بھی ایک طرف سے آتے دکھائی دیے۔ چند دن قبل ہی فیس بک پر ان کا اسٹیٹیس پڑھنے سے مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ بھی اسی تاریخ کو سعودی عرب کیلئے روانہ ہو رہے ہیں تاہم مجھے یہ کنفرم نہیں تھا کہ ہماری فلائیٹ ایک ہی ہے یا مختلف جہازوں کے ذریعہ ہم وہاں پہنچیں گے۔ معمول کی چیکنگ کی خاطر سینکڑوں مسافروں کیلئے صرف دو کاؤنٹر تھے اسلئے یہاں خاصا وقت لگا جس پر مسافروں کو اچھی خاصی کوفت ہوئی ۔ میں سمجھتاہوں کہ اگر پاکستانی حکام کی جانب سے چند ایک کاؤنٹر مزید بنادیے جائیں تو اس سے مسافروں کو کیلئے بہت آسانی ہو گی اور گھنٹوں لائنوں میں کھڑے رہنے کی جو اذیت اٹھانا پڑتی ہے اس سے بھی ان کی جان چھوٹ جائے گی۔ بہرحال یہاں سے فارغ ہونے کے بعد جب میں لابی میں پہنچا تو تھوڑی دیر بعد سعید آسی صاحب بھی وہیں آن پہنچے جس پر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اﷲ تعالیٰ نے اس مقدس سفر کیلئے ایک اچھا ساتھ بنا دیا ہے۔جدہ کیلئے جہاز میں سوار ہونے کے اس پہلے مرحلہ سے لیکر حج بیت اﷲ کی ادائیگی کے بعد واپس لاہور ایئرپورٹ پہنچنے تک ہم ایک ساتھ رہے اور الحمد ﷲ بہت یادگار دن گزرے۔

میں نے اپنے پچھلے کالم میں سعودی حکومت کی طرف سے کئے جانے والے انتظامات کا سرسری تذکرہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مملکت سعودی عرب کی جانب سے بیرون ممالک سے آنے والے لاکھوں حجاج کرام اور ملک کے اندر سے حج کرنے والوں کی جس طرح منظم انداز میں خدمت کی جاتی ہے‘ ان کی رہائش اور نقل و حمل کو آسان بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں بڑی سے بڑی حکومتیں بھی یہ کام نہیں کر سکتیں۔ ایک متعین وقت میں لاکھوں افراد کے امور چلانا، ان کی رہنمائی اور حج جیسی عظیم عبادت کی ادائیگی کو آسان کرنا اﷲ تعالیٰ کی توفیق اور مدد کے بغیرکسی طور ممکن نہیں ہے۔ یقینی طو رپر اﷲ تعالیٰ نے مملکت سعودی عرب کو اپنے خاص فضل و کرم سے ایسے اسباب اور وسائل مہیا کئے ہیں کہ یہاں اس طرح سے حجاج کی خدمت کی جاتی ہے کہ ایسے خوبصورت انتظامات دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ خادم الحرمین الشریفین کی جانب سے منیٰ ، مزدلفہ، عرفات ، میقات کی مساجد اور وہاں کی دیگر عمارتوں کی نگرانی کیلئے ’’وکالت برائے امور طباعت و اشاعت‘‘ کے نام سے باقاعدہ ایک وزارت قائم کی گئی ہے جو ایک طرف دینی لٹریچر کی تیاری اور اسے لوگوں تک پہنچانے کا ذمہ دارہ ہے وہیں اس کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ مسلمانوں کی ذہنی تربیت کرے۔ دینی علوم پر مشتمل کتب اور لٹریچر کو بطور خاص دیگر زبانوں میں ترجمہ کر کے پھیلانے کا اہتمام کرے جو دعوت و تبلیغ میں ممدومعاون ثابت ہو سکے۔اسی طرح حج کے ایام میں اسلامی فکر و تربیت کا سیکرٹریٹ بھی اسی وزارت کے تابع ہے جو ہر سال حجاج کرام اور معتمرین کی رہنمائی کا اہتمام کرتاہے۔ یہ وزارت دینی معاملات کے علاوہ سعودی عرب کی بری سرحدوں، ہوائی اڈوں او ربندرگاہوں کے علاوہ مکہ و مدینہ، منیٰ و عرفات اور حجاج کرام کی رہائش گاہوں میں انہیں حج وعمرہ کے احکام سے بھی آگاہ کرتی ہے اور یہ سلسلہ ان کے یہاں سے چلے جانے تک قائم رہتا ہے۔ ہم نے وہاں دیکھا ہے کہ حج کے ایام میں اس سیکرٹریٹ کی کوششیں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں اور اپنے دعوتی پروگراموں کی تکمیل کیلئے بہت سے ماہر مبلغین اور علماء کرام کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ان مختلف ممالک کے طلباء کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں جو یہاں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں تاکہ یہ مبلغین کی گفتگو ترجمہ کر کے حجاج کرام تک پہنچا سکیں۔ وزارت اسلامی امور حج کے ایام میں مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم اورکتابیں بھی بہت بڑی تعداد میں تقسیم کی جاتی ہیں جو حج اور عمرہ کے احکام سے متعلق ہوتی ہیں۔ مختلف نشریاتی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔ دعوتی مراکز قائم کئے جاتے ہیں اور حجاج کرام کو مسائل سکھانے و سمجھانے کیلئے دعوتی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں جو منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں گشت کر کے لوگوں کو حج کی تعلیم دیتی ہیں اور حجاج کرام کے سوالات و استفسارات کا جواب دیتی ہیں۔مذکورہ وزارت کی طرف سے تلاوت کی کیسٹیں تقسیم کی جاتی ہیں اور بہت سے ایسے اہم کام کئے جاتے ہیں جن سے حجاج کرام کو بہت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔ اپنے اگلے کالم میں ان شاء اﷲ جد ہ میں ہونے والی ملاقاتوں اور مدینہ منورہ میں گزری قیمتی ساعتوں سے متعلق ان شاء اﷲ عرض کروں گا۔
 
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.