غربت کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
عالمی بینک کی رپورٹ ’’ورلڈ ڈیولپمنٹ
انڈیکیٹر‘‘ کے مطابق پاکستان کی 60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر
رہی ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں پاکستان کہیں سے زیادہ غربت پائی جاتی
ہے۔ بھارت میں غربت کی شرح 68 اعشاریہ 7 فیصد اور بنگلہ دیش میں ساڑھے
76فیصد ہے۔ پاکستان میں بے روزگاری ، مہنگائی اور ناخواندگی عوامی زندگی کے
سب سے بڑے مسائل ہیں۔ حکومتی دعوؤں کے برعکس حالیہ چند برسوں میں غربت میں
کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے ۔ جبکہ پاکستان کی وزارت برائے منصوبہ بندی
اور اصلاحات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد آبادی
کثیرالجہت غربت کا شکار ہے۔ واضع رہے کہ کثیر الجہت غربت میں صرف آمدنی کو
ہی معیار نہیں بنایا جاتا بلکہ صحت، تعلیم اور زندگی کی بنیادی سہولیات تک
رسائی کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق غربت کی سب سے زیادہ
شرح فاٹا اور بلوچستان میں ہے جبکہ شہری علاقوں میں غربت کی شرح 9.3 فیصد
ہے اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 54.6 فیصد ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقہ
جات یا فاٹا میں 73 فیصد اور بلوچستان میں 71 فیصد افراد غربت کی زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں 49 فیصد، گلگت بلتستان اور سندھ
میں 43 فیصد، پنجاب میں 31 فیصد اور آزاد کشمیر میں 25 فیصد افراد غربت کا
شکار ہیں۔ آزاد کشمیر کی بہتر معاشی صورتحال کی بنیادی وجہ یہاں کے باشندوں
کی بڑی تعداد کا بیرون ملک برسرروزگارہونا بتائی جاتی ہے۔ آزادکشمیر کے
بیرون ملک مقیم شہری قیمتی زر مبادلہ بھیجتے ہیں جو یہاں کے لوگوں کی
خوشحالی کابنیادی سبب ہے۔ وزارت برائے منصوبہ بندی اور اصلاحات کی اس رپورٹ
میں بتایا گیا ہے کہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں 10 فیصد سے کم افراد
غربت کا شکار ہیں اور اس کے برعکس بلوچستان کے قلعہ عبداﷲ، ہرنائی اور
برکھان میں 90 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
غربت کو کم کرنے کے لیے کثیر الجہت اقدامات کی ضرورت ہے جس میں سرفہرست
تعلیم، صحت اور امن وامان کی صورتحال کو بہتر کرنا ہے۔حکومت بجٹ میں ان
شعبوں کے لیے جو رقم مختص کرتی ہے وہ اول تو ناکافی ہوتی ہے اور دوسرا یہ
کہ رقم درست طریقے سے استعمال میں نہیں لائی جاتی، اور اس طرح یہ رقم
تنخواہوں کی ادائیگی اور انتظامی اخراجات کی نذرہو جاتی ہے۔پاکستان میں
غربت کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ملک و قوم کی امانت وہ خطیر رقم ہے
جو دوسرے ملکوں کے بینکوں میں پڑی ہے ، اور حکومت اس رقم کو ملک میں واپس
لانے میں سنجیدہ نہیں۔ جب سے وطن عزیز پاکستان معرض وجود میں آیا ہے یہاں
اقتدار چند خاندانوں کے درمیان ہی رہا اور انہوں نے وسائل کو اس بے دردی کے
ساتھ استعمال کیا کہ پاکستان کے غریب افراد کے لئے جسم اور سانس کا رشتہ
قائم رکھنا بھی مشکل ہوگیا۔ آج ہمارے حکمران عوام کو صبر کی تلقین کرتے ہیں،
کفایت شعاری کا درس دیتے ہیں لیکن اپنی شہ خرچیوں میں کوئی کمی نہیں لاتے،
اگر ہمارے حکمران اپنے شاہانہ اخراجات کم کرلیں تو ملک سے غربت دور ہوسکتی
ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھرمیں سترہ اکتوبر کا دن غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے
طور پرمنایا جاتا ہے۔ یہ دن سب سے پہلے 1987ء میں فرانس میں منایاگیا جب
Wresinski Joseph نے پیرس میں لیبرٹی پلازہ کے گرد ایک لاکھ لوگوں کو جمع
کیا تاکہ غربت، بھوک، تشدد اور خوف کے ستائے لوگوں کے لئے آواز بلند کی
جاسکے۔ جبکہ اقوام متحدہ نے انیس سوبانوے میں سترہ اکتوبر کو باضابطہ طور
پرغربت کے خاتمہ کا عالمی دن قرار دیا۔سترہ اکتوبرکا دن غربت اور محرومی کی
زندگی گزارنے والے لوگوں کی مشکلات کو سمجھنے اور ان کے مسائل کو سننے کا
موقع فراہم کرتا ہے۔ اس دن غربت، محرومی اور عدم مساوات کے خاتمے، بچوں کے
حقوق کے تحفظ اور غریب عوام کی حالت زار اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں
کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سیمینارز، مذاکروں، مباحثوں اور خصوصی
پروگرامز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مخیر حضرات اور ادارے غریب عوام کی فلاح و
بہبود کے منصوبوں میں معاونت فراہم کرتے ہیں تاکہ معاشرے کے غریب عوام کو
با عزت ذریعہ معاش میسر آسکے اور وہ اپنے خاندانوں کی خودکفالت کرنے کے
قابل ہو سکیں ۔
کسی بھی ملک و قوم کے لئے غربت وافلاس انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے
کیونکہ صرف غربت ہی کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں ۔ غربت وافلاس کے
تلخ وناگوار ذائقہ کے بارے میں حکیم لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ میں
نے دنیا کی تمام تلخیوں کو چکھا ہے لیکن غربت وافلاس کی طرح کوئی بھی شے
مجھے تلخ وناگوار محسوس نہیں ہوئی۔ عالمی ادارہ صحت کی نظر میں غربت مہلک
ترین بیماری ہے ،کیونکہ انسان کو ہر بیماری سے زیادہ غذائی کمی ذہنی و
جسمانی نقصان سے دوچار کرتی ہے ، برائی پیدا کرتی ہے، اور لوگوں کی ہلاکت
کا سبب بنتی ہے۔ دنیا بھر غربت زدہ علاقوں میں ہر روز صج ایک ارب سے زیادہ
افراد سو کر اٹھتے ہیں تو انھیں اپنے پیٹ کی فکر ہوتی ہے ،اور رات کو
معمولی کھانا کھا کر سوجاتے ہیں اور اس دردناک مصیبت کو محسوس کرتے ہیں ۔
مناسب غذا ہر انسان کی جسمانی توانائی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں کے لئے
اہم ضرورت ہے اور اس کا شمار زندگی کی ابتدائی ضروریات میں ہوتاہے۔ اسی طرح
انسان کی فکری نشودونما اور معاشرے میں ہوشیاری کے ساتھ زندگی گزار نے
،ترقی وپیشرفت اورتحرک کے لئے مناسب اور کافی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسلامی معاشرے کے باوجود اسلام کی روشن تعلیمات سے دوری، سماجی تعلقات میں
کمی ، اور خیر خواہی کے جذبے کا فقدان بھی معاشرے میں معاشرے میں غربت
وافلاس میں اضافے کا اہم ترین سبب ہے۔ اسلام غربت کے خاتمے کے لئے معاشرے
میں انصاف کے قیام کے ساتھ لوگوں میں باہمی تعاون کی ترویج کی تلقین کرتا
ہے تاکہ غریبوں اور مالداروں کے درمیان فاصلے میں کمی واقع ہو۔درست طریقے
سے زکوٰۃ کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اﷲ کے ذریعے سے معاشرے میں موجود
محروم طبقات کی پریشانیوں کا ازالہ اور غربت میں کمی ممکن ہے۔ جبکہ اس ضمن
میں حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ بیرون ملک بینکوں میں موجود ملکی سرمایہ
واپس لائے ، اور ملک سے غربت کے خاتمے کے لئے نوجوانوں کو باہنر بنانے اور
روزگار کی فراہمی کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرے ۔ کیونکہ کسی بھی ملک
کی ترقی میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ اس ملک کے عوام کا بے روزگار ہونا ہے،
اگر عوام کو روزگار میسر ہوگا تو ملک سے غربت خود بخود ختم ہو جائے گی۔
|
|