اردو اور انگریزی کے ممتاز مترجم اور نقّاد
پروفیسر محمد ذاکر کی تازہ مترجمہ کتاب ’ہندستانی سماج پر اسلامی اثر اور
دوسرے مضامین‘ معتبر مورّخ اور دانش ور پروفیسر محمد مجیب کے ۱۶ انگریزی
مضامین کا اردو ترجمہ ہے۔ مجیب صاحب گا ہے بہ گا ہے اردو میں بھی لکھتے رہے
اور آخری زمانے میں تو ’’کتاب نما‘‘ میں ان کے انگریزی نظموں کے تراجم اصل
متن کے ساتھ بھی شائع ہوتے رہے۔ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے ارکانِ ثلاثہ ذاکر
حسین، سید عابد حسین، اور محمد مجیب؛ سب کے سب انگریزی داں ہونے کے ساتھ
ساتھ اپنی مادری زبان کے شیدائی رہے۔ سب کے سب دونوں زبانوں میں صاحب اسلوب
بھی ہوئے۔ ہندستان کی قومی تحریک کے جاں نثاروں کی یہ کھیپ ایک ساتھ
ہندستان کی متوقع صورت کے نقش و نگار تلاش کرنے میں لگی رہی۔ ساتھ ہی ساتھ
اپنے ملک کی تاریخ، تہذیب کی تشکیل اور ارتقا کے جانے اَن جانے پہلوؤں پر
غوروفکر کرنا اور نئے حالات یا تقاضوں کے تحت ان کا تجزیہ کرنا اس کا شیوۂ
علمی بن گیا۔ اسی لیے یہ جدید ہندستان کی تعمیر کے لیے علمی ستون بن کر
اُبھرے۔ سب نے تصنیف وتالیف کو اپنی زندگی کا محور بنایا اور اپنی سماجی،
سیاسی یا انتظامی مصروفیات کے باوجود زندگی کے کسی بھی موڑ پر اپنی علمی
سرگرمیوں سے غافل نہیں ہوئے۔ ان کی کتابوں اور مضامین کو ایک بڑے حلقے نے
آنکھوں سے لگایا اور دلوں میں بسایا۔ ان کی فکر کا مرکز بہرصورت ہندستانی
مسلمانوں کی تاریخ اور مستقبل قرار پایا۔
منجملہ اور اوصاف کے محمد مجیب کی دانش ورانہ بصیرت ان کی مشہورِ زمانہ
کتاب ’ہندستانی مسلمان‘ ( The Indian Muslims) میں ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی
مورخانہ اوردانش ورانہ حیثیت کے سبھی قائل رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ دیگر
موضوعات پر وقتاً فوقتاً محمد مجیب نے بعض نہایت ہی فکر انگیز اور عالمانہ
مضامین قلم بند کیے۔ ایسے منتخب مضامین پہلی بار محمدذاکر کی ترجمہ نگاری
کے طفیل اس کتاب میں جلد بند ہو کر اردو زبان میں سامنے آئے ہیں۔ مضامین
کثیر الجہات ہیں اور بہت سارے علوم وفنون کی راہیں اس مختصر سی کتاب سے
نکلتی ہیں لیکن مصنف اور مترجم نے جس مضمون کو سرنامہ بنایا، وہ اس کتاب کی
رگوں میں دوڑنے والا خون ہے۔ یعنی بات امراؤ جان اداکی ہو یا حبّہ خاتون
کی، لال قلعہ زیرِ بحث ہو یا فارسی عربی رسم الخط، گرونانک ہوں یا مہاتما
گاندھی ––– ہر جگہ ہندستانی سماج پر اسلام کے اثرات کی جانچ پرکھ اور تجزیہ
وتفہیم کی کوئی نئی جہت آشکار ہورہی ہے۔ مترجم نے یہ اچھا کیا کہ اس کتاب
میں محمد مجیب کے باغ سے رنگ برنگے پھولوں کو اپنے گلدستے میں ضرور سجایا
لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ان پھولوں کی خوشبو میں ایک سبک خیزی اور
ہم واری ہو۔ یہاں مترجم مصوّر بن گیا ہے اور کینوس پررنگوں کا خلفشار پیدا
کرکے آنکھوں کو چوندھیانے کے بہ جاے ایک رنگ سے دوسرے رنگ کی محفل میں ایسی
نرم خرامی کے ساتھ ہمیں لے آتا ہے جیسے خوابوں کی کوئی نرم چادر اڑھادی گئی
ہو۔
اس کتاب میں ’تعارف‘ عنوان سے محمد مجیب کا جو مضمون شامل ہے، وہ پوری کتاب
کا واقعتا نچوڑ ہے۔ آج اکثروبیشتر ایسی کتابیں لکھی جاتی ہیں جن کے مصنّفین
کے ذہن میں اپنے موضوع کے بارے میں کوئی شفّاف تصوّر نہیں ہوتا اور نہ ہی
انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تجزیے کی کشتی کس ساحل پر لگے گی یا کس
بھنور میں ہچکولے کھاتی رہے گی۔ انھیں اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا ٹھیک
ٹھیک پتا نہیں ہوتا، صرف غرورِ بے جا کا دھواں ان کے اِرد گرد پھیلا ہوتا
ہے۔ محمد مجیب ہمارے معتبر اور عظیم لکھنے والے افراد کے سلسلے سے تعلق
رکھتے ہیں۔ ۱۴ صفحے کے اس ’تعارف‘ میں کتاب کے مشتملات پر محمد مجیب نے تین
چار سطریں لکھی ہیں لیکن اس کے بعد ہندستان کی تعمیروتشکیل، عہدِ قدیم سے
ہمارے زمانے کے احوال، حکومتوں، زبانوں اور مذاہب کی سماج بنانے میں خدمات
اور ان سب سے بڑھ کر ہندستان میں مسلمانوں کی آمد سے نئی تہذیبی تبدیلیوں
کے آثار––– ان پہلوؤں پر محمد مجیب نے کچھ اس انداز سے جملے رقم کیے ہیں کہ
مذہبی صحائف یا اقوال زرّیں جیسی زبان پیدا ہوگئی ہے۔ یہ ناقابلِ یقین ہے
اور حیرت سے آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں کہ ۸۰۰ سے زیادہ برسوں کی اتھل پتھل
کی کہانی بارہ چودہ صفحے میں اس طرح سے قید ہوگئی ہے کہ آپ اس کے ہر
اندھیرے اور ہر اجالے پہلو کو دیکھ لیتے ہیں۔ موضوع پر حیرت انگیز گرفت اور
ذاتی مشاہدے اور فکر کی ایسی اُپج ہے کہ ہمارے بالکل پاس سے ایسی کوئی مثال
پیش کردی جائے گی جسے ہم تو ہیچ سمجھ رہے تھے لیکن محمد مجیب نے اسے
ہنداسلامی تاریخ کا ستونِ نوبنادیا۔ اس مضمون سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :
(i) ’’ساتویں صدی کے وسط میں مسلمان عربوں نے ساسانیوں کا تختہ الٹ دیا تو
انھوں نے جنوبی ہند، سیلون یعنی لنکا اور مشرق کی طرف مرچ مصالحے اور دوسری
اور چیزوں کی تجارت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ جنوبی عراق کا شہر بصرہ ایک
تجارتی منڈی بن گیا، ایسا مرکز Extrepot جہاں مال آتا بھی تھا اور جاتا بھی
تھا۔ اس راستے پر سمندری ڈاکو برابر لوٹ مار کرتے رہتے تھے اور اصل میں اس
تجارتی راستے کے تحفّظ کے لیے ہی عربوں نے سندھ کو ۱۲۔۷۱۱ء میں فتح کیا
تھا‘‘ (ص ۔ ۱۴)
(ii) ’’عرب اسلام کو خاص اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ اُن ایرانیوں کو جو اسلام
قبول کر لیتے تھے، بہت مشکل سے مذہبی حیثیت ملتی تھی، وہ بھی جب، جب وہ عرب
خاندانوں یا قبیلوں کے موکل بن جاتے تھے کیونکہ مذہب کی تبدیلی کا مطلب یہ
سمجھا جا تا تھا کہ ان لوگوں (یعنی نومسلموں) کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا
جو سیاسی معاملات میں دخل دینے پر اصرار کریں گے اور عربوں کی (سیاسی طاقت
یا) اجارہ داری اور ان کے حقِ حکومت کے خلاف جنگ کریں گے۔‘‘ (ص۔ ۱۵)
(iii) ’’ہر صاحبِ استطاعت مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اسے اس کی مہمان
نوازی اور فیّاضی کی وجہ سے جانیں۔ ان احکام کے پیچھے جو اخلاقی اصول تھے،
وہ نمودونمائش کے جوش میں پسِ پشت جاپڑے تھے اور ان کے مالی اثرات کچھ
باتوں کے اعتبار سے اعلا طبقے کے لیے تباہ کن ہو تے تھے۔‘‘ (ص۔۱۸)
(iv) ’’اسراف (یا خرچِ بے جا) کی طرف مسلمانوں کا رجحان بے شک سادہ زندگی
کے نصب العین کی نفی تھی۔‘‘ص۔ ۱۹
(v) ’’ ہندوؤں کا مذہبی رجحان شہر سازی کے خلاف رہا ہے اور مسلمانوں کا
شدّت سے شہر سازی کی طرف۔ مسلمانوں کی حکومت کے دور میں شہروں کی تعداد بہت
بڑھ گئی اور وہ بہت بڑے بڑے بھی ہو گئے لیکن ....... کسی میں بھی نہ تو
مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں سے زیادہ تھی، نہ وہ اقتصادی اعتبار سے زیادہ خوش
حال تھے۔‘‘ (ص۔۲۰)
(vi) ’’شہر سازی کو اس طرح ہندستانی زندگی کو مسلمانوں کی ایک دین کہا جا
سکتا ہے۔‘‘ (ص۔۲۰)
(vii) ’’مسلمانوں کے ہاتھوں جو تبدیلی اس فن تعمیر میں ہوئی، وہ یہ تھی کہ
اس میں سنگ تراشی اور بت تراشی کی بجاے عمارت سازی کی کیفیت آگئی اور ساخت
کے اعتبار سے اس میں عمودیت کی بجاے اُفقیت آگئی۔‘‘ (ص۔۲۰)
(viii) ’’شمالی ہند کی بولیاں سنسکرت اور برہمنوں کے غلبے سے آزاد
ہوگئیں۔‘‘ (ص۔۲۳)
ان اقتباسات سے یہ بات پہلی نظر میں ہی سمجھ میں آجاتی ہے کہ محمد مجیب کے
تجزے میں کیسی جہاں بینی اور گہرا ئی ہے۔ نقطۂ نظر اس حد تک معروضی اور غیر
جانبدارانہ ہے جیسے علمی اعتبار سے کوئی مثالی صورتِ حال سامنے آرہی ہو۔
تاریخی حقائق کا ایسا دانش ورانہ اور بے لاگ تجزیہ بہت کم دیکھنے میں
آتاہے۔ چند جملوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے آٹھ سوبرسوں سے زیادہ کے
واقعات اور ان کے پیچھے کارفرماعوامل متحرک فلم کی طرح سامنے آجاتے ہیں۔ اس
تعارف میں محمد مجیب نے کچھ بڑے تاریخی حقائق بھی پیش کردیے ہیں :
(الف) عربوں نے سندھ پر حملہ خالص تجارتی غرض وغایت سے کیا تھا۔
(ب) ایرانیوں کے اسلام قبول کرنے کے باوجود عرب افراد ان کو برابر نہیں
سمجھتے تھے۔
(ج) فیّاضی اور فضول خرچی نے مسلمانوں سے سادہ زندگی کے نصب العین کو چھین
لیا۔
(د) شہرسازی کو ہندستان میں مسلمانوں کا بڑا کارنامہ سمجھنا چاہیے۔
(ہ) شمالی ہندستان کی بولیوں کو آزادانہ ترقی حاصل ہونے کے امکانات
مسلمانوں کی آمد سے پیدا ہوئے۔
اس کتاب کے سرنامے کا مضمون چھے صفحے سے کم طویل ہے لیکن مکمل کتابوں سے
جتنی معلومات یا بھر پور مطالعے کی توقع کی جاتی ہے، وہ اس مختصر نوشتے میں
سوفی صدی موجود ہے۔ ہندستانی سماج پر اسلامی اثر کن کن پہلوؤں سے واضح ہوتا
ہے، اس کی تحقیق کے نتائج محمد مجیب نے اس طرح پیش کیے ہیں :
(۱) مذہب عوام الناس تک پہنچ گیا۔
(۲) محض بولی جانے والی زبانیں (یعنی بولیاں) زبانیں بن گئیں۔
(۳) شہر تہذیب کا مرکزبن گئے۔
(۴) سلے ہوئے کپڑوں کا رواج عام ہوا۔
(۵) روزانہ استعمال کی چیزوں کی بہتات ہوگئی جس کی وجہ سے سادگی رخصت ہوئی
اور زندگی پُرلطف اور پیچیدہ ہوگئی۔
(۶) معاشرتی آداب تسلیم شدہ قانون بن گئے۔
کہنے کو یہ محض چھے باتیں ہیں لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ سات
سوبرس کے امتزاج واشتراک کی حصول یابی یہاں سمٹ کر چلی آئی ہے۔ اس مضمون کی
سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دور کی کوڑی لاکر فلسفہ طرازی یا مبہوت کردینے
والی حقیقت کی پیش کش سے رعب قائم کرنے کے بجاے سامنے کی سچّائیوں اور
مشاہدے اور تجربے کے بطن سے ابھرکر آنے والی حقیقی باتوں پر زیادہ توجہ دی
گئی ہے۔ مزاج کا رخ اس قدر معروضی ہے کہ باتیں کہتے وقت اس امرکا قطعی خیال
نہیں رکھا گیا ہے کہ اس کے سماجی یا سیاسی اثرات کسی کے لیے ناپسندیدہ تو
نہیں ہوں گے۔ محمد مجیب کا حقائق کی پڑتال کا انداز اچھا خاصا محققانہ ہے۔
اسی لیے نتائج کی پیچیدگی سے وہ باخبر ہیں اور اس سلسلے میں ان کا نقطۂ نظر
یہ ہے : ’’جہاں حقیقت پیچیدہ ہو اور پیچیدگی کی وجہ سے زیادہ دلکش ہوجائے،
وہاں ہمیں معاملات کو سادہ اور آسان بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
(ص۔۲۹) تاریخی اور سماجی مطالعے کا یہ ایسا زرّیں اصول ہے جسے محمد مجیب نے
اس کتاب کے ہر مضمون میں استعمال کیا ہے۔
تصوّف کے سلسلے سے اس کتاب میں دومضامین شامل ہیں۔ دونوں کا تناظر عالمی
ہے۔ تصوف کی تاریخ بیان کرتے ہوئے جب صوفیوں کی دواقسام ’ارباب ہوش‘ اور
’اصحاب سُکر‘ کا ذکر کرتے ہیں تو سرسری طور پر نتیجہ نکالنے کے بہ جاے محمد
مجیب کا کہنا ہے : ’’اس طرح صوفی اِزم یعنی تصوف کی وضاحت کرنی مشکل ہوجاتی
ہے؛ (لیکن) یہ بات صوفی (کی شخصیت) کو اور زیادہ، اور زیادہ دلکش بنادیتی
ہے‘‘۔ (ص۔ ۳۶) صوفیوں نے کس طرح شاعری کو مسلمانوں کے درمیان ایک کارآمد
شَے کے طور پر پیش کیا، اس موضوع پر رومی کے حوالے سے محمد مجیب کیسی خدا
لگتی کہہ گئے ہیں، ملاحظہ کیجیے : ’’تصوّف اور شاعری کے اس میل سے تہذیبی
اعتبار سے کوئی نتیجہ نکلا یا نہیں، اس سے آدمی میں وہ جرأت ضرور پیدا
ہوگئی جس نے اسے خدا سے ہم کلام کردیا ۔‘‘ (ص۔۳۷) تصوّف کے سلسلے سے محمد
مجیب کے نتائج عالمانہ تو ہیں ہی لیکن پیش کش کا انداز ایسا سادہ اور موثر
ہے جس سے یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کتنی گہری اور پُرمغز باتیں کہی جا رہی
ہیں۔ تین مختصر اقتباسات ملاحظہ کریں :
(۱) ’’مسلم تہذیب میں محبت، محبوب، وصل، مَے اور نغمہ، اسلام اور کفر، کعبے
اور بت خانے کو علامتیں کہہ کر ان دونوں رویّوں میں باہمی مطابقت پیدا کر
لی گئی۔‘‘ (ص۔ ۳۷)
(۲) ’’صوفی ازم یا تصوف صدیوں سے مسلمانوں میں دانش وری کا ایک فیشن تھا۔
جس طرح سیکولرازم غیر مذہبی ہوتا ہے لیکن اگر کوئی مجبوری آن پڑے تو مذہب
کے خلاف بھی ہو سکتا ہے، اسی طرح تصوّف بھی اگرچہ راسخ الاعتقادی نہیں ہوتا
تھا (غیر تقلیدی ہوتا تھا) لیکن وہ راسخ الاعتقادی کا مخالف بن سکتا تھا‘‘۔
(ص ۔ ۴۲)
(۳) ’’اپنے عروج کے زمانے میں تصوّف یقینا اندھی تقلید، سماجی ناانصافی اور
فرد کے جذبات کو کچل دینے کے خلاف واقعی بغاوت کی علامت بن گیا تھا۔‘‘
(ص۔۴۳)
یہ اقتباسات پروفیسر محمد مجیب کے تجزیے کی گہرائی کا مظہر ہیں۔ یہاں تصوّف
زندگی اور سماج سے الگ تھلگ کوئی فکری دھارا نہیں ہے بلکہ تاریخ کی کروٹوں
میں انسانی زندگی کا ایسا ساتھی ہے جس کے ارتقا میں اونچ نیچ اور اتھل پتھل
کے بہت سارے سلسلے موجود ہیں۔ اسی لیے محمد مجیب کا تجزیہ وسیع ترتناظر میں
ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ صرف تاریخ کے طالب علم یا صرف تصوّف کے رمزآشنا سے
ممکن نہیں تھا۔ محمدمجیب کا ذہنی سانچہ اس قدر سائنٹی فک ہے کہ یہ مذہب،
مسلک، علاقائیت، قومیت اور نہ جانے کتنی دیواریں توڑ کر ایک آزاد اور مکمل
شہری کی تلاش کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دیتا ہے۔
اس کتاب کا سب سے طویل مضمون ’’ہندستانی مسلمانوں میں معاشرتی اصلاح کے
تصوّرات اور تحریکیں‘‘ ہے جو ۳۷ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں تاریخی
تناظر تو ہے لیکن پچھلی دوصدیوں کے احوال زیادہ تفصیل سے سامنے آتے ہیں۔ اس
میں تحریک آزادی کے مجاہدین، ایسے مصلحین جن کے تعلق سے متعدد اختلافات بھی
قائم ہوئے اور ملک کے قوانین سے مسلمانوں کا تعلق وغیرہ سب باتیں زیر بحث
ہیں۔ اس مضمون کا وہ انداز ہر گز نہیں ہے جہاں اجمال حُسن ہے اور جن مضامین
میں محمد مجیب ایک ایک جملے میں بڑے حقائق سمو دیتے ہیں۔ یہاں صراحت اور
تفصیل کا راستہ چُناگیا ہے۔ سرسیّد کے تعلق سے محمد مجیب نے تقریباً تین
صفحات لکھے ہیں لیکن یہاں تجزیے میں محمد مجیب کا دانش ورانہ آہنگ اُبھر کر
سامنے آتا ہے۔ سرسید پر مختلف انداز کی تحریروں کی کمی نہیں، اس کے باوجود
یہ تین صفحات صاف گوئی کے ساتھ تاریخ کی طرف پلٹ کر دیکھنے کی ایک دوٹوک
مہم ہیں۔ اسی لیے سرسید کی تاریخی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ان کے نکتہ چینوں
کی سنجیدہ باتوں اور سرسیّد کی ناکامیوں پر بھی مساوی طور پر توجہ دی گئی
ہے۔
اس کتاب کے تین مختصر مضامین ––– ’’لال قلعہ‘‘، ’’فارسی عربی رسم الخط‘‘
اور ’’ادب میں ہندایرانی امتزاج‘‘ نہ جانے کس عالم میں محمد مجیب کے قلم سے
نکلے ہیں۔ زبان کی سطح پر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ انشا پردازی میں
شاعرانہ سحر کاری اس طرح سے بھردی گئی ہے جیسے کوئی مشّاق شاعر اپنی ایک
طویل نظم سنا رہا ہے۔ مجھے پہلی نظر میں یہ شبہہ ہوا کہ کہیں مترجم نے اردو
زبان کی عمومی شاعرانہ دل چسپیوں کو دورانِ ترجمہ انڈیل کرتونہیں رکھ دیا
لیکن جیسے ہی انگریزی مضامین سے ان کا موازنہ کیا تو آنکھیں پھٹی رہ گئیں
کہ محمد مجیب کے پاس زبان کا کیسا جادو ہے کہ انگریزی لکھتے ہوئے اردو
شاعری یا تہذیب کی لطافتوں کو انگریزی انشا پردازی کا کامیابی کے ساتھ حصّہ
بنادیتے ہیں۔ کسی پڑھنے والے کو یقین نہ آئے تو اسے محمد مجیب کے اس ترجمے
سے جستہ جستہ ربط رکھنا چاہیے تاکہ تخیّل، شاعرانہ اظہار اور ایک مورخ کی
اسلوبیاتی قدرت کا پتا چل جائے؟ ان مضامین سے چند مختصر اقتباسات قابلِ
توجہ ہیں :
(۱) ’’کسی چیز پر اتنی اداسی نہیں برستی جتنی کسی ایسے مکان پر جس میں رہتا
تو کوئی نہیں لیکن لوگ اسے دیکھنے چلے آتے ہیں۔ کسی ایسے محل کی اداسی جو
یادگار بن کر رہ گیا ہو، چاہے قومی یادگار سہی، اتنی ہی زیادہ یا کم ہوتی
ہے جتنی کہ کسی زمانے میں اس کی شان و شوکت رہی ہو۔‘‘ (ص۔۹۱)
(۲) ’’لیکن قلعے کا دروازہ دیکھو تو معلوم ہوتا ہے جیسے وفادار رعایا کو
دعوت دے رہا ہے کہ آؤ اور اپنے بادشاہ کے سامنے آداب بجالاؤ، بجاے اس کے کہ
یہ معلوم ہو کہ جیسے وہ اصلی دشمنوں کو یا ان لوگوں کو جو دشمن بن سکتے ہوں
ایک خطرہ معلوم ہو۔‘‘ (ص۔ ۹۳)
(۳) ’’لال قلعے کے عین دنیوی شان و شوکت میں اورنگ زیب نے ایک واقعی موتی
کی سی مسجد بنوادی۔ گویا یہ جتانے کے لیے کہ جب اُس کے چاروں طرف لوگ دنیوی
شان و شوکت اور طاقت کی پوجا کررہے ہوں تو وہ خدا سے لَو لگا سکتا تھا۔‘‘
(ص۔۹۶)
(۴) ’’جب مجھے اردو کے حروف تہجّی سکھائے جارہے تھے تو مجھے بدنویسی یا
خراب لکھنے پر سزا ملتی تھی۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ مجھے صرف بے پروائی
یا نالائقی کی سزا نہیں ملی تھی بلکہ تہذیب کی میں نے پوری طرح عزت نہیں کی
تھی، اس کی سزا ملی تھی۔‘‘ (ص۔۱۰۰)
(۵) ’’ مجھے نہیں معلوم پہلی ایرانی بلبل گلاب کے عشق میں اپنی بھرپور آواز
میں کب نغمہ بار ہوئی۔‘‘ (ص۔۱۰۵)
(۶) ’’میرے خیال میں سواے فارسی ادب کے اور کسی ادب میں کوئی ایسا تمثیلی
پیکر نہیں ہے جو اس درجے دال روٹی کی طرح عام بھی ہو اور شاعروں کے لیے
ایسا بھی جیسے جنّت کا میوہ، جو سامنے کی حقیقت بھی ہو اور ادب کے شائقین
کے لے انتہائی انوکھی بات بھی۔ فارسی شاعری میں اور خیالی پیکر یا امیج بھی
ہیں، ایسے ہی مثالی جیسے گل کے عشق میں مبتلا بلبل؛ مثلاً جام، ساقی، مَے،
نشہ، اور ان سب کی اصل وسرچشمہ محبوب۔‘‘ (ص۔ ۱۰۵)
(۷) ’’یہ تھے وہ لوگ جو بلبل اور گلاب کی کہانی، جام، ساقی اور شراب کی
پیکریت یا امیجری ہندستان میں لائے۔ وہ راسخ الاعتقادی کے سخت اور پریشان
کرنے والے دشمن ہی نہیں تھے، وہ عالمِ دینیات کی باریک نقاب میں چھپی ہوئی
منافقت کے مقابلے میں قانون (شرع) سے وابستگی کا زیادہ مخلصانہ اور دلی
اظہار کرتے تھے۔‘‘ (ص۔۱۰۹)
یہ کتاب صرف متفرق مضامین کا مجموعہ نہیں ہے۔ بیسویں صدی میں جس دانشورانہ
فکر کا ارتقا قومی تحریک اور آزادی کے بعد ملک کی صالح تعمیر کے دوران ہوا،
اسی فکر کے کچھ گل بوٹے اس کتاب کی زینت ہیں۔ اردو میں ایسے لکھنے والے
پچھلے زمانے میں کم نہیں تھے جن کے اندر طرح طرح کے تصوّرات اور قومی مسائل
کے حل کے لیے نئی نئی کونپلیں پھوٹتی رہتی تھیں۔ اردو نثر کے دامن میں
ابتدائی عہد سے ایسے بہت سارے ہنروران دکھائی دیتے ہیں۔ آج سے چارصدی پہلے
کی تصنیف ’’سب رس‘‘ کو کیا دانش ورانہ نثر کا نمونہ نہیں کہہ سکتے؟ انیسویں
صدی میں غالب، اس کے بعد سرسیّد اور ان کے رفقانے اردو نثر میں گوناگوں
قومی مسائل کو پیوست کرنے کا ایسا سلیقہ آزمایا جس کے نتیجے میں ہماری زبان
اور اس کے بولنے والوں میں فکروفلسفہ کی ایک چاٹ سی لگ گئی۔ شعر فہمی،
صوفیانہ موشگافیاں اور پھر زبان اور قوم کے معاملات ومسائل۔ سب میں ہمارے
اسلاف کی برابر دلچسپیاں رہیں۔ ’غبارِ خاطر‘ پڑھتے ہوئے بعض لوگ کبیدہ خاطر
ہوتے ہیں کہ یہ کتابرہ رہ کر اتنے دقیق علمی مسائل کی سرنگ میں کیوں چلی
جاتی ہے؟ اس کا بھی یہی جواب ہے کہ فکروفلسفہ ہماری زبان اور اس کے بولنے
والوں کی شریانوں میں دوڑتا ہوا ملتا ہے۔
محمد مجیب کی کتاب اسلامیانِ ہند کی اسی فکری جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ بھلے یہ
کتاب انگریزی زبان میں لکھی گئی لیکن لکھنے والے کی مادری زبان اردو ہی ہے۔
کتاب کے مشتملات پر غور کریں تو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اردو تہذیب کا پروردہ
شخص ہی ایسی کتاب اور ایسے مضامین لکھ سکتا ہے۔ اسی لیے اس کتاب کے ایک ایک
صفحے پر ہمارا قومی تفکّر، اختصاص وامتیاز جھلکتا ہے۔ یہاں لال قلعہ عمارت
نہیں بلکہ ہندستان میں اسلامی تہذیب کا ایک مینارہ ہے اور عربی اور فارسی
رسم خط سلیقہ مندی اور تہذیب کا عکس ہیں۔ محمد مجیب کی ہر تحریر میں اپنے
قومی اوصاف اور مذہبی امتیازات کے نئے نئے پہلو تلاش کر کے پیش کرنے کی
حیرت انگیز خوبی ملتی ہے۔
ہندستانی مسلمانوں کی بات کرتے ہوئے محمد مجیب مظلومیت کا استعارہ بن کر
گلے شکوؤں کا پشتارہ نہیں بنا دیتے بلکہ ہندستانی سماج کی سانسوں اور
دھڑکنوں سے ایسے پَل ڈھونڈ کر نکالتے ہیں جب مذہبِ اسلام یا مسلمانوں نے اس
ملک کی زندگی، تہذیب اور روح کو منور کیا تھا۔ یہ کام اتنے سلیقے، سپردگی
اور انہماک کے ساتھ محمد مجیب نے انجام دیا ہے جس سے بردارانِ وطن کے
آبگینوں کو ٹھیس بھی نہ لگے اور ہماری خدمات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہو
جائیں۔ تحریر میں ضبط کی ایسی قوت ہے کہ بادشاہت اور حکومتوں کے احوال بیان
کرتے ہوئے غرور اور تمکنت کے چھینٹے بھی نہیں پڑتے۔
محمد مجیب کی یہ کتاب انتہا ئی توازن سے مذہبی، سماجی، سیاسی اور نہ جانے
کتنے داخلی اور خارجی مسئلوں کو حل کرتی نظر آتی ہے۔ محمد مجیب دانش ور اور
مورخ کے ساتھ ساتھ ایک نامور ڈرامانگار بھی ہیں۔ ان کی نثر اختصار پسندی کا
ایک مثالی نمونہ ہے۔ اس زمانے میں ایسی نپی تلی زبان پر قدرت رکھنے والے
شاذونادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس زبان میں ایک وقار اور علمی شان کے آثار
روشن ہوئے ہیں۔ بیان پر ایسی قدرت ہے کہ کہیں لکھنے والا بہکتا نہیں اور نہ
ہی تاریخی احوال بتانے میں مثالوں کی بھیڑ کھڑی کردیتا ہے۔ کام کی باتیں،
صاف ستھری اور بے لاگ زبان میں ایک خاص دل نشینی کے ساتھ پیش کرنا محمد
مجیب کا بڑا کارنامہ ہے۔
یہ کتاب انگریزی مضامین کا ترجمہ ہے۔ مترجم پروفیسر محمد ذاکر ہیں جو خود
اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ایک ساتھ لکھنے اور ترجمہ کرنے کے لیے
شہرت رکھتے ہیں۔ آج ان کی عمر آٹھ دہائیاں پوری کررہی ہے۔ خدا انھیں سوبرس
اور زندہ رکھے۔ آمین۔ ان کی مشق دوچار برس کی بات نہیں بلکہ نصف صدی سے
زیادہ کا قصّہ ہے۔ ’کلاسیکی غزل‘ اور نظیر کا آوازہ بلند‘ عنوان سے ان کی
مختصر کتابوں کو پڑھنے کے بعد ان کی تنقیدی اور نثری صلاحیت کا اندازہ
ہوجاتا ہے۔ وہ نپی تلی زبان لکھ سکتے ہیں اور ایک ایک لفظ کو جملے میں
سمونے سے پہلے اس کا وزن ووقار اور مول تول سمجھ کر قدم بڑھاتے ہیں۔ اتنے
صبر اور اطمینان سے لکھنے والے اس زمانے میں شاید ہی میسّر آئیں۔ اردو سے
انگریزی اور انگریزی سے اردو نثر و نظم کے تراجم کے لیے وہ انعام یافتہ بھی
ہیں اور بڑے بڑے انگریزی پبلشروں کے پسندیدہ مترجم بھی۔
میرا یہ منصب نہیں کہ اس کتاب کے ترجمے کی جانچ پرکھ کر وں اور انگریزی
اردو کا موازنہ کرکے محمد ذاکر کی ترجمہ نگاری پر راے زنی کروں۔ لیکن جی
چاہتا ہے کہ چند مختصر اقتباسات پیش کرکے اصل انگریزی اور محمد ذاکر کے
اردو ترجمے کو براے مطالعہ پیش کردوں تاکہ اس تبصرے کے قارئین کو یہ پتہ چل
سکے کہ ہماری زبان میں کیسے کیسے روشن ستارے اور چاند سورج موجود ہیں جو
خاموشی سے بڑے بڑے علمی کام بغیر کسی دعوے کے کیے جارہے ہیں۔ پہلے اردو اور
انگریزی عبارتوں کا موازنہ ملاحظہ ہو جس سے انشا پردازانہ لطف و انبساط
حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انگریزی انشا کا حسن اور بے تکلّفانہ انداز اور اسی
کے پہلو بہ پہلو اردو زبان کا رچاو اور تطابق بٹھانے کا مترجم کا کمال اس
گوشوارے کے بغیر ممکن نہیں۔ یہاں مصنّف اور مترجم کا ماہرانہ اندازایک ساتھ
دیکھیے:
انگریزی (محمد مجیب)
"Finally, though it is not my business to discuss the influence of
Hinduism on the Muslims, I must say that if I were an eighteenth or
early nineteenth century Muslim, I could easily have become that public
nuisance called a reformer. I could have said, 'Islam is buried deep
beneath Hindu influences, let us dig it out, clean it and see what it
really looks like.'' (p-11)
-اردو ترجمہ (محمد ذاکر)
’’ایک آخری بات–– اگرچہ مسلمانوں پر ہندومت کے اثرات سے بحث کرنا (اس وقت)
میرا مقصد نہیں ہے لیکن اتنا میں ضرور کہوں گا کہ اگر میں اٹھارویں یا
اوائل انیسویں صدی کا مسلمان ہوتا تو میں آسانی سے لوگوں کے لیے وہ وبالِ
جان بن جاتا جسے ریفارمر یا مصلح کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ میں کہتا،
’’اسلام ہندو اثرات کے بہت نیچے دبا ہوا ہے۔ ہمیں اُسے کھود کر نکالنا
چاہیے، پاک صاف کرنا چاہیے اور پھر دیکھنا چاہیے کہ یہ حقیقت میں کیسا لگتا
ہے؟‘‘ (ص۔۳۲)
"Past, present and future will continue to merge into each other and
new form of thought and life will come into being. (p-66)
ï’’ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے میں مدغم ہوتے رہیں گے، فکرونظر اور
زندگی کی نئی صورتیں وجود میں آتی رہیں گی۔‘‘ (ص۔۴۴)
U"Nothing looks so drearly as a house that is not lived in but only
visited." (p-109)
ù’’کسی چیز پر اتنی اداسی نہیں برستی جتنی کسی ایسے مکان پر جس میں رہتا تو
کوئی نہیں لیکن لوگ اسے دیکھنے چلے آتے ہیں۔‘‘ (ص۔۹۱)
*"My pen works miracles', wrote Mir Ali, a calligraphist of Jahangir's
Court, and rightly enough is the form of my words proud of its
superiority over meaning. To each of the curves of my letters, the vault
of heaven acknowledges its bondage, and the value of each of my stroke
is eternity. (p-128)
¡’’میرا قلم معجزے دکھاتا ہے، میرے لفط کی ’شکل‘ کو اپنے پر فخر ہے کہ وہ
’معنی‘ سے برتر ہے۔ میرے حروف کی ہر گولائی کی خوبی کا گنبدِ آسماں بھی
معترف ہے۔‘‘ یہ ہیں دربارِ جہاں گیرکے خطّاط میر علی کے الفاظ‘‘ (ص۔۹۷)
iThe synthesis that was the result of the fusion of Iranian and Indian
cultures was not an imposed solution. Rose and nightingale, cup and
cup-bearer, do not force themselves into Indian literature. They become
a challenge and the consequence of the challenge is the search for a new
language, a new imagery and, what is most important, a new audience.
(p-130)
£’’وہ امتزاج جو ایرانی اور ہندستانی تہذیبوں کی باہمی آمیزش کا نتیجہ تھا
کوئی زبردستی سے بنایا ہوا محلول یا Solution نہیں تھا۔ گلاب اور بلبل، جام
اور ساقی زور زبردستی سے ہندستانی ادب میں نہیں آگئے۔ وہ تو ایک چنوتی، ایک
چیلنج ہیں اور اس چیلنج کا نتیجہ ہے ایک نئی زبان کی تلاش، ایک نئی امیجری،
یا پیکریت اور سب سے زیادہ نئے سامعین۔‘‘ (ص ۔ ۱۱۰)
s"The whole political history of mankind can be resolved into a struggle
between justice and self interest. (p-191)
Ã’’بنی نوع انسان کی پوری سیاسی تاریخ انصاف اور ذاتی مفاد کی کشمکش سے
تعبیر کی جا سکتی ہے۔ (ص۔ ۱۶۱)
U(Islamic influence on Indian Society : M. Mujeeb; Meenakshi Prakashan,
Meerut; 1972)
Ý(ہندستانی سماج پر اسلامی اثر اور دوسرے مضامین : محمد مجیب؛ اردو ترجمہ :
محمد ذاکر؛ دلّی کتاب گھر، دہلی؛ ۲۰۱۱)
بہاں صرف چھے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔ مقابلہ کرتے ہوئے صاف محسوس ہوتا
ہے کہ اصل کی شان کے پہلو بہ پہلو مترجم کی آن بان بھی قائم ہے۔ میرامن کے
سامنے ’نوطرزمرصّع‘ نام کی اردو کتاب ہی تھی جس کا پھر سے انھیں اردو ترجمہ
کرنا تھا۔ آج دونوں کتابیں سامنے ہیں۔ مترجم کی حیثیت سے انھیں جب جب آزادی
کی ضرورت تھی، اُسے انھوں نے متن کو استحکام دینے کے لیے حاصل کیا۔
ظ۔انصاری نے دستیوئیفسکی کے ناول ’ایڈیت‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ
انھوں نے اس ناول کی زبان میں سلاست، سادگی اور ہمواری کے بجاے ایک مانوس
رکھڑاپن قائم رہنے دیا کیونکہ اسی سے دستیو ئیفسکی کا سچّا اسلوب نکھر کر
اردو والوں کے سامنے آتا ہے۔ محمد ذاکر نے ترجمے کے دوران اصل متن کی
سرگوشیوں کا بھی اتنا خیال رکھا ہے کہ کوئی ایک آہٹ بھی اردو کا قالب پانے
سے بچ نہ جائے۔ اس کے لیے کہیں کہیں قوسین میں چند لفظوں کو بھرنے کی ضرورت
پڑی تو اس سے بھی گریز نہیں کیا۔
یہ کتاب بیش قیمت مضامین کا مجموعہ ہے اور جس سلیقے سے دلّی کتاب گھر سے
شائع ہوئی ہے، اس کے حساب سے سوروپے قیمت مفت حاصل کرنے جیسا ہے۔ آج کل
اغلاطِ کتابت تو اردو کتابوں کا زیور ہیں لیکن یہ کتاب تقریباً ایسی
کوتاہیوں سے پاک ہے۔ اردو کے طالبِ علم، ریسرچ اسکالر، اساتذہ اور تمام
مخلصین سے میری یہ سفارش ہوگی کہ اس کتاب کی ایک کاپی ہر خاندان میں لازماً
ہونی چاہیے۔ محمد مجیب کی انگریزی کتاب تو اب نایاب ہے، اس لیے اپنی زبان
میں اُن کے اِن مضامین کو پڑھ کر ہم اپنے اسلاف کی روشن ضمیری اور علمی
گہرائی پر خوش توہوہی سکتے ہیں۔ اردو نثر کے طالب علموں کے لیے بھی یہ ایک
رہنما کتاب ثابت ہوگی کیونکہ وہ یہ جان سکتے ہیں کہ سلجھی ہوئی زبان میں کس
انداز سے اہل علم گفتگو کرتے ہیں اور تاریخ وتہذیب اور مذہب وادب کو دیکھنے
اور سمجھنے کا حقیقی پیمانہ کیسا ہوتا ہے؟ مجھے خوشی ہے کہ محمد ذاکر نے
محمد مجیب کے ان بیش قیمت مضامین کا ترجمہ کرکے ہماری زبان کا دامن وقیع
کردیا ہے۔
اس کتاب میں مترجم نے جس دل جوئی سے خونِ جگر صرف کرکے اپنے تراجم پیش کیے
ہیں، اس سے اپنے آپ یہ توقع پیدا ہوتی ہے کہ کیوں نہیں ایک بھرپور مضمون
محمد مجیب کی شخصیت اور خدمات کے حوالے سے کتاب میں شامل کیا گیا۔ مترجم نے
اپنے ترجمے کے جو اصول بتائے ہیں، وہ دوجملوں میں مکمل ہوگئے ہیں۔ آج کل
لکھنے والے اپنے کاموں کا خود بھرپور طریقے سے تعارف کراتے ہیں۔ کون کون سے
نئے علمی نکات ان کی تحریر میں در آئے، اس پر بہ صراحت گفتگو ملتی ہے۔
مصنفین محمد مجیب کے لفظوں میں ’’مضحکہ خیز خود ستائی‘‘ کے نمونے تعارف میں
پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ محمد مجیب نے اپنی کتاب کا تعارف لکھتے ہوئے
ایک یادو جملے ہی اس انداز کے لکھے ہیں۔ محمد ذاکر نے ترجمے کے مرحلے میں
خودستائی سے گریز کی ایسی صورت نکالی جس میں عالمانہ بے پَروائی کی انتہا
سامنے آتی ہے۔ کیا یہ تجربہ اردو کے پڑھنے والوں کے لیےِ مفید نہیں ہوتا کہ
محمد ذاکر اس طویل ترجمے کے دوران محمد مجیب کے اسلوبِ بیان میں مطابقت
بٹھانے کے لیے انگریزی اردو کے جہان معنیٰ کی جو سیر کرتے رہے، اسے چند
صفحات میں قلم بند کرکے اپنے پڑھنے والوں کو بہ طور تحفہ عنایت کردیتے؟ اسی
طرح مترجم کا جو تعارف شاملِ کتاب ہے، وہ بھی اس انداز سے لکھا گیا ہے جس
سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جبر ہے جس کے تحت ان رازوں کو افشا کرنا ہے۔
مترجم کی کتابوں کی تفصیل ادھوری ہے اور بعض کے تو نام بھی شامل ہونے سے رہ
گئے ہیں۔ یہ درویشی اور فقر کبھی کبھی ہمیں عالمانہ بخل کا مرتکب بنادیتا
ہے۔
انگریزی سے ترجمہ کرنے کے دوران محمد ذاکر نے اردو کے لسانی مزاج کا ہر جگہ
خیال رکھا ہے۔ محمد مجیب کی زبان میں ذرا تجرباتی فضاہے اور ایک عجیب بے
تکلفانہ فضا میں یہ پروان چڑھتی ہے۔ محمد ذاکر نے اس بے تکلفی کو ترجمے میں
بہ کمال شامل کرلیا ہے لیکن انگریزی جملوں کی بناوٹ اوررموزِ اوقاف کے جبر
سے کبھی کبھی مترجم فتح یاب نہیں ہو پاتا ہے۔ خاص طور سے انگریزی کے جملوں
میں جہاں بغیر سکتہ اور وقفہ کام چلانے کا رواج ہے، وہاں کبھی کبھی اردو
میں اس کی لازمی شمولیت درکار ہوتی ہے لیکن مترجم آخر کیا کرے کہ دو زبانوں
کے پاٹوں کے بیچ اسے ہر لفظ اور ہر جملے کی ادائیگی میں صفحۂ اوّل سے آخر
تک پستے رہنا ہے۔ اسی لیے کہیں کہیں انگریزی کا جادو حاوی ہوجائے گا تو
کہیں اپنی زبان کا طلسم ؛ اور اس سے مفر نہیں ۔ یہ ہر مترجم کا مقدر ہے ۔
کتاب : ہندستانی سماج پر اسلامی اثر اور دوسرے مضامین
مصنف : محمد مجیب (انگریزی) اردو ترجمہ : محمد ذاکر
ناشر : دلّی کتاب گھر، ۳۹۶۱، گلی خانخاناں، جامع مسجد، دہلی۔۶
قیمت : ۱۰۰ روپے صفحات : ۱۸۴
٭٭٭ |