خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کفریہ
طاقتوں نے مسلمانوں کے ساتھ آج تک جو کھلواڑ جاری رکھا ہواہے وہ نہ صرف
قابل مذمت ہے بلکہ ایک المیہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا -
کفریہ طاقتیں گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر صرف منصوبہ بندی کی زحمت گوارہ کرتی
ہیں باقی کام مسلمان سعادت سمجھ کر خود سرانجام دے رہے ہیں ، آئے روز مسلم
ممالک کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے مسلم کشی عروج پر ہے اور مظلوم کی داد رسی
دور کی بات مظلوم کو بولنے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا
نہ تڑپنے کی اجازت نہ فریاد کی ہے ۔۔۔۔۔ گُھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد
کی ہے
ایک طرف حقِ انسانیت سے محروم نہتے فلسطینی اپنے دفاع کے لیے چاقو اٹھا لیں
تو عالمی انصاف انہیں دھشت گرد قرار دے تو دوسری طرف مہلک ہتھیاروں سے لیس
اسرائیلی درندےمعصوم بچوں اور عورتوں کو گولیوں سے بھون دیں تو وہ امن پسند
،
نائن الیون کا بہانہ بنا کر امریکہ بہادر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دے
وہ امن کا عالمی مامے خان اور نہتے مظلوم کشمیریوں کی داد رسی کے لیے آواز
بلند کریں تو مسعود اظہر اور حافظ سعید دھشت گرد ؟
خونِ مسلم کی ندیاں بہہ جائیں ایک معمولی واقعہ سمجھا جائے اور اپنے نائن
الیون پہ تاحال ''جاسٹا '' کی ضرورت -
عراق ،لیبیا ، مصر ، شام ، افغانستان، یمن، کشمیر، برما میں لاکھوں مسلمان
گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے جائیں ، بموں سے ان کے چیتھڑے فضاء میں اڑا دیے
جائیں ،ان کے ہنستے بستے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جائے تو یہ امن
کوششوں کا حصہ قرار پائے جبکہ اس ظلم کا شکار کوئی سر پھرا مسلمان کسی سفید
چمڑی والے پر حملہ آور ہو جائے تو پورا اسلام دھشت گرد قرار پاتا ہے -
انصاف کا یہ معیار کب تک جاری رہیگا ؟ کب مسلم قوم کو وہ لیڈر میسر آئیں گے
جو دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں ، جو ظلم کو
ظلم کہہ سکیں ، مظلوم کو انصاف اس کی دہلیز تک پہنچا سکیں ، اپنے ذاتی
مفادات سے بالا تر ہو کر مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کی سوچ رکھنے والے ہوں ۔
قیادت کے فقدان کا یہ مسئلہ اگر حل نہ ہوا تو ہمارے حلب مٹی کے ڈھیروں میں
بدلتے رہیں گے اور قراردادیں ویٹو ہوتی رہیں گی ، فلسطینی غلیل بردار دھشت
گرد اور کیمیائی ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کرنے والے امن کے نوبل انعام
کے مستحق قرار پاتے رہیں گے
کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو کچھ تو کہو ستم کشو ، فریاد کچھ تو ہو
بیداد گر سے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو بولو کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلے تو سطوت قاتل کا خوف کیا اتنا تو ہو باندھنے نہ پائے دست و پا
مقتل میں کچھ تو رنگ جمے جشن رقص کا رنگین لہو سے پنجۂ ڈیاد کچھ تو ہو
خون پہ گواہ دامن جلاد کچھ تو ہو جب خوں بہا طلب کریں بنیاد کچھ تو ہو
چیخے ہے درد ''اے دل ''برباد کچھ تو ہو بولو کہ روز ِعدل کی بنیاد کچھ تو
ہو |