میں پاکستان ہوں-لازمی پڑھیے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ !

کچھ عرصے پہلے 14 اگست کے موقعہ پر ایک فورم پر انٹرویو کا سلسلہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔جس میں کچھ سوالات پیش کئے گئے تھے اور مختلف ممبرز آکر ان سوالوں کے مطابق جواب دے رہے تھے۔ بس ہمارے ذہن میں ایک خیال آیا اور ان سوالات کے جوابات میں یونہی ایک انٹرویو لکھنا شروع کردیا۔ امید ہے کہ تمام محب وطن پاکستانی ان نکات پر نہ صرف غور و فکر فرمائیں گے بلکہ عملی جدوجہد بھی کریں گے کیوں کہ باتیں تو بہت ہوتی رہتی ہیں اور ان موضوعات پر بہت کچھ لکھا بھی جاچکا ہے لیکن پاکستان کا آج مزید کسی لفظی تقریروں کا متحمل نہیں ہوسکتا ہمارے پاکستان کو صرف اور صرف عملی جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ضروری نہیں کہ ہم کوئی تحریک شروع کریں یا کوئی سیاسی جماعت بنائیں بلکہ آسان عملی جدوجہد کا پیغام اسی تھریڈ میں موجود ہے۔

آپ کا اصلی نام کیا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان

آپ کی عمر۔
چودہ اگست 2010 کو پورے 63 سال کی ہوجائے گی۔

کیا کبھی کسی سے محبت کی ہے اگر کی ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلا۔
محبت کے لئے شروع سے میری عادت رہی ہے کہ جس نے مجھ سے جتنی محبت کی میں نے اس سے اتنی ہی محبت کی مجھے حاصل کرنے کے لئے میرے جن بچوں نے قربانیاں دیں میں نے ان لوگوں کو نام دیا، رہنے کے لئے چھت دی، اور سب سے خاص انعام ان کی نسلوں کو ملا جس کا نام آزادی تھی لیکن رفتہ رفتہ آنے والی نسلیں مجھ سے محبت کم کرتی جارہی ہیں اور آزادی کی عظیم نعمت کو بھلاتی چلی جارہی ہیں ان نسلوں کو چاہیے کہ آزادی کی نعمت کو سمجھنے کے لئے ان لوگوں کو دیکھیں جن سے آزادی چھین لی گئی ہے اور آج سر عام ان کے بچوں کو بغیر کسی جرم کے گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے اور عورتوں کی بے عزتی کی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا یہ ہوتی ہے آزادی جس کی اہمیت کو کسی کو اندازہ نہیں اور ہوتا بھی کیسے؟ بھلا کسی پیٹ بھرے کو روٹی کی قیمت کا اندازہ بھی ہوتا ہے؟ تو آج نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ان بچوں میں اور میری محبت میں فاصلہ بڑھتا جارہا ہے بس میرا تو محبت میں یہی اصول ہے کہ مجھ سے جتنی محبت کرو گے اتنی ہی محبت پاؤ گے۔

آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے۔
میری خوراک تو میرے بچوں کا ایمانداری سے محنت کرنا ہے میرے بچے جو کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اپنی پوری محنت اور ایمانداری سے دل لگا کر محنت کرتے ہیں تو یقین مانیں کہ میرے جسم میں گویا جان سی پڑ جاتی ہے آپ کہیں گے کہ محنت تو سب ہی کرتے ہیں نہیں میرے بچوں محنت اس کو نہیں کہتے کہ جائز ناجائز راستوں سے صرف اپنے عیش و عشرت کے لئے دولت کمائی جائے بلکہ میرے لئے خوراک تو ایمانداری سے ٹیکس کی ادائیگی ہے ناجائز راستوں سے دولت کمانے سے اجتناب ہے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں اور مجھے سب سے اچھی غذا اس وقت ملتی ہے کہ جب امن و امان ہو تو میرا پیٹ بھرتا رہتا ہے جس کو آپ لوگ معیشت کہتے ہیں اور میری یہ پسندیدہ خوراک میرے بچوں کے ہی کام آتی ہے جب میں خوشحال ہوں گا تو یقینا میرا بچہ بچہ خوشحال ہوگا۔

آپ کی پسندیدہ ایکٹر اور ایکٹرس کون ہے۔
پسندیدہ تو نہیں بتا سکتا ہاں البتہ ناپسند ایکٹر میں مجھے وہ تمام سیاستدان جو محب وطن ہونے کی ایکٹنگ کر کے میرے بچوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور مجھے شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور میرے بچوں پتہ ہے میرے بچوں کی بڑی اکثریت کے چاہتے ہوئے بھی کہ ان سے جان چھوٹ جائے اور اچھے لوگ ایماندار لوگ اس ملک کی باگ دوڑ سنبھال لیں لیکن پھر بھی ایسے لوگ میرے بچوں پر کیوں مسلط ہیں؟ کیوں کہ میرے بچوں کی بڑی اکثریت ایسی ہی ہوگئی ہے اس کی آسان مثال یوں سمجھیں کہ جیسے میرے بچوں میں کوئی بزنس کے شعبے سے وابستہ ہے کوئی دوکاندار ہے تو کوئی سرکاری ملازم ہے تو کوئی پرائیوٹ ملازم ہے یا کوئی کسان ہے یا زمیندار ہے سب بچے اپنے اپنے ضمیر کو گواہ بنا کر سوچیں کہ آپ لوگوں میں سے کون کون ہے جو میرا درد دل میں رکھ کر اپنی ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کررہا ہے جس کو جہاں موقع ملتا ہے تو اپنی طرف سے کرپشن میں ملوث ہے بس فرق اتنا ہے کہ کوئی چھوٹے پیمانے پر تو کوئی بڑے پیمانے پر تو جب بڑی اکثریت سے لوگ کرپشن میں ملوث ہوں گے تو ان کو رہنما کیسے اچھے مل سکتے ہیں؟ یہ تو آپ لوگ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ آج اگر (دس روپے والی کرپشن میں ملوث) کسی شخص کو وزیر بنا دیا جائے تو وہ کیا کرے گا؟ کیا میرا درد محسوس کر کے ایمانداری سے وزارت کے فرائض ادا کرے گا یا جب دس روپے والے کرپشن میں ملوث شخص کو اختیار دس کروڑ والے کرپشن کا مل جائے گا تو وہ وہی حرکت کرے گا جو اپنی آج کی پوزیشن(دس روپے والی کرپشن میں ) میں کر رہا ہے کیوں کہ جب وہ آج اپنے محدود دائرہ اختیار ہونے کے باوجود میرا درد دل میں نہیں رکھتا تو وہ وزیر بن کر کیسے میرا درد دل میں رکھے گا؟ میرے بچوں یہ تو جیسی کرنی ویسی بھرنی والا معاملہ ہے۔

زندگی میں کس چیز کی کمی محسوس کرتے ہیں۔
ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا اسی میں میری ساری کمیوں کا احساس موجود ہے کاش کہ میرے بچے سمجھ جائیں ایک بادشاہ تھا وہ اپنے بستی میں ایک بڑا سا تالاب کھدواتا ہے اور پوری بستی میں اعلان کر دیتا ہے کہ آج رات کو پوری پستی والے اپنے اپنے گھروں سے ایک ایک بالٹی دودھ کی اس تالاب میں ڈالیں گے پھر رات کو تمام بستی والے ایک ایک بالٹی اس تالاب میں ڈال دیتے ہیں جب بادشاہ صبح صبح اس تالاب کو دیکھنے کے لئے جاتا ہے تو وہ حیران ہوجاتا ہے کہ پورے کا پورا تالاب بجائے دودھ کے پانی سے بھرا ہوتا ہے میرے بچوں پتہ ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں کہ بستی کا ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ ہر کوئی تو دودھ کی بالٹی تالاب میں ڈال رہا ہے تو میں اگر اکیلا پانی کی بالٹی ڈال دوں گا تو اس سے کیا فرق پڑے گا اور رات بھی ہے کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا میرے بچوں جب اسی طرح پوری کی پوری بستی نے یہی سوچ لیا تو اس تالاب میں پانی ہی بھرنا تھا دودھ کہاں سے ملتا میرے بچوں آج میرا یہی حال ہے کہ میرے ہر بچے نے یہی سوچ لیا ہے کہ سب لوگ کرپشن میں ملوث ہیں اگر ایک میں کر رہا ہوں تو اس سے کیا فرق پڑے گا اور جب میرے بچوں کی بڑی اکثریت نے یہی سوچ لیا تو پھر میرا ایسا حال تو بننا ہی تھا پھر میرے بچے کس کو روتے ہیں؟ کیوں کسی سے گلہ کرتے ہیں کہ فلاں سیاستدان نے ایسا کیا فلاں سرکاری افسر نے ویسا کیا میرے بچوں یہ تو سوچو کہ تم نے کیا کیا کیا تم نہیں ذمہ دار میری تباہی کے؟ تم گلہ کرتے ہو کہ سارا تالاب پانی سے بھرا ہوا ہے میرے بچوں یہ تو سوچو کہ تم نے کبھی دودھ کی بالٹی ڈالی؟

اس سائٹ کے یوزرز کے لیئے کوئی پیغام دینا چاہے گے۔
میں اپنے تمام بچوں کے لئے ایک چھوٹا سا واقعہ بطور پیغام کے دینا چاہتا ہوں اگر میرے بچے مجھے زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو اس پیغام پر ضرور عمل کریں گے۔

جب حضرت ابراہھیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا تو ایک ننھی سی چڑیا تھی جو اپنی چونچ میں پانی کا ایک قطرہ لاتی اور آگ کے پاس گرا دیتی۔ کسی نے دیکھا تو ہنس کے کہا کہ اے ننھی سی چڑیا کیا تیرے اس پانی سے آگ بجھ جائے گی۔ اس پر چڑیا نے کہا میں جانتی ہوں کہ میرے اس پانی سے آگ نہیں بجھے گی لیکن میں بروز قیامت تماشہ دیکھنے والوں کی صف میں کھڑے ہونے کے بجائے آگ بجھانے والوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہتی ہوں۔

میرے بچوں میرا بس یہی پیغام ہے کہ آپ اپنی طرف سے دودھ کی بالٹی ڈالنا شروع کریں کم سے کم آپ کا فریضہ ادا ہوجائے گا اور جب میرے بچوں کی اکثریت یہ عمل شروع کردے گی تو یقیناً پھر تالاب میں پانی کے بجائے دودھ نظر آنے لگ جائے گا۔
Nasir Noman
About the Author: Nasir Noman Read More Articles by Nasir Noman: 14 Articles with 14198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.