ظلم و ناانصافی پر مبنی معاشرے میں انصاف کی اپیل

گذشتہ دنوں گجرات کے ایک ہیڈ کانسٹیبل کی جانب سے اپیل بنام چیف جسٹس ، ڈی آئی جی پنجاب اور ڈی پی او گجرات شائع ہوئی جسمیں ہیڈ کانسٹیبل کے بقول وہ محکمہ پولیس میں گجرات میں بطور ہیڈ کانسٹیبل اپنی خدمات سرا نجام دے رہاتھا کہ 9-10-16ء کو ڈھکی چوک گجرات میں ایک موٹر سائیکل سوار نمبرGTL-6582کو روکا جس پر پر ایک نو عمر لڑکا سوار تھا۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ بچے کی عمر سولہ سال ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل نے اسے کہا کہ آپکی عمر ڈرائیونگ کی نہیں ہے لڑکے نے جواب دیا کہ میرا باپ ایڈیشنل سیشن جج ڈسکہ ہے میں انہیں کہہ کر آپکو نوکری سے فارغ کرادوں گا۔ آپ میرا چالان کرکے تو دکھائیں میں نے جب کاغذات مانگے تو وہ بھی نہ تھے میں قانون کے مطابق اسکا چالان کیاجس کی پاداش میں مجھے معطل کردیاگیا۔ ہیڈ کانسٹیبل نے مذکورہ تینو ں بڑوں سے کہا کہ اگر عدلیہ کیلئے قانون مختلف ہے تو میرے محکمے پولیس نے مجھے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی اگر مجھے معلوم ہوتا کہ نو عمر بچے کا چالان نہیں کرتا۔ اسکے بقول اس نے 15سالہ نوکری نیک نیتی سے کی ہے اسنے اپنی نوکری کی بحالی اور اپنی عزت نفس مجروح کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیاہے۔ واہ بھائی کیا بات ہے ہیڈ کانسٹیبل کی کہ وہ مطالبہ کررہاہے کہ میری عزت نفس مجروح کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اس ملک میں جہاں عزت صرف افسروں، سیاستدانوں، جاگیرداروں، وڈیروں اور بااختیار لوگوں کی گھر کی لونڈی ہے یہا ں پر ایک غریب آدمی کا عزت اور عدل و انصاف کا مطالبہ کرنا اور قانون کی پاسداری کا سبق دہرانا ہی بڑا جرم ہے۔ یہاں تو قانون اور انصاف بھی صرف پیسے والوں کو ملتاہے۔ ہماری عدلیہ کے بڑے جنکا بھاشن ہم روز سنتے ہیں زرا اپنی نچلی سطح پر چھوٹی عدالتوں میں کارکردگی کا جائزہ لیں تو انہیں پتہ چلے کہ عوام الناس کا انہوں نے کیا حال کررکھاہے معمولی وراثت کے مقدمات بھی جن کے بارے میں واضح شرعی قانون موجود ہیں وکیلو ں کی ملی بھگت سے برس ہا برس تک لٹکے رہتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ معمولی نوعیت کے مقدمات میں ہونے کے باوجود برسوں سے جیلوں میں پڑے ہیں۔ ہماری جیلوں میں قیدیوں کے رکھنے کی گنجائش تک موجود نہیں ہے۔ مظہر حسین نامی شخص جسے جھوٹی گواہی میں پھنسایا گیا تھا کو ایک عدالت نے 19سال قبل سزائے موت سنائی مظہر جسکے تین معصوم بچے ، بیوی ، والدین تھے کا پورا گھرانہ مسائل کی گرداب میں پھنس گیا ۔ رشتے دار، والدین، انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں کے طواف کرتے رہے جن میں اکثر بزرگ رحلت فرماگئے لیکن ہماری عدالتوں سے انہیں انصاف نہ ملا۔ تمام رشتہ اروں نے آنکھیں پھیر لیں صرف ایک بھائی، بیوی انصاف کے حصول کیلئے تگ و دو میں مصروف رہے۔ مقدمہ عدالتوں سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ یہاں آکر اپیل دب گئی۔ 6اپریل 2016ء جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بینچ میں اپیل پہنچی تو مدعی اور مجرم کی طرف سے کوئی موجود نہ تھا۔ مجرم کے وکیل بھی اس دوران ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔ عدالت نے سماعت ملتوی کرنے کی بجائے فائل کھولی مجرم مظہر حسین بے گناہ ثابت ہوا اور عدالت نے اسے بری کردیا۔ مجرم کی تلاش پر پتہ چلا کہ وہ تو دو سال پہلے اپنے ناکردہ قتل کی پاداش میں 19سال سے قید کے دوران ہی انتقال کرگیا۔ یہ حال ہے ہماری عدالتوں کا ایسے بے شمار کیسز ہماری عدالتوں میں موجود ہیں جنکا فیصلہ چند سماعت میں ہوسکتاہے لیکن سب کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔ جسکے باعث عوام انصاف کے حصول کیلئے لٹکی رہتی ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل جس نے قانون کے مطابق کارروائی کی چاہئے تو یہ تھا کہ اسے اسکا محکمہ تحفظ فراہم کرتا، انعام و اکرام دیتا لیکن الٹا اسے معطل کرنا ملک میں موجود پولیس کلچر کا ثبوت ہے۔ جس میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ ماورائے عدالت مبینہ پولیس مقابلوں میں زیر حراست ملزمان کو ہلاک کرنے کا سلسلہ ہماری انسانی حقوق کی تنظیموں کیلئے بھی ایک چیلنج ہے جنہیں صرف عورتوں کے حقوق ہی نظر آتے ہیں یا کسی غیر مسلم پر کوئی ظلم ہوجائے تو اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیاجاتاہے لیکن مظہر حسین اور ہیڈ کانسٹیبل نجم الحسن جیسے ظلم اور ناانصافیوں کی طرف ان کی توجہ ہرگز نہیں جاتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بھوک و افلاس نے کبھی کسی قوم، سلطنت کو تباہ نہیں کیا ہاں اگر کہیں ظلم و ناانصافی پر مبنی معاشرہ قائم ہے تو وہ ملک اس کے باعث زوال پزیر ہواہے۔ ہم آئے دن پولیس ، تھانہ ، کچہری میں ہونے والے ظلم و زیادیتوں کے سلسلے میں متاثرین کے مظاہرے، خودکشیوں، دھرنوں، اپیلوں کے واقعات سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں، تھنک ٹینکس، ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کیوں کہ وہ خود اسمیں ملوث اور ذمہ دار ہیں لیکن اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے اسکے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ایسے کرپٹ عناصر ضرور اﷲ کی پکڑ میں آئیں گے۔ آخر ظلم و ناانصافی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ آج بڑے سے بڑا ظالم، فراڈی، چور، قبضہ مافیا، رشوت خور ہمیں عدالتوں کی دھمکی دیتاہے کہ عدالت میں جاؤ ثابت کرو، ثبوت کے بغیر کوئی ملزم نہیں ہے ۔عدالتوں میں ثبوت فراہم کرنا اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کیونکہ پھر کئی پردہ نشینوں کی گرفت ہوتی ہے ۔ احتسابی اداروں میں کئی ملزمان کرپٹ عناصر اربوں کی کرپشن کرکے کروڑ دیکر اور کروڑوں والے لاکھوں دیکر باعزت بری ہوجاتے ہیں اور پھر سے دوبارہ زور شور سے کرپشن میں جت جاتے ہیں۔ ایسے ملک جہاں مسٹر10فیصد او رپانامہ لیکس والے حکمران ہوں وہاں عدالتیں، پولیس، احتسابی ادارے کیسے درست ہوسکتے ہیں۔ جہاں ہمارے کھربوں روپوں کے اداروں کو کروڑوں کے بھاؤ فروخت کرکے چندارب کا قرضہ سود پر لیکر اپنی عیاشیوں کے اسباب پیدا کئے جائیں جہاں کا صنعت کار ، حکمران، جاگیردار، کھربوں کا قرضہ لیکر معاف کروالے لیکن غریب کا چند ہزا رکا بجلی، گیس کے بدلے اور HBFC کے قرض پر پکڑ ہوجائے وہاں پر اﷲ تعالی جب پکڑ کرتاہے تو پھر نیک اور بد سب عذاب کا شکا رہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ناانصافی اور ظلم پر مبنی معاشرے اور طرز حکمرانی کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے کی ذمہ داری اجتماعی طورپر ہم سب پر عائد ہوتی ہے جس کے ادا کرنے میں ہم ناکام ہیں۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.